لوگ چڑچڑے اور بد مزاج کیوں ہوتے جا رہے ہیں، گالم گلوچ، غصہ، ہاتھا پائی اور مرنے مارنے پر تل جانا۔ یہ سب کیا ہے؟ ایسا لگتا ہے جیسے اسلام سے قبل کا زمانہ دوبارہ آ رہا ہے وہی گروہ بندیاں، کہیں بکری چرانے پہ جھگڑا تو کہیں گھوڑا آگے بڑھانے کی مار کٹائی اور لڑائی اس حد تک بڑھتے کہ قبیلوں کی جنگ میں بدل جاتے۔ لوگ نفسیاتی عارضوں میں مبتلا ہو رہے ہیں، قوت برداشت ختم ہوتی جا رہی ہے کہیں گھریلو جھگڑے ہیں اور طلاقوں کی شرح بڑھ رہی ہے کہیں ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے رابطوں کا فقدان ہے۔
دفاتر میں پروفیشنل جیلسی کے ساتھ ساتھ گروہی سیاست بھی ہے۔ ذہنی امراض میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن لوگ ڈاکٹرز کے پاس جانے کی بجائے سیلف میڈیکیشن کو ترجیح دیتے ہیں۔ دراصل ان تمام وجوہات کی جڑ بے یقینی کی کیفیت ہے۔ پتہ نہیں کل کیا ہو گا ہماری زمین ہماری ہو گی یا نہیں؟ مہنگائی کا طوفان، دواؤں کے مہنگا ہونے سے علاج کا نہ کروانا۔ حکمرانوں کی ضد اور بے جا میں نہ مانوں کی تکرار نے نفرت اور بڑھا دی ہے۔ ذہنی اور نفسیاتی بیماریاں بڑھ رہی ہیں، بے روزگاری نے ہر عمر کے لوگوں کو اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے۔ عوام کے مسائل کون حل کرے؟
عوام کے نام پر فرشتے ووٹ ڈالتے ہیں اور اقتدار کی دلہن کو جمہوریت کا بیش قیمت لباس پہنا کر رخصت کر دیتے ہیں۔ کیونکہ اقتدار کی دلہن بیاہ کر لانے کے لئے کروڑوں روپے، سرکاری مشینری اور میڈیا ہاؤسز کا تعاون درکار ہوتا ہے سیانے حساب لگا کر بتاتے ہیں کہ صرف ایک حلقے کے انتخاب پر چھ کروڑ روپے سے 50 کروڑ تک خرچ ہوتا ہے تب جا کر جیت مقدر ہوتی ہے۔ ہر آدمی الیکشن لڑ بھی نہیں سکتا اس کے لئے ایک خاص قسم کی عیاری، مکاری اور بے ایمانی کی ضرورت ہوتی ہے۔
جب الیکشن "پیسہ پھینک تماشہ دیکھ" کا ڈرٹی گیم بن جائے تو اہل اور دیانت دار لوگ کس طرح اس کھیل کا حصہ بن سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صادق اور امین ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اب بے ایمانی سے کمائی گئی دولت پر فخر کیا جاتا ہے۔ ذرائع آمدن پوچھنے والوں کو زہر آلود نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ نئے زمانے کے فرعون اپنے مخالفین کو شیروں کے آگے ڈالنے کی بجائے عرصہ حیات تنگ کر دیتے ہیں۔
کوئی اہل، صاحب حیثیت، تعلیم یافتہ انسان پاکستان میں محض اپنی ذاتی صلاحیتوں کی بنا پر انتخاب نہیں لڑ سکتا اور اگر دوست احباب میں یا محلے والوں میں وہ اپنی شرافت اور دیانت کی وجہ سے انتخاب میں جیت بھی جائے تو اسے کسی بھی محکمے میں کام نہیں کرنے دیا جائے گا، فنڈز نہیں دیے جائیں گے۔ دوسرے آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن کے بعد اسے لامحالہ کسی نہ کسی پارٹی میں شمولیت اختیار کرنی پڑے گی۔ بصورت دیگر خوار ہوتا پھرے گا اور صرف ڈیسک بجا کر اپنی جیت کی خوشی منا کر ایک نفسیاتی مریض بن جائے گا۔
ذرا سوچئے جب ایک حلقے کے الیکشن پر 50 کروڑ خرچ ہوتا ہو تو من پسند وزارت ملنے کے بعد پہلے وہ اپنے پچاس کروڑ وصول کرے گا جو باآسانی پہلے دو سال یا بعض حالات میں صرف ایک سال میں ہی مع سود واپس مل جائیں گے۔ ایسے میں عوامی مسائل کے بارے میں بھلا کون سوچے گا اور کیوں سوچے گا؟ الیکشن لڑنا ایک سرمایہ کاری ہے اور سرمایہ کاری کا اصول ہی منافع کمانا ہے۔ ایک بے سہارا اور یتیم قوم ڈپریشن اور فرسٹریشن کا شکار نہ ہو گی تو کیا امن و آشتی کے گیت گائے گی؟
کچھ مخصوص سیاسی اور مذہبی گروہ جب چاہتے ہیں دھرنوں اور احتجاج کی کال دے دیتے ہیں۔ شہر بند ہو جاتے ہیں ہر جگہ آگ لگا دی جاتی ہے۔ آئے دن کے ہنگاموں نے ویسے ہی معیشت کو کمزور کر دیا ہے پھر روزانہ کی بنیاد پر روزی کمانے والوں اور مزدوروں کے گھروں میں فاقوں کی نوبت آ جاتی ہے، لیکن پرواہ کس کو ہے۔ آخر حکومت ہے کہاں؟ جہاں ہے اور جیسی ہے سب جانتے ہیں۔ جہاں یہ حال ہو کہ مرکز نگاہ صرف اپنی ذات ہو وہاں کسی معذرت یا مذاکرات کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔
معذرت کرنا ہمارے علمائے کرام اور سیاست دانوں نے سیکھا ہی نہیں ہے۔ پھل دار درخت ہمیشہ اپنے پھلوں کے بوجھ سے زمین کی طرف جھکا رہتا ہے جبکہ ٹنڈ منڈ سوکھے درخت منہ اٹھائے آسمان کو تکا کرتے ہیں۔ احتجاج، ہڑتالیں اور جلسے جلوس قوموں کی تاریخ کا حصہ ہیں لیکن اس طرح نہیں کہ جب جس کا جی چاہا مرکزی شاہراہوں اور شہروں کو بند کر کے بیٹھ جائے۔
اس سب کا مقصد کوئی بھی عوامی ایجنڈا یا عوامی مسائل کا حل نہیں ہوتا اس میں صرف اور صرف سیاسی جماعتیں اپنے مخصوص سیاسی ایجنڈے کو پروان چڑھانے کے لئے سب کچھ کرتی ہیں۔ بھوک ہڑتالیں، جلسے جلوس اور لانگ مارچ تاریخ کا حصہ رہی ہیں جو کسی نیک اور کارآمد مقصد یا کسی اجتماعی، عوامی اور قومی مسائل کے حل کے لیے کی جاتی ہیں نہ کہ صرف اپنے مخصوص اور ذاتی ایجنڈے کو کامیاب کرنے کے لئے۔
ابھی گزشتہ مئی ایک لانگ مارچ ہوا تھا جس کی وجہ سے پنڈی اور اسلام آباد کے لوگوں کو بہت سی مشکلات اٹھانا پڑی۔ مرکزی شاہراہوں کو بند کر دیا گیا لوگوں کو اپنے کاروبار بند کرنے پڑے، گلیاں بازار ویران ہو گئے، لوگوں کو پریشانیاں اٹھانا پڑی۔ کوئی سفر پر نہ جا سکا، کوئی سکول نہ جا سکا کوئی ہسپتال نہ پہنچ سکا اور راستے میں دم توڑ گیا اور دوسری طرف بھی عوام ہی پستی ہے۔
جس میں عام لوگ حکومتی اداروں کے اہلکاروں کے ساتھ مار کٹائی، آنسو گیس کے شیل، لاٹھی چارج اور قید و بند کی مصیبت سے گزرتے ہیں اور سیاسی جماعتوں کے مخصوص ایجنڈے کو پورا کرنے کے لیے ایندھن بنتے ہیں جس میں وہ درجنوں کی تعداد میں زخمی اور ہلاک بھی ہوتے ہیں۔ ابھی اس مہینے میں ایک اور لانگ مارچ کی آمد آمد ہے، خدا جانے یہ اپنے اندر کیا کیا پریشانی اور مصیبت لائے گا اور ہمیشہ کی طرح دونوں طرف صرف عوام ہی سیاسی لیڈروں کی خواہشوں کا ایندھن بنے گی۔
عوام کو سوچنا پڑے گا کہ وہ کب تک ان سیاسی لیڈروں کے ہاتھوں میں کھیلتے رہیں گے، محلوں میں رہنے والے اور مہنگی گاڑیوں میں سفر کرنے والے اور پرتعیش کھانے کھانے والے کروڑوں اور اربوں کے بینک بیلنس والے کبھی بھی ان کے حقیقی لیڈر نہیں ہو سکتے اور نہ ہی وہ عوام کے حقیقی مسائل کو جان سکتے ہیں۔ کبھی آپ نے کوئی ایسا لیڈر دیکھا جو تین مرلے اور پانچ مرلے کے گھر میں رہتا ہو جس کے بچے عام اسکول میں جاتے ہوں وہ موٹر سائیکل پر سفر کرتا ہو؟ بدقسمتی سے ہمارے پاس ایسا کوئی لیڈر موجود نہیں ہے جو عام عوام کے اندر سے ہو۔ جس دن کوئی ایسا لیڈر عوام کے اندر سے آیا اس دن عوام کے اور پاکستان کے حقیقی مسائل حل ہونگے۔