Saturday, 23 November 2024
  1. Home/
  2. Blog/
  3. Qasim Imran/
  4. Gul Makai

Gul Makai

ملالہ یوسف زئی 12 جنوری، 1997 کو سوات کے علاقے مینگورہ میں پیدا ہونے والی خواتین کی تعلیم کی سرگرم رکن ہے اور اسے کسی بھی شعبے میں نوبل انعام وصول کرنے والی سب سے کمسن فرد ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اور اس کی وجہ شہرت اپنے آبائی علاقے سوات میں انسانی حقوق، تعلیم اور حقوق نسواں کے حق میں کام کرنا ہے جب مقامی طالبان نے لڑکیوں کو اسکول جانے سے روک دیا تھا۔

اب ملالہ کی تحریک انٹرنیشنل درجہ اختیار کر چکی ہے۔ علاقے میں اسکول کا ایک سلسلہ ملالہ کے خاندان کی ملکیت ہے 2009 کی ابتدا میں میں گیارہ یا بارہ سال کی ملالہ نے گل مکئی کے عنوان سے بی بی سی کے لئے ایک بلاگ لکھا جس میں اس نے طالبان کی طرف سے وادی پر طالبان قبضے کے خلاف لکھا تھا اور اپنی رائے دی تھی کہ علاقے میں لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ دی جانی چاہیے۔

ملالہ کی کہانی کا آغاز سوات کے ان دنوں سے ہوتا ہے جب انتہا پسندوں نے اس علاقے کو بندوق کی نال سے فتح کر لیا تھا اور وہاں رہنے والے پُر امن لوگوں کو ان کے گھروں سے کھدیڑکر نکال دیا تھا۔ ملالہ کے والدین اور بھائی بہن نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے۔ اس المناک صورتحال سے لڑنے کی ملالہ نے یہ سبیل نکالی کہ وہ " گل مکئی" کے فرضی نام سے ڈائری لکھنے لگی۔ یہ اس کے خاندان اور اس کے ساتھ رہنے والوں کی آزمائشوں کا قصہ تھا۔

" گل مکئی" کی ڈائری بی بی سی اردو سروس کے ہاتھ لگی اور وہاں سے نشر ہوئی، کسی کو یقین نہ آیا کہ یہ ڈائری نو دس برس کی بچی نے لکھی ہے۔ کچھ ہی دنوں بعد گل مکئی کے پردے میں چھپی ہوئی ملالہ یوسف زئی لوگوں کے سامنے آگئی۔ مقامی صحافیوں نے بی بی سی کے لیے اس کے انٹرویو کیے۔ بلاگ پر اس کی ڈائری کے جملے آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ ایک ایسے علاقے میں امن کا اور بچوں کی تعلیم کے حق کا استعارہ بن گئی جہاں ہر طرف دہشتگرد دندناتے پھرتے تھے۔

وہ ملک میں اور ملک سے باہر مختلف بین الاقوامی تنظیموں کی طرف سے بلائی گئی۔ اسے مختلف اعزازات دیے گئے اور جب سوات کے حالات بہتر ہوئے اور سواتیوں کی اپنے گھروں کو واپسی شروع ہوئی تو ملالہ بھی اپنے گھر والوں کے ساتھ گھر کو آئی، اس کی سہیلیاں بھی لوٹ آئی تھیں۔ اسکول پھر سے آباد ہوئے۔ بچوں کی چہکار سے علاقہ گونج اٹھا۔ یہ بات انتہا پسندوں کے لیے نا قابل برداشت تھی جو سوات سے لے کر سرگودھا تک اپنی شریعت نافذ کرنا چاہتے تھے۔ انھوں نے ملالہ کو دھمکیاں دیں لیکن جب اس نے ان کی ایک نہ سنی تو9 اکتوبر 2012 کو، ضلع سوات میں ایک بس میں امتحان دینے کے بعد، ملالہ یوسف زئی اور دیگر لڑکیوں کو تحریک طالبان پاکستان کے ایک مسلح دہشت گرد نے اسے (اس کی سرگرمیوں کا) بدلہ لینے کے لئے ایک قاتلانہ حملے میں گولی مار دی۔ مسلح دہشت گرد موقع سے فرار ہوگیا۔ ملالہ یوسف زئی سر میں گولی لگنے کے نتیجے میں بے ہوش ہو گئی تھی اور اسے راولپنڈی انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں تشویشناک حالت میں داخل کرایا گیا، لیکن بعد میں اسے مزید علاج کی غرض سے برطانیہ (برمنگھم) کے ملکہ الزبتھ اسپتال میں منتقل کیا دیا گیا۔

وہ جب اسے اپنے تئیں ہلاک کر رہے تھے اور یہ سمجھ رہے تھے کہ بارود بھری جن گولیوں کو اس کے بدن میں اتار رہے ہیں تو دراصل بدی کو ختم کر رہے ہیں۔ انھیں معلوم نہیں تھا کہ جسے وہ بدی کا نمائندہ سمجھ رہے ہیں، وہ دنیا میں لڑکیوں کی تعلیم کا استعارہ بن کر ابھرے گی۔ اپنے حسابوں انھوں نے جسے قتل کر دیاتھاوہ لڑکیوں کی تعلیم اور ان کی خود مختاری کے لیے جدوجہد کا ایک بڑا نام بن جائے گی۔ دنیا میں وہ جہاں بھی جائے گی۔ اس کی جی داری کی داستانیں اس سے پہلے پہنچیں گی۔ وہ بہ طور خاص نوجوان مسلمان لڑکیوں کے لیے رول ماڈل بن جائے گی۔

ملالہ کی زندگی آج کیا مغرب اور کیا مشرق سب ہی کو معلوم ہے۔ لوگوں کو یہ بھی یاد ہے کہ ملالہ پر ہونے والے قاتلانہ حملے کے بارے میں ہمارے کئی جید علما نے اور سونامی کی طرح آنے اور چھا جانے والے رہنما نے کیسے کیسے شکوک وشبہات پیدا کرنے کی کوشش نہ کی۔ یہ بھی کہا گیا کہ خدا جانے یہ واقعی طالبان ہیں بھی یا کچھ لوگ انھیں بد نام کرنے کے لیے ان کا نام استعمال کر رہے ہیں۔ وہ ایسا کہنے پر اس لیے مجبور ہوئے کہ ملالہ پر قاتلانہ حملہ کرنے والوں نے نہ صرف اس حملے کی ذمے داری فوراً ہی قبول کرلی تھی بلکہ اس کے ساتھ ہییہ اعلان بھی کیا تھا کہ ہمیں جب بھی موقع ملا ہم اسے قتل کرکے رہیں گے۔

ملالہ پر یہ حملہ ایک انتہائی وحشیانہ فعل تھا۔ یہ لڑکیوں کی تعلیم کو فروغ دینے اور عناصر کی انتہائی بدصورت خواہشوں کے خلاف سوات میں امن کے لئے لڑنے میں ہمت کی علامت ہے۔ آج بھی قوم کی بہادر بیٹی کی زندگی کے ہر شعبے میں اس کی تعریف کی جارہی ہے جس نے اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے کے لئے ان لوگوں کی دھمکیوں پر توجہ نہی دی جو کسی بھی مذہب پر یقین نہیں رکھتے۔ یہ حملہ ہرگز کوئی اسلامی عمل نہیں تھا۔ کیونکہ اسلام تو یہاں تک کہتا ہے کہ "جس نے ایک انسان کا قتل کیا اس نے پوری انسانیت کا قتل کیا" لہٰذا اس عسکریت پسند تحریک (ٹی ٹی پی) کے یہ مسلح دہشت گرد نہ تو مسلمان ہیں اور نہ ہی ان کا اسلام سے کوئی تعلق ہے۔ چناچہ اس دہشت گرد تنظیم (ٹی ٹی پی) کا پاکستان سے مکمل خاتمہ ہونا چاہئیے۔

ملالہ نے موت کا جس دلیری سے سامنا کیا، وہ اس کے اندر لڑنے کی بے پناہ صلاحیت کا اشارہ ہے۔ اس کو فرسٹ ایڈ مہیا کرنے والے ڈاکٹروں اور اس وقت کے صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری کو داد دینی چاہیے جنھوں نے انتہا پسندوں کے خوف اور دبائو میں آئے بغیر ملالہ کو ممکنہ حد تک بہترین طبی سہولتیں فراہم کیں۔ ایئر ایمبولینس کا اہتمام کیا، اسے متحدہ عرب امارات بھجوایا جہاں سے حکومت برطانیہ نے ملالہ کے دماغ کے نہایت نازک اور پیچیدہ آپریشنوں اور علاج کی ذمے داری اٹھائی۔ ان تمام افراد اور اداروں کی ستائش کے لیے لفظ نہیں ملتے۔

اس پر قاتلانہ حملہ کرنے والوں نے اس کی حتمی موت کا پروانہ لکھ دیا تھا لیکن وہ موت کے پنجے سے جس طرح نکل کر آئی، وہ یقیناً کسی معجزے سے کم نہیں۔ آج وہ پاکستان کے لیے باعث افتخار ہے۔ اسے جو اعزازات اور انعامات دیے گئے ان کی فہرست روزانہ طویل سے طویل تر ہوتی جا رہی ہے۔ اسے امن کا نوبل انعام دیا گیا جس کے بعد وہ دنیا بھر میں مشہور ہوگئی۔ اس نے اقوام متحدہ میں نوجوانوں کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیا اور اپنے ہر جملے پر داد وصول کرتی رہی۔ اس کا شمار دنیا کے با اثر ترین نوجوانوں میں کیا جاتا ہے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran