دو دہائیوں بعد طالبان نے ايک سال پہلے اگست 2021 میں افغانستان پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا، جن کو امریکی زیر قیادت فوجی اتحاد کے ذریعے اقتدار سے 2001 میں ہٹایا گیا تھا۔ سخت گیرشدت پسند گروپ نے ملک بھر میں تیزی سے پیش قدمی کیاور ایک صوبے کے بعد دوسرے صوبے پر قبضہ کرتے ہوئے گزشتہ سال 15 اگست کو افغان فوج کے بھاگنے کے بعد دارالحکومت کابل پرمکمل طور پر قبضہ کرلیا۔
غیرملکی افواج، جو وہاں سے نکلنے پر راضی ہو چکی تھیں، طالبان کی پیش قدمی کی رفتار سے دنگ رہ گئیں اور انہیں افغانستان سے باہر نکلنے کی اپنی رفتار تیز کرنی پڑی۔ بہت سے مغربی حمایت یافتہ افغان حکومت کے رہنما فرار ہوگئے، جب کہ طالبان کی حکمرانی سے خوفزدہ ان کے ہزاروں ہم وطن اور غیر ملکی ملک سے باہر پروازوں میں جگہ تلاش کرنے کے لیے بھاگ کھڑے ہوئے۔ ہفتوں کے اندر، طالبان پورے افغانستان پر قابض ہو گئے تھے جو وہ 1996 اور 2001 کے درمیان اقتدار میں اپنے پہلے دور میں نہیں کر پائے تھے۔
کئی سالوں تک جاری رہنے والی خونریز لیکن بالآخر کامیاب گوریلا مہم کے بعد اس گروپ نے 2020 میں امریکیوں کے ساتھ امریکی فوجیوں کے انخلا کے لیے ایک معاہدہ کیا تھا۔ معاہدے کے تحت، طالبان نے قومی امن مذاکرات، جو کبھی نہیں ہوئے، اور القاعدہ اور دیگر عسکریت پسندوں کو ان علاقوں میں کام کرنے سے روکنے کا عہد کیا جن پر طالبان کا کنٹرول ہے۔
اس گروپ کی اقتدار میں واپسی کے بعد، افغانستان کی معیشت تباہ ہوگئی، جس سے آبادی کے ایک بڑے حصے کو کھانے کے لیے کافی رقم اور دیگر ضروری اشیاء تک رسائی کے لیے جدوجہد کرنا پڑی۔ بیرون ملک رکھے گئے افغانوں کے اربوں ڈالر کے اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں کیونکہ بین الاقوامی برادری طالبان کی جانب سے تمام لڑکیوں کو تعلیم کی اجازت دینے سمیت سیکیورٹی، گورننس اور انسانی حقوق کے حوالے سے وعدوں کو پورا کرنے کا انتظار کر رہی ہے۔
اس پس منظر کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ افغانستان میں طالبان کے کنٹرول حاصل کرنے کے بعد تحریک طالبان پاکستان (TTP) جس نے 2014 کے بعد افغانستان میں پناہ لی تھی، نے بھی پاکستان میں دوبارہ سے سر اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ ٹی ٹی پی، افغان طالبان کے ٹیک اوور سے متحرک نظر آتی ہے اور پہلے سے زیادہ مضبوط نظر آتی ہے۔ طالبان کے اگست میں قبضے کے بعد ٹی ٹی پی اور افغان طالبان کے تعلقات کی گہرائی واضح ہوگئی۔ تقریباً فوراً، طالبان قیادت نے ٹی ٹی پی کے سینئر رہنماؤں اور قید کیے گئے جنگجوؤں کی ایک بڑی تعداد کو رہا کر دیا۔ ایسا لگتا ہے کہ طالبان کی حکومت نے ٹی ٹی پی کی اعلیٰ قیادت کو افغانستان کے اندر سیاسی پناہ اور نقل و حرکت کی آزادی فراہم کی ہے جس سے یہ گروپ پاکستان میں اپنی تشدد کی مہم چلا رہا ہے۔ جس کا واضح ثبوت اگست کے دوسرے ہفتے میں تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو ھے جس میں فوج کے جوانوں اور ڈی ایس پی کو یرغمال بنایا ہوا ہےجس میں ان پر تشدد اور زخمی حالت میں دکھایا گیا ہے۔
اس واقعہ نے ایک بار پھر سے لوگوں کے دلوں میں خوف بھر دیا ہے کہ کیا وہی پرانے دن واپس آ رہے ہیں جب سوات اور پاکستان کے ناردرن ایریا پر طالبان کا قبضہ تھا۔ جب طالبان کی عورتوں کو کھلے عام کوڑے مارنے کی ویڈیوز اور آئے دن لوگوں کو ذبح اور قتل کرنے کرنے کی خبریں آیا کرتی تھی اس وقت کو یاد کر کے لوگ آج بھی ڈر جاتے ہیں۔ 2007 میں جب تحریک طالبان پاکستان بنی تو انہی دنوں میں ملا ریڈیو کے نام سے مشہور ملا فضل اللہ نے سوات پر قبضہ کرلیا۔ ان دنوں سوات کے علاقے مینگورہ میں ایک جگہ خونی چوک کے نام سے مشہور ہوئی کیونکہ یہ لوگ وہاں اکثر کسی نہ کسی کا سر کاٹ کر لاش کو الٹا لٹکا دیتے تھے، سوات میں ان کی دہشت پھیلی اور اسی دور میں طالبان کی کارروائیاں بڑھ گئی اور پورے صوبے میں حملے شروع ہو گئے۔
سوات میں لڑکیوں کے سکولوں پر حملے ہوئے اور جب ملالہ یوسف زئی پر حملہ ہوا ہوا تب وہاں کے حالات ساری دنیا کے سامنے آئے۔ لڑکیوں کی تعلیم روک دی گئی، کاروبار ٹھپ ہو گئے، ٹارگٹ کلنگ ہوئی اور فنکاروں پر مکمل پابندی لگ گئی۔ کچھ عرصے بعد ملا فضل اللہ کا گروہ ٹی پی پی کا حصہ بن گیا اور جب 2013 میں پاکستان میں الیکشن ہوئے آئے تو لبرل سیاسی جماعتوں خاص طور پر پر اے این پی اور پیپلز پارٹی کے لیے الیکشن کمپین چلانا ناممکن ہو گیا۔ سوات پر قبضے کے بعد پورے مالاکنڈ ڈویژن پرشدت پسندوں کا قبضہ ہوا اور وہاں بھی اسی پیٹرن پر پولیٹیکل ورکرز اور اور لیڈرز کو کو ٹارگٹ کلنگ اور خودکش حملوں میں مارا گیا۔ اس کے علاوہ پشاور سکول قتل عام دہشت گردی کا حملہ سب سے زیادہ بھیانک، اندوہناک اور غیرانسانی تھا۔
دہشت گردی کا یہ حملہ جس میں سات بھاری مسلح طالبان جنگجوؤں نے 16 دسمبر، 2014 کو پاکستان کے شہر پشاور میں فوج کے زیر انتظام پرائمری اور سیکنڈری اسکول پر حملہ کیا، جس میں 150 افراد ہلاک ہوگئے، جن میں کم از کم 134 طالب علم بچے تھے۔ اس قتل عام کی پوری دنیانے مذمت کی۔ اس قتل عام کی ذمہ داری عسکریت پسند اسلامی تحریک طالبان کی پاکستانی شاخ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کی تھی۔ ٹی ٹی پی رہنماؤں نے اس حملے کو اپنے جنگجوؤں کی گرفتاری، ہلاکتوں اور حکومتی رد عمل کے نتیجے میں میں اس قتل عام کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کی۔ مبصرین کے مطابق سب سے زیادہ اشتعال انگیزی آپریشن ضرب عضب کی تھی جو پاکستان کی فوج قبائلی علاقوں اور شمالی وزیرستان میں ان عسکریت پسندوں کے خلاف کر رہی تھی۔
حرف آخریہ کہ ٹی ٹی پی کی ماضی اور حال ميں کی گی دہشت گردی کی کاروائیوں کو کسی بھی طور اسلامی ثابت نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اسلام تو امن کا درس دیتا ہے اور جنگ میں بھی نہتے لوگوں، خواتین، اور بچوں کو نقصان دینے سے روکتا ہے لہٰذاہ اس عسکریت پسند تحریک (ٹی ٹی پی) کے یہ مسلح جنگجو کسی طور پر بھی مسلمان نہی ہو سکتے اور ان کا اسلام سے دور کا بھی تعلق نہی۔ میں اس توسط سے پاکستانی گورنمنٹ اور مسلّح افواج سے اپیل کرتا ہوں کہ اس عسکریت پسند تحریک (ٹی ٹی پی) کا پاکستان سے مکمل خاتمہ کیا جاے اور اس تحریک سے وابستہ افراد کو قرار واقعی سزا دی جاے اور ان کو عبرت کا نشان بنا یاجاے۔
خبروں کے مطابق حکومت ان عسکریت پسندوں سے امن معاہدہ کرنے کیلئے بات چیت کر رہی ہے لیکن حکومت کو اس بات کو ضرور مد نظر رکھنا چاہیےیے کہ ماضی میں کیے گئے جتنے بھی امن معاہدے تھے وہ سب کے سب توڑ دیے گے اور لوگوں نے ان امن معاہدوں کے بہت بھیانک نتائج بھگتے۔ اس بار بھی اگر کوئی امن معاہدہ ہوتا ہے تو اس کے نتیجے میں ہزاروں کی تعداد میں ٹی ٹی پی کے جنگجو جو کہ قید میں ہیں یا افغانستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں وہ واپس آ جائیں گے۔ ان کے پاس اسلحہ ہوگا اور افغان طالبان کی مکمل سپورٹ بھی ہوگی۔
جیسے ہی ان کو کو سازگار ماحول ملا تو وہ اپنے وہی پرانے ایجنڈے کو پورا کرنے کے لیے اپنی کاروائیاں شروع کردیں گے۔ اور شاید اس بار حالات پہلے سے زیادہ بھیانک ہوں۔ اور وہ امن جو ہزاروں شہریوں، مسلح افواج کے جوانوں، اور پولیس افسران کی قربانیوں کے بعد حاصل ہوا تھا وہ ایک بار پھر سے برباد ہو جائے گا اور پاکستان اس بات کا بالکل بھی متحمل نہیں ہوسکتا۔