دنیا بہت تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ ہر روز کوئی محیرالعقول ایجاد سامنے آ جاتی ہے اور عقلوں کو خیرہ کرتی، محوِ حیرت چھوڑ دیتی ہے۔ گہرا مشاہدہ، تیز نگاہ اور تجربے سے حاصل ہونے والے علم کو ہم عام طور پر سائنس کہتے ہیں۔ یہ کائنات جس میں ہمارا سولر سسٹم اور ہماری دھرتی موجود ہے، ایک مادی کائنات ہے۔ مادے کے اپنے قوانین ہیں۔ مادے کے انھی قوانین کو جاننا اور پھر ان کو ایپلائی کر کے ایجادات کرنا سائنس اور ٹیکنالوجی ہے۔
معلوم انسانی تاریخ میں ترقی تو ایک جاری عمل رہی ہے لیکن یہ ترقی بہت سست رفتار سے آگے بڑھتی رہی ہے یہاں تک کہ صنعتی انقلاب نہیں آ گیا۔ صنعتی انقلاب نے دھرتی پر رہنے والوں کی زندگیوں میں انقلاب لا کر ایسی ایسی سہولتیں بہم پہنچا دی ہیں جن کا پہلے تصور بھی محال تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی سے ایسے تباہ کن ہتھیار بن چکے ہیں کہ ان کے بے جا استعمال سے روئے زمین پر پوری آبادی آنکھ جھپکتے ہی تباہی اور ہولناکی سے دوچار ہو سکتی ہے۔
کیا دو تین سو سال پہلے کا انسان یہ تصور بھی کر سکتا تھا کہ انسان ہوائی جہاز میں اُڑ کر لمبے لمبے فاصلے بہت کم وقت میں طے کر لے گا۔ کیا وہ یہ تصور کر سکتا تھا کہ ہزاروں میل دور ہونے والا کوئی بھی واقعہ آج کا انسان اپنے گھر میں براہ راست ہوتے دیکھ رہا ہو۔ کیا پہلے ممکن تھا کہ ہماری زمین سے رخصت ہونے والا خلائی جہاز مریخ پر ٹھیک اس جگہ اتر رہا ہو جہاں اترنے کے لیے اسے ہدایات دی گئی ہوں اور ہم اسے مریخ پر اترتے بھی دیکھ رہے ہوں۔
کیا چند سو سال پہلے کا انسان میڈیکل کے شعبے میں ہونے والی ترقی کے بارے میں سوچ بھی سکتا تھا۔ کیا وہ سوچ سکتا تھا کہ جگر ٹرانسپلانٹ ہو جائے گا۔ انجیوگرافی کے ذریعے اس کے دل کی شریانوں کو نہ صرف ٹھیک ٹھیک دیکھ لیا جائے گا بلکہ کسی بھی شریان میں دوڑتے خون کے آگے رکاوٹ کو سٹنٹ کے ذریعے کھول کر دل کو صحت مند بنا دیا جائے گا۔ یہ اور ان گنت ایسی ایسی ایجادات اور پروسیجر ہماری روزمرہ زندگی کا معمول بن چکے ہیں کہ آج کا انسان ان پر کسی حیرت کا اظہار نہیں کرتا اور ان کو بالکل نارمل لیتا ہے۔
اگر ہم اپنے اردگرد نگاہ دوڑائیں تو حیرت ہوتی ہے کہ حالیہ عہد میں کسی بھی ایجاد میں ہمارا کوئی حصہ نہیں۔ قرآن کتابِ ہدایت ہے۔ اس میں سات سو کے لگ بھگ ایسی آیات ہیں جو خالص سائنسی نوعیت کی ہیں۔ میں پوری ذمہ داری سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس عالم کی کسی دوسری مذہبی کتاب میں یہ صورتِ حال نہیں۔ اگر کہیں کسی کتاب میں کسی جگہ کوئی جملہ مل بھی جاتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ اس پر سوال مت اٹھاؤ، شک مت کرو، ایمان کی بات ہے اس پر ایمان لے آؤ لیکن قرآنِ مجید کا ایک بڑا حصہ ہمیں غور و فکر، تدبر و تفکر کی دعوت دیتا ہے۔ عقل والوں اور اہلِ علم کو جھنجھوڑتا ہے۔
دینِ اسلام کی پیروی کرنے والوں نے ابتدائی چند صدیوں تک سائنسی علوم میں بہت دلچسپی لی اور دنیا کو سائنسی انکوائری کی روایت سے مالا مال کیا، لیکن اس بات کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ کسی زمانے میں بھی قرآنِ مجید میں پائی جانے والی سائنسی نوعیت کی آیات سے مکمل استفادہ کا پروگرام نہیں بنایا گیا۔ قرآنِ مجید میں اجرامِ فلکی کے بارے میں کہا گیا کہ یہ تمام اجرامِ فلکی مستقل رواں دواں ہیں۔ اگر ایسی آیات کو سمجھ لیا جاتا تو صدیوں تک یہ کیوں مان لیا جاتا کہ زمین ساکت ہے اور سورج اور سولر سسٹم کے سیارے زمین کے گرد چکر لگا رہے ہیں۔
اب جب کسی متعلقہ فیلڈ میں نئی دریافت ہو جاتی ہے تو ہمارے مسلمان کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ یہ تو قرآنِ مجید کی فلاں آیت میں لکھا ہوا ہے۔ جی ہاں یقیناً لکھا ہوا تو ہے لیکن اس علم سے ہم دنیا کو اس لیے آگاہ نہیں کر سکے کیونکہ ہم نے سائنس اور ٹیکنالوجی سے ایک زمانہ ہو گیا، منہ موڑ لیا جب کہ اسلام کی پہلی تین چار صدیوں تک تمام سائنسی علوم کو آگے بڑھانے والے مسلمان اہلِ علم تھے۔
پھر روشن دین پر ملائیت کا غلبہ ہو گیا۔ عیسائی دنیا صدیوں تک اپنے اہلِ علم اور سائنس دانوں کی آواز دباتی رہی۔ جب عیسائی دنیا سائنسی علوم کے لیے جاگ رہی تھی، ہمارے ہاں ملائیت کی وجہ سے اندھیروں کی طرف سفر شروع ہو گیا تھا۔ پرنٹنگ پریس پر قدغنیں لگی رہیں، یوں علم و فنوں کا چرچہ ہونے کے بجائے، اجالوں کے بجائے اندھیروں کا راج ہونے لگا جو ابھی بھی بہت حد تک جاری و ساری ہے۔
میتھیمیٹکس سے پہلو تہی کرتے کرتے ہم ذہنی سطح میں بہت پیچھے چلے گئے۔ میتھیمیٹکس ایک ڈسپلن کے طور پر سائنس کی دنیا کی ملکہ ہے۔ میتھ میں کوشش کرنے سے دماغ کی راہیں وا ہوتی ہیں۔ سائنس کے ہر مضمون میں بہترین صلاحیت حاصل کرنے کے لیے میتھ میں بہت اچھا ہونا لازمی ہے۔ کیمسٹری، فزکس، آسٹرولوجی، زوآلوجی، باٹنی ہر مضمون میں ایکویشنز اور نومیریکل کا حل کرنا اور سمجھنا، سمجھانا بہت اہم ہے۔
اگر آپ میتھ میں کمزور ہیں تو آپ کے پاؤں دلدل میں دھنسنے لگتے ہیں، آپ بے نیل و مرام لوٹ آتے ہیں۔ میتھ میں اچھی قوم سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ہمیشہ آگے ہو گی بشرطیکہ اس قوم کے پاس ایک صحت مند سائنسی پروگرام ہو۔ اگر کسی قوم کے پاس ایک اچھا صحت مند پروگرام ہے تو یہ اس بات کی ضمانت ہے کہ اس قوم کا معاشی مستقبل شاندار ہو گا۔
یہ اس بات کی ضمانت ہے کہ یہ قوم ایجادات کرنے اور جدت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ایجادات کرنے اور نئی نئی جدت کی وجہ سے ملازمتیں پیدا ہوں گیں اور ملازمتیں وہیں رہیں گی۔ اچھے ذہین افراد کو یہ حوصلہ ملتا ہے کہ وہ اپنے ملک میں رہیں۔ چونکہ ایسی قوم ایجادات کی اہل ہوتی ہے اس لیے ایجادات کو اپنی مرضی کے نام دینے کا حق رکھتی ہے۔ اپنی ایجادات اپنی قوم کو سستی اور دوسروں کو مہنگا بیچ کر اپنی معیشت کو مضبوط کرتی ہے۔
اسرائیل کی یہودی ریاست نے اپنے قیام کے فورًا بعد ایک حیران کن پروگرام کا آغاز کر دیا۔ ہر حاملہ یہودی ماں کو بچہ پیدا ہونے تک تمام عرصہ حساب کے سوالات اور سائنس کی ایکویشنز کو سمجھنے کے لیے مصروفِ عمل کر دیا جاتا ہے تاکہ یہودی بچے سائنس کی دنیا کے روشن ستارے بن سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ سائنس میں اکثر نوبل انعامات جیتنے والے افراد یہودی ہیں۔
حکومت وقت اور اہلِ قلم سے یہی درخواست ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے نام پر ایک تحریک چلائیں جس میں قوم کو سائنس اور ٹیکنالوجی کا گرویدہ بنائیں۔ میری تمام ہم وطنوں سے دست بستہ التجا ہے کہ اسے ایک تحریک کی شکل دیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہر فرد اس تحریک میں اپنا حصہ ڈالے۔ یہی وہ راستہ ہے جس میں ہمارا سنہری معاشی مستقبل پنہاں ہے۔ لیکن افسوس کہ ہماری قوم مفاد پرست سیاستدانوں کے کھوکھلے فضول نعروں اور بیانیوں کے پیچھے فیس بک پر بیٹھی اپنا وقت ضائع کر رہی ہے۔