چنار کے درخت سے ہمارا ایک خاص تعلق ہے۔ قزاقستان سے ہمارے تعلق کی اپنی بنیادیں ہیں، گہری اور پائیدار۔ اس دیس سے ہمارے رنگ و نسل اور خون کے رشتے بھی ہیں، تاریخی مشترکات بھی ہیں اور عقیدے و ایمان کی یک جائی بھی لیکن یہاں ذکر چنار کا ہے۔ اس ملک کی پہچان بھی چنار ہی ہے لیکن بانداز دگر۔
قزاقستان کے دارالحکومت میں Bayterek Tower کی حیثیت ایسی ہی ہے جیسے لاہور میں مینار پاکستان کی۔ ہمارا یہ مینار اس عہد اور قرارداد کی یاد دلاتا ہے جو پاکستان کی بنیاد بنا۔ 1997 کا سال جدید قزاقستان میں اس اعتبار سے یادگار اور تاریخی ہے کہ اس سال امن و سلامتی کے فروغ کی علامت کے طور پر ایک شہر یعنی آستانہ(موجودہ نور سلطان) کی بنیاد رکھی گئی۔ اس واقعے کی یاد میں Bayterek Towerتعمیر کیا گیاجس اونچائی بھی 97 میٹر ہی رکھی گئی۔ Bayterek کا مطلب ہے، چنار، ایک قد آور اور فلک کو چھوتا ہواچنار۔ قزاقستان میں اسے زندگی کا درخت بھی کہاجاتا ہے۔
کہاجاتا ہے کہ حضرت پیر عبدالطیف شاہ قادری قلندری رحمتہ اللہ علیہ عرف بری امام نے کوئی تین سو برس قبل مارگلہ کی پہاڑی پر چناروں کے جھنڈ کے بیچ کھڑے ہوکر ترائیوں پر نگاہ ڈالی اور فرمایا:" یہاں " انھوں نے اس مقام کی طرف جہاں آج اسلام آبادکی رونقیں ہیں، اشارہ کیا اور کہا کہ یہاں اُس ملک کا دارالحکومت بنے گا جو آنے والی دنیا کی صورت گری میں اہم کردار ادا کرے گا۔ عین اسی طرح مینارِ چنار یعنی Bayterek Towerکے بیضوی سنہری جھروکے میں سبز رنگت کی ایک میز کے وسط میں دھات کی ایک بھاری تکون کے اندرصدر نور سلطان نذر بائیف کے ہاتھ کا نقش ثبت ہے۔
اس ہاتھ پر ہاتھ رکھیں تو ایک زور دار بینگ کے ساتھ ہی اس ملک کا قومی ترانہ بج اٹھتا ہے جس میں ہم آہنگی، بقائے باہم اور عزت و وقار کے لیے قومی اتحاد اور میثاق کی بات کہی گئی ہے۔ عمومی خیال یہ ہے کہ یہاں ہاتھ رکھنے والے شخص کے دل میں جو خواہش ہوتی ہے، پوری ہو کر رہتی ہے۔ شاید یہی سبب ہے کہ نور سلطان نذر بائیف کے ہاتھ پر ہاتھ رکھنے والوں کا تانتا بھی ہمہ وقت بندھا رہتا ہے اور ہاتھ کے رکھتے ہی بجنے والے قومی ترانے کے بول بھی کسی لمحے خاموش نہیں ہوتے۔
یہ دل خوش کن تجربہ اپنی جگہ اور اس کے ساتھ وابستہ خوش عقیدگی بھی لیکن اس ہاتھ پر ہاتھ رکھنے اور خواہش دہرانے والی بات میں ایک گہری رمز بھی پوشیدہ ہے جس کا تعلق امن ِ عالم، مذہبی ہم آہنگی اور بھائی چارے کے عزم صمیم کے ساتھ ہے۔ اس عزم کی ایک شان دار دستاویز اسی ہاتھ کے قریب ہی ایک اور پلیٹ فارم پر رکھی ہے جس پر دنیا کے بہت سے ملکوں، خاص طور اسلامی ملکوں کے مذہبی رہنماؤںکے دستخط ثبت ہیں، پاکستان کی طرف سے اس دستاویز پر پروفیسر ڈاکٹر محموداحمد غازی نے دستخط کیے کو اس وقت اسلامی نظریاتی کونسل کی نمایندگی کررہے تھے۔
یہ دستاویز پاکستان اور قزاقستان کے درمیان دراصل اس نظریاتی تعلق کو بنیاد فراہم کرتی ہے جو کئی دہائی قبل ہمارے بزرگوں نے آئین پاکستان کی صورت میں تیار کی جس میں رنگ، نسل اور کسی عقیدے کے امتیاز کے بغیر ہر شہری کو یکساں حقوق کی ضمانت دی گئی۔ یہ عین وہی نظریہ ہے جسے حالیہ برسوں یعنی ہمارے عہد میں پیغام پاکستان کی صورت میں زیادہ وضاحت کے ساتھ ایک ایسے عہد کی شکل دی گئی جس کی توثیق پاکستان کے تمام اہم علمائے کرام نے کی۔
پاکستان اور قزاقستان کے درمیان اس نظریاتی ہم آہنگی کی ایک اور اہم کڑی پروفیسر ڈاکٹر محمد ضیاالحق ہیں جنھوں نے پیغام پاکستان کی صورت میں شدت پسندی اور دہشت گردی کے خلاف ایک نظریاتی فصیل کی تعمیر کے لیے بنیادی کردار اداکیا ہے۔ وطن عزیز کے علمائے کرام کو ایک میز پرا کٹھے کرنا، ڈیڑھ دو برس تک ان کے درمیان مکالمے کا اہتمام کرنا اور پھر انھیں ایک مؤقف پر متفق کرکے وسیع پیمانے پر اتفاق رائے کے ساتھ ایک دستاویز کی تشکیل ان کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔
انتہاپسندی کے کے سدباب کے سلسلے میں جہاں دیگر عوامل اہمیت رکھتے ہیں، وہیں پیغام پاکستان کی اہمیت بھی بڑی بنیادی ہے۔ پاکستانی علمائے کرام کے درمیان ہم آہنگی، شدت پسندی کے رد کے ضمن میں ان کا باہم متفق ہونا اور ریاست کے اندر یا ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے کے معاملے میں ان کا متفقہ فتویٰ جہاں ایک اہم پیش رفت ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہی دستاویز اس امر کا تقاضا بھی کرتی ہے کہ جس سطح پر اتفاق رائے مسلمان علمائے کرام کے درمیان ہوا ہے، بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان میں رہنے والے وہ تمام لوگ جو اسلام سمیت دیگر مذاہب پر یقین رکھتے ہیں، ان کے اور اکثریتی آبادی کے درمیان بھی اسی قسم کا ایک میثاق ہونا چاہیے تاکہ معاشرے میں موجود اس مٹھی بھر گمراہ عنصر کوکسی شرارت کا موقع نہ ملے اور اگر وہ کوئی ایسی حرکت پر آمادہ ہو بھی تو قوم کی اکثریت ایسے بیمار لوگوں کا ہاتھ روک دے۔
یہی فکر تھی جس کے پیش نظرڈاکٹر ضیاالحق نے گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں ایک ایسا شاندار اجتماع منعقد کیا جس میں تقریباً تمام عقیدوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے سوچنے سمجھنے والے لوگوں نے بڑی بھرپور شرکت کی اور اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ قومی اتحاد اور یک جہتی کے لیے اس پلیٹ فارم پر مل کر کام کریں گے۔ ڈاکٹر ضیاالحق کی تجویز کے مطابق یہ پلیٹ فارم سائبان پاکستا ن کے نام سے وجود میں آگیا ہے جو پیغام پاکستان ہی کے ایک ذیلی پلیٹ فارم کے طور پر کام کرے گا۔
اس اجتماع میں قزاقستان کے نذر بائیف مرکز برائے بین المذاہب ہم آہنگی و مکالمہ (Nazarbaye Centre for Developement of Interfaith and Intercivilizayion Dialougue) کے سربراہ جناب آلتے ابیب اللہ ئیف کی موجودگی اس اعتبار سے زیادہ معنی خیز ہوگئی کہ انھوں نے بین المذاہب مکالمہ اور ہم آہنگی کے سلسلے میں اپنے ملک کے تجربات سے آگاہ کیا۔ ان کا یہ جملہ تو گویا حاصل "غزل" ہوگیا کہ مکالمے میں ہی زندگی ہے۔
اس خطے میں امن اور استحکام کے سلسلے میں پاکستان نے اپنی بہت سی دیگر تاریخی خدمات کے علاوہ پیغام پاکستان کی صورت میں ایک بڑا کارنامہ انجام دیا تھاجس کی تائید دنیا کے کئی دیگر ملک بھی کرچکے ہیں۔ اب بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے سائبان پاکستان کا پلیٹ فارم تشکیل پا رہاہے جو آنے والے دنوں میں ملک کی اکثریتی اور اقلیتی برادریوں کے درمیان ہم آہنگی کے فروغ کو ایک مضبوط بنیاد فراہم کرے گا۔
پاکستان میں رونما ہونے والی یہ تبدیلی خطے میں آنے والی دیگر تبدیلیوں، خاص طور پر بھارت میں مسلم کش فسادات کے ضمن میں زیادہ اہم ہے۔ ان تبدیلیوں کو اس تناظر میں بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ علاقے میں پاکستان امن، بھائی چارے اور برداشت کی علامت کے طور پر ابھر رہا ہے جب کہ بھارت میں صورت حال اس کے برعکس ہوتی جارہی ہے۔