سنبھل جاؤ، اللہ کے بندو، اب بھی سنبھل جاؤ۔ کورونا کوئی مرض ہی نہیں ہے، مکمل احتیاط اگر روا رکھی جائے مگر یہ آتش فشاں ہے، اگر خود کو حالات کے حوالے کر دیا جائے۔
کیا وائرس کے خلاف اپنی جنگ ہم ہار رہے ہیں؟ اسد عمر کے مطابق چند ہفتوں میں مریضوں کی تعداد 12لاکھ ہو سکتی ہے۔ آغا خان یونیورسٹی کراچی کے سیمینار میں ماہرین نے کہا کہ اموات کی تعداد دو لاکھ ہو سکتی ہے۔ ہفتے کے روز امپیریل کالج لندن کے سروے میں بتایا گیا کہ خدانخواستہ پاکستان میں 22 لاکھ انسان شکار ہو سکتے ہیں۔
غلطی کہاں سرزد ہوئی؟ حکمتِ عملی میں اب کمزوری کہاں ہے؟ ظاہر ہے کہ پاکستان واحد ملک نہیں، جہاں سنگینی کا اندازہ نہ کیا جا سکا۔ ابتدا میں چینی حکام نے محض ایک واہمہ قرار دے کر اس اندیشے کو مسترد کر دیا تھا۔ نشاندہی کرنے والے سائنسدان کو عتاب کا شکار ہونا پڑا۔ ڈونلڈ ٹرمپ تو حماقت کے ہمالہ پہ جا کھڑے ہوئے۔ وہ فرماتے رہے، نزلہ زکام ہے اور اس کے سوا کیا؟ حتیٰ کہ لاشوں کے ڈھیر لگ گئے۔ نیویارک کا مئیر چیختا رہا کہ دنیا کا سب سے بڑا تجارتی مرکز کورونا کا گڑھ ہوگیا ہے۔ وینٹی لیٹر سمیت دوسرا ضروری سامان مہیا کر دیا جائے تو پورے امریکہ میں وبا کی شدت کم ہو سکتی ہے۔ اس لیے کہ نیویارک سب سے بڑا تجارتی مرکز ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ لیکن اپنے موقف پہ ڈٹے رہے۔ جارج فلائیڈ کی موت کے بعد کالی آندھی اٹھی، تب بھی وحشت کا مظاہرہ کیا۔ فوج کے ذریعے مظاہرین کو کچل ڈالنے کی دھمکی دی۔
برطانیہ، برازیل، فرانس اور جرمنی سمیت کئی ممالک میں اندازے یکسر غلط تھے، لہٰذا نتائج تباہ کن۔ زیادہ ذمہ دار حکومتوں، مثلاً چین نے جلد ہی ادراک کر لیا اور ہر ممکن قدم اٹھایا۔ سنگاپور، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا اور ایک حد تک ویت نام نے بھی۔ ویت نام ابھی چالیس پچاس برس پہلے آزاد ہوا۔ بموں سے ادھڑی ہوئی سرزمین لیکن نہ صرف تیزی سے معیشت استوار کی بلکہ سول ادارے بھی تعمیر کر ڈالے۔
پاکستان میں حادثہ صرف یہ نہیں کہ بعض دوسرے ممالک کی طرح قیادت معاملے کو سمجھ نہ سکی۔ اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ کئی طرح کے مزاحمت کرنے والے میدان میں اترے۔ اداروں کی حالت ظاہرہے کہ بہت ہی پتلی ہے۔ ایران سے آنے والے زائرین کو تفتان میں سنبھال لیا جاتا تو تباہی اس قدر نہ پھیلتی۔ تبلیغی جماعت کا اجتماع اگر روک دیا جاتا۔ اگر وہ خود سمجھ سکتے یا انہیں سمجھا دیا جاتا کہ اے واعظینِ کرام آپ کی زندگیاں خطرے میں ہیں او رآپ کی وجہ سے ہزاروں لاکھوں دوسروں کی بھی۔ ڈیرہ غازی خان میں قائم کیمپ میں، مریضوں کو اگر دیواریں پھلانگ کر کبڈی کھیلنے کی اجازت نہ دی جاتی۔ یومِ شہادت امیر المومنینؓ پر جلوس نکالنے اور مجالس کی بجائے قدرے مختلف قرینہ اختیار کر لیا جاتا۔ اس واقعے کے فوراً بعد برہم او ربیزار مفتی تقی عثمانی اگریہ فتویٰ جاری نہ کرتے کہ دوسرے مکتبۂ فکر والے جوق در جوق مساجد کا رخ کریں۔ عید کے اجتماعات اگر اس انداز میں منعقد نہ ہوتے۔ مارکیٹوں میں دوکاندار اور گاہک اگر ایک ذرا سی احتیاط برتتے۔
صرف مذہبی طبقہ ذمہ دار نہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اس سے کہیں بڑھ کر۔ انہی کی ذمہ داری تھی کہ یہ سب کچھ برپا نہ ہونے دیتے۔ آبادی کے تقریباً تمام طبقات نے پرلے درجے کی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔ اگر یہ جملہ بہت تلخ ہے تو یہ عاجز معافی کا خواستگار ہے۔ کہہ لیجیے کہ کم فہمی کا۔
Waiting for Allahکی مصنفہ Lamb Christina نے اپنی کتاب کے عنوان میں ہمارے بارے میں سبھی کچھ کہہ ڈالا۔ صدیاں بیتنے کو آئی ہیں کہ ذہنی طور پر غلام کے غلام ہیں۔ کیسی عجیب قوم ہے کہ قائدِ اعظمؒ اور اقبالؒ ایسے عظیم مفکرین کو سموچا نگل گئی۔ اقبالؒ نے کہا تھا ؎
تقدیر کے پابند نباتات و جمادات
مومن فقط احکامِ الٰہی کا ہے پابند
سرکارﷺ کی زبان سے جو احکام ہم تک پہنچے تھے، ان کاخلاصہ چار الفاظ میں بیان کیا جا سکتاہے: دعا، صدقہ، پورا پرہیز اور بہترین علاج۔ مکّہ میں سرکارﷺ نے اپنے ایک صحابیؓ کو ایک غیر مسلم طبیب کے سپرد کیا تھا کہ زخم بھرنے میں نہیں آتے تھے۔ پھر معالج کی ستائش کی اور کہا کہ یہ طبیب ہے۔ پکار کر اللہ کی کتاب کہتی ہے: انسانوں کے لیے وہی کچھ ہے، جس کی انہوں نے جستجو کی۔ قدسی حدیث سناتے زبانیں تھک گئیں: اللہ نے عقل کو پیدا کیا تو اس پہ ناز فرمایا اور کہا کہ آج کے بعد جو کچھ کسی کو دوں گا تیرے طفیل دوں گا اور جو کچھ کسی سے لوں گا، تیری وجہ سے لوں گا۔
تاریخ کے بہترین میں سے بہترین حکمران عمر ابن خطابؓ کو موزوں ترین خراجِ تحسین شاید ڈاکٹر حمید اللہ نے پیش کیا تھا۔ لکھا کہ 26 ادارے انہوں نے تخلیق اور تعمیر کیے۔ سب سے اہم سوشل سکیورٹی مگر ملٹری انٹیلی جنس، بہترین عدالتوں اور پولیس کا قیام بھی۔۔ ادارے! قوموں کی تاریخ یہ کہتی ہے کہ سرفراز وہی قومیں ہوتی ہیں، جن کے سول ادارے مضبوط ہوں، جس طرح کہ بہترین دفاع بہترین فوج کے بل پر ممکن ہے۔ علاؤالدین خلجی نے منگولوں کا منہ پھیر دیا تھا۔ پورے وسطِ ایشیا کے بعد ایران اور عراق کو روندتے ہوئے جودمشق کی فصیل تک پہنچے۔
وزیرِ اعظم جسینڈا نے نیوزی لینڈ سے کورونا کو مار بھگایا۔ ہماری وزیرِ ماحولیات زرتاج گل فرماتی ہیں: یہ بہت آسان تھا، آبادی ہی کم ہے۔ کیا کہنے، کیا کہنے۔ یہ وہی محترمہ ہیں، جنہوں نے کہا تھا کہ عمران خان کے طفیل بارشوں کی صورت پاک سرزمین پہ اللہ کی رحمت برس رہی ہے۔
ٹائیگر فورس کی کوئی ضرورت نہ ہوتی اور اب بھی یہ کہنا مشکل ہے کہ کتنی وہ مفید ثابت ہوگی۔ یہ پولیس کا کام تھا کہ لوگوں کو ماسک پہننے پر مجبور کرتی۔ ڈنڈا چلائے بغیر، راستے میں اگر مسافروں کو روک دیا جاتا۔ احساس دلایا جاتا کہ وہ اپنی اور دوسروں کی زندگیاں خطرے میں نہ ڈالیں۔ پولیس نے تو مگر کرشمہ کردکھایا۔ تاجروں سے ساز باز کر لی۔ ان سے بھتہ وصول کرنے لگے۔ پہلی بار شاید کسی برادری نے اس خوش دلی سے بھتہ دیا ہو۔ کیا دولت ہمارا خدا ہے؟
وزیرِ اعظم اپیل پہ اپیل کرتے رہے۔ اپیل کی نہیں، سینہ کوبی کی ضرورت تھی۔ چیخ کر احساس دلانے کی۔ ٹرین اگر برق رفتاری سے بھاگتی ہوئی چلی آتی ہو تو ریلوے لائن پر کھڑے کسی شخص کو جیسے چیخ کر پکارا جاتاہے۔ جیسے گھانا کے صدر۔ اپنے لوگوں سے جو کچھ اس نے کہا، خلاصہ اس کا یہ ہے:
اب تمہارے لیے خدا اپنے قوانین نہیں بدلے گا اور نہ اپنی ساری رحمت و قدرت کے ساتھ تمہیں بچانے کے لیے آسمان سے اتر ے گا۔
سنبھل جاؤ، اللہ کے بندو، اب بھی سنبھل جاؤ۔ کورونا کوئی مرض ہی نہیں ہے، مکمل احتیاط اگر روا رکھی جائے مگر یہ آتش فشاں ہے، اگر خود کو حالات کے حوالے کر دیا جائے۔