Saturday, 30 November 2024
  1. Home/
  2. Haroon Ur Rasheed/
  3. Sawal

Sawal

جہنم کی آگ اور بہشتِ بریں کے درمیان حائل صرف یہ سوال ہوگا کہ قلب و دماغ کی یکسوئی سے کوئی اللہ کی آخری کتاب پہ ایمان رکھتا تھا یا نہیں۔

بندے خود غرض ہیں لیکن ان کا ایک پروردگار ہے۔ وہ رؤف الرحیم ہے۔ اپنی کتاب میں اس نے لکھ دیا کہ اس کی صفتِ رحم اس کی صفت عدل پہ غالب ہے۔ وہ خطائیں معاف کرتاہے۔ سب کی سب، تمام کی تمام، اوّل سے آخر، سب معاف کرتاہے۔ معافی کیا معنی، اس کا وعدہ ہے، صاف اور صریح وعدہ کہ سچّے دل سے توبہ کرنے والوں کے گناہ نیکیوں میں بدل دیے جائیں گے۔ چھوٹی سی اوّلین خطا والے سیدنا آدم علیہ السلام تو ظاہر ہے کہ بہشت بریں کے اعلیٰ ترین درجوں میں ہوں گے۔ رحمتہ اللعالمینؐ اور سیدنا ابراہیمؑ کے ساتھ کسی سیارے میں، جہاں سب نعمتیں، سب مسرتیں، سب کامرانیاں اور سب لطف پیغمبرؐ کے قدموں میں ڈال دیے جائیں گے۔

ہر کلمہ گو بھی جنت ہی میں جائے گا۔ کچھ خطائیں معاف کر دی جائیں گی، کچھ کو انتظار کرنا ہوگا، کچھ کو سزا ملے گی۔ کچھ کا انتظار آسان، کچھ کا مشکل ہوگا۔ جنت میں کلمہ گو مگر سبھی جائیں گے۔ ایک بار بھی جس نے دل سے کہا: کوئی معبود نہیں اللہ کے سوا اور محمدؐ اس کے رسول ہیں۔ صلو علیہ وآلہ۔

فرمادیااور جب فرمادیا تو یہ ابد آباد کے لیے ہے۔ صرف گردشِ لیل و نہار کے قائم رہنے تک نہیں بلکہ اس کے بعد بھی۔"اللہ کو کیا ہے کہ تمہیں عذاب دے اگر تم ایمان لاؤ اور شکر کرو"

جنت کی کنجی ملّا کے ہاتھ میں نہیں۔ ملّا کیا، فرشتوں کے ہاتھ میں بھی نہیں۔ نیت ایک ایسی چیز ہے، جو دل کی گہرائیوں میں پوشیدہ ہوتی ہے اور صرف خالق ہی اس کے خم و پیچ کو جانتا ہے۔ نامہء اعمال لکھے جاتے ہیں بلکہ ایسا لگتاہے کہ کسی سپر کمپیوٹر میں ہر لمحہ فلمایا جارہا ہے۔ کبھی تو ایسا لگتاہے کہ ناخنوں سے لے کر سر کے بالوں تک ہر کہیں کمپیوٹر نصب ہیں۔ روزِ قیامت ایک ایک بال اور ایک ایک ناخن بھی گواہی دے گا۔ پھر بھی طالبِ علم کو پوری طرح یقین ہے کہ سب مسلمان بہشتِ بریں کے مکین ہوں گے۔

صرف وہ نہیں ہوں گے، جو قرآنِ کریم کو اللہ کی کتاب نہیں مانتے۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتاہے کہ منکرینِ حدیث بھی معاف کر دیے جائیں گے۔ شرط وہی ہے کہ اللہ کی آخری کتاب کو دل کی گہرائیوں سے مانتے ہوں۔ اگر صرف خبطِ عظمت میں، اس کی آیات دہراتے اور وعظ فرماتے ہیں تو ممکن ہے کہ معاملہ دوسرا ہو۔ اگر زعمِ تقویٰ کی آبیاری ہی ترجیحِ اوّل و آخر ہے تو ممکن ہے کہ عقوبت دراز ہو جائے۔ شاید دائم بھی ہو جائے۔ اگر عالمِ دین نہیں، وہ بہروپیے ہوں۔

کسی کا نام لینے سے کیا فائدہ۔ احساس اب یہ ہونے لگا ہے کہ ذاتی تنقید سے فائدہ وقتی، نقصان دیرپا ہوتاہے۔ 642عیسوی سے صور پھنکنے تک تمام انسانوں کی ہدایت کے لیے مبعوث کیے گئے ابو القاسمؐ نے اونٹنی پر اپنے ساتھ بیٹھے نوجوان صحابی کو مخاطب کیا اور اس مفہوم کا جملہ کہا:لڑکے تمہیں ایک بات نہ بتا دوں؟ جس نے کہا: اللہ ایک ہے اور محمدؐ اس کے رسول ہیں، وہ فردوس کا حق دار ہو گیا۔

تخیل پرواز کرتااور تصویر بناتا ہے۔ شاید کچھ فرضی، شاید کچھ سچی بھی ہو۔ نوجوان نے سر جھکا لیا ہوگا، شکر ادا کیا ہوگا، شاید رحمتِ پروردگار کی لا متناہی سے آنکھیں بھیگ گئی ہوں۔ یہ ختم المرسلینؐ کے رفیق تھے۔ خوشخبری پا کر وہ اور بھی زیادہ امانت دار ہو نے لگتے، اور بھی زیادہ صداقت شعار، اور بھی عبادت گزار، اور بھی نرم خو، اور بھی ایثار کیش۔

ہمارا شعار دوسرا ہے۔ ہمارے طرزِ احساس میں ٹیڑھ ہے۔ جنت کی بشارت پا کر ہم یہ سوچتے ہیں کہ ابھی تو زندگی پڑی ہے۔ کیوں نہ اس میں دنیا کا لطف اٹھایا جائے؛حالانکہ دنیا میں لطف ہے کہاں۔ بس ایک دھوکہ ہے۔ فرمایا: لالچی جھوٹے کے ہاتھوں لٹتا ہے۔ ابلیس سے زیادہ جھوٹا کون ہے؟ نفسِ انسانی سے زیادہ فریب دینے والا کون؟ ساری دنیا مل کر بھی آدمی کواتنے فریب نہیں دے سکتی، جتنے آدمی خود کو دیتا ہے۔ ابلیس کی تمام اولاد اکھٹی ہو کر بھی شایدا تنے آدمیوں کو نہ بھٹکا سکے، جتنا خود کوہم بھٹکاتے ہیں۔

دیگیں چڑھائیں، پلاؤ اور قورمہ پکایا۔ زردے میں بادام، پستہ اور کاجو ہی نہیں، زعفران بھی ڈالا۔ ساری کی ساری دیگیں سیدنا علی بن عثمان ہجویریؒ کی دہلیز پہ ڈال دیں۔ پھر منشی کو بلایا اور اس سے کہا: وکیل صاحب سے پوچھو، کیا انکم ٹیکس پورے کا پورا ہضم نہیں کیا جا سکتا۔

جمعہ کے ہر خطبے میں یاد دلایا جاتاہے کہ سب گناہ معاف کیے جا سکتے ہیں مگر شرک نہیں۔ ہر عالمِ دین یاد دلاتا ہے کہ زمین پر کوئی ذی روح ایسا نہیں، جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو اور یہ کہ عزت اور جان اس کے ہاتھ میں ہیں۔ کشادگی وہی عطا کرتاہے۔ سزا یا استعدادمیں اضافے کے لیے آزمائش میں وہی مبتلا کرتاہے۔ ہم سنتے ہیں، پل بھر کو مان بھی لیتے ہیں۔ دل تو کیا، کبھی کبھی ذہن بھی مان لیتاہے اور کبھی گھنٹوں تسلیم کیے رکھتاہے۔ پھر ہم کشکول اٹھاتے ہیں اور بھیک مانگنے نکلتے ہیں۔ ملازم سیٹھ سے، سیٹھ ایف بی آر کے افسر سے۔ ایف بی آر کا افسر صنعت کار سے۔ صنعت کار حکومت سے۔ حکومت واشنگٹن، ٹوکیو، لندن، بیجنگ، ریاض اور دبئی سے۔

جنابِ صدرِ امریکہ اگر آپ کشمیر کا مسئلہ حل کروا دیں تو برصغیر کے ڈیڑھ ارب انسان آپ کے احسان مند ہوں گے۔ چہرے پہ لجاجت ہے، آنکھوں میں لجاجت ہے، آواز میں لجاجت ہے اور دل فرعون کے قدموں میں رکھا ہے۔

ایاک نعبد و ایاک نستعین۔ ہم میں سے ہر ایک جانتا ہے۔ جوپابند و خوگر ہیں، وہ دن میں پانچ بار ہر نماز میں کئی مرتبہ لیکن جو عادی نہیں، کبھی کبھی وہ بھی دہراتے ہیں۔ اگر ہم اسی کی عبادت کرتے اور اسی سے مدد مانگتے ہیں تو خودترسی کے مارے کیوں ہیں۔ مظلوم کو اونچی آواز میں بولنے کا حق ہے اور یہ حق پروردگار نے دیا ہے۔ سحر سے شام اور شام سے سحر تک غیبت کی اجازت تو نہیں دی۔

بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے

مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے

سال میں 365 دن، پانچ بار پابندی سے سربسجود ہونے والا انہیں گوارا کرتاہے، جو اس کی محفل میں بیٹھ کر قرآنِ کریم پڑھانے کی مخالفت کرتے ہیں۔ نام اچھا، خاندان اچھا، فیاض بہت، تکبر اور وحشت سے بھی زیادہ تر بچا ہوا۔ بس یہ نہیں جانتا کہ جہنم کی آگ اور بہشتِ بریں کے درمیان حائل صرف یہ سوال ہوگا کہ قلب و دماغ کی یکسوئی سے کوئی اللہ کی آخری کتاب پہ ایمان رکھتا تھا یا نہیں۔

About Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed is a well known analyst and columnist. Currently, he is working with 92 News. He has worked for Dunya News, 92 News and Geo.

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran