ترک ٹی وی سے انٹرویو میں وزیر اعظم عمران خان نے تحریک طالبان پاکستان کے حوالے سے جو کچھ کہا وہ قبل از وقت ہو سکتا ہے، غلط ہرگز نہیں۔ روز اوّل سے افغانستان میں امریکہ کی فوجی مداخلت کا مخالف اور امن و مذاکرات کا علمبردار پاکستانی حکمران اندرون ملک جنگ و جدل کے خاتمے کا خواہش مند ہے، تعجب کس بات پر؟ تحریک طالبان پاکستان کے کس گروپ نے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی؟ ٹی وی اینکر نے پوچھا نہ عمران خان نے بتایا، باتیں قبل از وقت یوں ہیں کہ کسی باغی گروپ سے مذاکرات آسان ہوتے ہیں نہ جلد نتیجہ خیز ہونے کے امکانات روشن، خاص طور پر ایسے گروپس جنہیں طاقتور ریاستوں کی سرپرستی حاصل اور جنہیں انسانی خون بہانے کا چسکا پڑ چکا ہو، پاکستانی تاریخ میں چار پانچ بار ریاست سے برسر پیکار گروہوں کے لئے عام معافی کا اعلان ہو اور میری یادداشت کے مطابق صرف ایک یا دو بار مفید نتائج نکلے۔
پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں بلوچستان کے شورش پسندوں کو عام معافی دی گئی جو موثر ثابت ہوئی، 1971ء میں مشرقی پاکستانی باغیوں کے لئے عام معافی کا اعلان بھارت کی مداخلت کے باعث علیحدگی پسندوں کی حوصلہ افزائی کا باعث بنا۔ 1977ء میں جنرل ضیاء الحق نے کالعدم نیپ کے لیڈروں کو معافی دی جس کے نتیجے میں بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں استحکام آیا۔ چند سال پیشتر بلوچستان میں مشروط معافی کی پیشکش سے فائدہ اٹھا کر کئی فراریوں نے ہتھیار ڈالے اور علیحدگی پسند تنظیموں کی حوصلہ شکنی ہوئی مگر بھارت اور کرزئی و اشرف غنی کے افغانستان کی پشت پناہی کے باعث علیحدگی پسند تنظیموں اور ان کی صف اوّل کی قیادت کی ملک دشمن سرگرمیاں تاحال جاری ہیں، اطلاعات یہ ہیں کہ افغانستان میں طالبان حکومت قائم ہونے کے بعد تحریک طالبان پاکستان سے زیادہ بلوچستان کی علیحدگی پسند تنظیمیں پریشان ہیں جنہیں این ڈی ایس کی سرپرستی حاصل رہی نہ افغانستان میں تربیت کی سہولتیں اورمحفوظ پناہ گاہیں دستیاب۔
تحریک طالبان پاکستان کے ہاتھوں پاکستانی قوم نے جو جانی اور مالی نقصان برداشت کیا وہ 1965ء اور 1971ء کی جنگوں سے زیادہ ہے۔ اسّی ہزار جانوں کی قربانیاں اور ڈیڑھ سو ارب ڈالر کا مالی نقصان اس قدر معمولی نہیں کہ عوام آسانی سے بھول جائیں یا حکومت قوم کی یادداشت سے محو کر دے، اعلیٰ عسکری عہدیدار، پولیس آفیسر، ذہین بیورو کریٹس، ڈاکٹرز، انجینئرز، علمائ، صحافی، دانشور اور سب سے بڑھ کر معصوم بچّے دہشت گردی کا نشانہ بنے، مساجد، مزارات، تجارتیمراکز، تعلیمی ادارے، ہسپتالوں، کھیل کے میدانوں اور غیر مسلم عبادت گاہوں کو بموں سے اُڑایا گیا اور پاکستان کو ناکام ریاست میں تبدیل کرنے کے جتن ہوئے، وحشت، درندگی کا یہ کھیل مذہب کے نام پر کھیلا گیا اور افغانستان میں امریکی مداخلت کے بہانے پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجائی گئی، جنرل پرویز مشرف نے امریکہ کا ساتھ دے کر ناقابل معافی جرم کیا، نیو کلیئر اسلامی پاکستان کی ساکھ خاک میں ملائی اور جنوبی وزیرستان میں فوجی کارروائی کے علاوہ لال مسجد آپریشن سے خونریز ردعمل کو دعوت دی مگر ملک کے طول و عرض میں بلا امتیاززبان، نسل، فرقہ، علاقہ جس طرح معصوم شہریوں، عبادت گاہوں اور غیر عسکری تنصیبات پر حملے ہوئے یہ کسی آپریشن کا ردعمل تھا نہ لال مسجد کے شہیدوں سے اظہار ہمدردی، یہ بیرونی کھیل تھا اور امریکہ، بھارت، اسرائیل، حامد کرزئی و اشرف غنی کا افغانستان اس کے پس پشت، مقصد نیوکلیئر اسلامی پاکستان کو قدموں پر لانا اور ایک طفیلی و باجگزار ریاست میں تبدیل کرنا۔
پاکستانی قوم، مسلح افواج اور ریاست کے دوسرے اداروں نے مگر اپنے عزم، بے پایاں جذبے اور بھر پور قوت و طاقت سے اس کھیل کو ناکام بنا دیا، افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد بھارت کا بوریا بستر گول ہو چکا "این ڈی ایس"اور "را" کا گٹھ جوڑ ختم اور تربیت و پناہ گاہوں کی سہولت ناپید۔
مشرقی پاکستان میں ہم نے ایک غلطی کی، جب پاکستانی فوج نے مکتی باہنی کی کمر توڑ کر رٹ آف سٹیٹ بحالی کر دی تو حکومت نے سیاسی تصفیے کی آپشن کو پس پشت ڈالے رکھا اور براہ راست بھارتی مداخلت کا انتظار کیا، افغانستان میں طالبان حکومت کی بحالی پاکستان کے لئے نعمت غیر مترقبہ ہے، امریکہ اور بھارت اپنے زخم چاٹ رہے ہیں اور ٹی ٹی پی سمیت تمام مقامی دہشت گرد و علیحدگی پسند گروہ مستقبل کے حوالے سے پریشان و ہراساں، کامیاب ریاستیں ہمیشہ باغی اور سرکش گروہوں کی موثر سرکوبی کے بعد مذاکرات کا راستہ اختیار کرتی ہیں دشمنوں کے آلہ کار، دانستہ بغاوت پر آمادہ اور کسی کے بہکاوے میں آ کر غلطی کے مرتکب ہونے والوں کو ایک دوسرے سے الگ کر کے اول الذکر کے لئے سخت ترین سزا اور موخر الذکر کے لئے عام معافی کا انتخاب کیا جاتا ہے، طویل تصادم اور آخری جنگجو کے خاتمے کی خواہش بسا اوقات گلے میں پڑ جاتی ہے۔
معیشت، سیاسی استحکام اور قومی سلامتی کو بدامنی بری طرح متاثر کرتی ہے اور جنگجو گروہوں کو دوبارہ سنبھلنے، تازہ دم ہونے اور بیرونی سرپرستی حاصل کرنے کا موقع مل جاتا ہے، پاکستان آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد کے ذریعے ٹی ٹی پی کو تہس نہس کر چکا، افغانستان اب اس کے لئے جائے پناہ نہیں اور بھارت یا کسی دوسرے ملک سے مالی امداد مفقود، افغان طالبان واضح کر چکے کہ ملا عمرؒ کے حکم کے مطابق پاکستان سے جنگ حرام ہے تصفیہ کریں یا ہتھیار ڈالیں، افغان سرزمین کو استعمال نہ کریں اس صورت میں اگر ٹی ٹی پی بحیثیت مجموعی سرکشی ترک کر کے پاکستان سے پیمان وفا پر آمادہ ہے، مزید کسی کا آلہ کار بننے پر تیار ہے نہ جرائم پیشہ عناصر کے ہاتھوں استعمال ہونے کی خواہش مند تو ریاست کو ماں کا کردار ادا کرنے سے ہچکچانا نہیں چاہیے، سنگین جرائم میں ملوث افراد ظاہر ہے معافی کے حقدار نہیں ہوں گے۔ افغان طالبان نے بلا تخصیص ہر ایک کے لئے عام معافی کا اعلان کر کے قابل تقلید مثال قائم کی ہے مگر پاکستان کے حکمران اور عوام شائد اتنے وسیع القلب نہیں، کہ کسی دوستم، امراللہ صالح اور اشرف غنی کے لئے بھی عام معافی کا اعلان کر دیں۔ یہ حوصلہ ان لوگوں میں ہوتا ہے جو جنگ اور امن میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی، اعلیٰ ترین مقصد حیات اور عوام کے وسیع تر مفاد کو ذاتی خواہشات، تعصبات اور مفاد پر ترجیح دیتے اور اپنے رنج و الم بھول جاتے ہیں۔ ہتھیار ڈالنے والوں کو معاف کرنا عالمی روائت ہے اور بدترین دشمنوں سے عفوو درگزر رحمت للعالمینﷺ کی عظیم سنّت۔
مسلم لیگ (ن) نے دوران اقتدار اسی تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کے لئے اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی تھی اور اپوزیشن یا پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہیں لیا تھا جس کے لئے عام معافی کے اعلان پر خواجہ آصف اور رانا ثناء اللہ معترض ہیں، غلطیاں دونوں سے ہوئیں عام معافی کا مطلب سب کچھ بھول کر نئے سفر کا آغاز کرنا ہے۔ ماضی کو بھولنے، ریاست سے وفادار رہنے اور دوبارہ غلطیاں نہ دہرانے کا عہد قیام امن کی ضمانت ہے اور سیاسی استحکام کی بحالی کا نسخہ کیمیاء، اپنی شرائط پر مذاکرات اور سمجھوتے کا یہ بہترین موقع ہے صلح جوئی اور مذاکرات کی کامیابی سے امن کا حصول ممکن ہے اور دشمنوں کی ریشہ دوانیوں کا سدّباب آسان، سوویت یونین اور امریکہ جیسی سپر پاورز نے بھی بالآخر مذاکرات کو ترجیح دی اور طویل تنازعہ سے جان چھڑائی، فوجی مقاصد کے حصول کے بعد ٹی ٹی پی سے مذاکرات بچی کھچی دہشت گردی ختم کرنے کا واحد راستہ ہے اور مخالفت کم فہمی و نادانی، عمران خان نے جو کچھ کہا قبل از وقت ضرور ہے، غلط ہرگز نہیں۔