ابو المحاسن مولانا محمد سجادؒ ہندوستان کے مشہور عالم دین تھے۔ صوبہ بہار میں پیدا ہوئے، مختلف درس گاہوں سے تعلیم حاصل کی اور بیسویں صدی کے مشہور اور بااثر علماء میں شمار ہوئے۔ تحریک خلافت میں پیش پیش رہے، جمعیت علماء ہند کے قیام سمیت تمام سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ امارت شرعیہ کے نام سے تحریک قائم کی، تحریک عدم تعاون اور سول نافرمانی تحریک میں بھی شامل رہے اور 1935 میں مسلم آزاد پارٹی قائم کرکے بہار میں حکومت بھی بنائی۔ ایک دفعہ مولانا محمد علی مونگیریؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: "بخدا دعوت و تبلیغ کے سلسلے میں جہاں بھی جاتا ہوں اخلاص کے ساتھ جاتا ہوں لیکن جب تک رہتا ہوں لوگ دین کی طرف مائل رہتے ہیں اور وہاں سے واپس آتا ہوں تو لوگ دین سے پھر جاتے ہیں، اخلاص کا اثر کچھ عرصہ تو نظر آنا چاہیے"۔ مولانا محمد علی مونگیریؒ نے جواب دیا: "اللہ تعالیٰ ہر عصر اور زمانہ میں کسی نہ کسی صفت کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خیر القرون میں اللہ تعالیٰ اپنی صفت "الہادی" کے ساتھ جلوہ گر تھا اور آج کے عہد میں اپنی صفت "المضل" کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج ہدایت دیرپا ہے نہ ہی اخلاص کا کوئی اثر نظرآتا ہے، جن لوگوں کا منصب ہدایت تھا و ہ گمراہ نظر آ رہے ہیں"۔
دور جدید میں مذہب کو درپیش چیلنجز کے پیش نظر یہ تبصرہ برمحل ہے۔ تمام سائنسی و سماجی علوم خدا کے انکار اور الحاد کو استدلال فراہم کرنے میں مگن ہیں۔ جدید ایجادات اور نت نئی ٹیکنالوجی نے انسان کو خدائی کے دعویٰ پر لاکھڑا کیا ہے۔ سماجی نفسیات بدل چکی ہیں اور نیا ورلڈ ویو قائم ہو چکا ہے۔ دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ مذہب و اہل مذہب جدید علوم و فنون اور طر ز استدلال کو سمجھ ہی نہیں پا رہے۔ وہ اسی قدیم اور روایتی طریقے کے مطابق مذہبی استدلال پیش کرنا چاہتے ہیں۔ وہ جدید علوم و فنون کے پیدا کردہ چیلنجز کو قدیم طرز استدلال سے رسپانڈ کرنا چاہتے ہیں جو قطعی ناممکن ہے۔ اس لیے خدمت دین میں مصروف افراد اور اداروں کو بدلتی ہوئی صورتحال میں سماج اور جدید طبقات میں کام کرنے کے لیے جدید طرز استدلال، سماجی نفسیات اور اپنی سرگرمیوں کو اپ ٹو ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ دعوت و خطابت اور مناظرہ و مکالمہ عام سی باتیں ہیں اور یہ کام تھوڑی سی معلومات اور معمولی استعداد رکھنے والا شخص بھی کر سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آپ کا اپنے موضوع پر گہرا مطالعہ ہو، آپ اپنے موضوع سے متعلقہ جدید و قدیم لٹریچر سے گزر چکے ہوں۔ موضوع سے متعلقہ جدید سوالات، تحقیقات، رویوں اور افراد سے شناسا ہوں اور یہ کام مہینے میں چند گھنٹوں کے مطالعہ سے نہیں بلکہ ہرروز چند گھنٹوں کے مطالعے سے ہی ممکن ہے۔ حسن نیت اور اخلاص اچھی چیزیں ہیں لیکن ضروری نہیں یہ آپ کودرست حقائق اور نتائج تک پہنچائیں اس لیے اخلاص کے ساتھ تیاری، منصوبہ بندی اور محنت بھی ضروری ہے۔ اپنے موضوع پر مہارت کے ساتھ متعلقہ آئینی و قانونی تشریح سے بھی واقفیت ہونی چاہئے۔ پاکستانی آئین و قانون اور بین الاقوامی قوانین سے آگاہی ضروری ہے۔ دعوت و خطابت اور تقریر و تحریر کے دوران کبھی حتمی اور فیصلہ کن لہجہ اور رویہ نہ اپنائیں۔ تحمل اور استدلال کے ساتھ حقائق مخاطب کے سامنے رکھ دیں اور فیصلہ اسے خود کرنے دیں۔ یاد رکھیں دنیا میں چیز کا استدلال موجود ہے آپ نے صرف درست استدلال تک پہنچنے میں مخاطب کی راہنمائی کرنی ہے۔ مذہبی علوم اور موضوع سے متعلقہ مطالعے کے ساتھ جدید سماجی علوم اور سماج کو بھی پڑھیں۔ سماجی علوم اور سماجی نفسیات پڑھے اور جانے بغیر آپ مؤثر کام کرنے کی صلاحیت پیدا نہیں کر سکتے۔ دعوت و خطابت اور تحریر و تقریر کے دوران تحمل سے کام لیں، جہاں جذبات غالب آئے استدلال آپ کے ہاتھ سے نکل گیا۔ آپ کی بات غلط بھی ہو لیکن اگر آپ نے تحمل مزاجی کا ساتھ نہیں چھوڑا تو نتائج آپ کے حق میں آئیں گے۔ لیکن درست بات کہتے ہوئے گر آپ جذبات کے ہاتھوں مغلوب ہو گئے تو نتائج آپ کے حق میں نہیں آئیں گے۔ اپنے موضوع سے متعلقہ اہل علم و فکر کی جدید تحریریں آپ کی نظر سے گزرتی رہنی چاہئیں۔ صرف موافق نہیں بلکہ مخالف نکتہ نظر، سوالات اور استدلال بھی آپ کے علم میں ہونا چاہئے۔ آپ قدیم طرز استدلال اور جدید طرز استدلال سے واقف ہوں۔ قدیم طرز استدلال میں جذباتی استدلال کی گنجائش موجود تھی اور آپ کسی کے جذبات کو اپیل کرکے اسے مطمئن کر سکتے تھے لیکن جدید طرز استدلال میں آپ کو محض حقائق اور عقل کی بنیاد پر مخاطب کو مطمئن کرنا ہوتا ہے۔ نیز آپ مخاطب کے اعتبار سے طرز استدلال کا تعین کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں۔ استدلال اور تاثیر بہت کم ایک جگہ اکٹھے ہوتے ہیں، استدلال کی صلاحیت تو حاصل کی جا سکتی ہے مگر تاثیر کے لیے باطن کا صاف ہونا ضروری ہے۔ اس لیے باطن کی پاکیزگی، نیت میں اخلاص اور رویے میں استغنا ضروری ہے۔ محض علمی رسوخ اور درد دل اور فکرکے بغیر تمام علمی و دعوتی سرگرمیاں ہیچ ہیں۔ ان کے بغیر کسی کام کی کوئی وقعت نہیں۔ ہماری تاریخ اور روایت نے صرف انہی لوگوں کو پذیرائی بخشی جنہوں نے مذکورہ صفات کے ساتھ محنت کی۔ دعوت و خطابت اور تقریر و تحریر میں وہی دعوتی و قانونی پوزیشن اختیار کریں جو روایت میں چلی آ رہی ہے۔ اس سے ہٹ کر چلنے سے آپ خود اپنے اور روایت کے لیے مسائل کا باعث بنیں گے۔ کہیں مسئلہ درپیش ہو تو از خود فیصلہ کرنے کے بجائے بڑوں سے مشاورت اور راہنمائی حاصل کریں۔
دور جدید اپنی اصل کے اعتبار سے ضلالت و گمراہی کا دور ہے، جدید علوم و فنون اور ٹیکنالوجی مل کر اس گمراہی کو استدلال فراہم کر رہے ہیں اوراس استدلال کی بنا پر آج جگہ جگہ گمراہی کے اسباب و مواقع موجود ہیں۔ لازم ہے کہ ہدایت کے مدعی بھی جدید ہتھیاروں سے لیس ہو کر میدان میں اتریں، جدید طرز استدلال، مخاطب کی نفسیات اور جدید زبان و محاورے کو سمجھیں اور مذہب کو اپنے عہد کا بہترین نظریہ بنا کر پیش کریں۔