وہ تیس سال کی عمر میں بادشاہ بنا تو اسے دو سو پچاس بلین(پاکستانی تقریبا آٹھ سو ارب روپے) وراثت میں ملے تھے لیکن جنوری 2023 میں جب اس کی وفات ہوئی تو وہ استنبول کے ایک دو کمرے کے فلیٹ میں رہائش پذیر تھا۔ یہ شخص کون تھا اور آٹھ سو ارب سے دوکمروں تک کا سفر کیسے طے ہوا، اس کے لیے آپ کو میرے ساتھ ماضی میں جانا پڑے گا۔
1707 میں اورنگزیب کی وفات کے بعد سب سے پہلے جو خود مختار ریاستیں قائم ہوئیں ان میں سرفہرست مملکت آصفیہ تھی۔ مملکت آصفیہ کا بانی نظام الملک تھااور اسی نسبت سے اس کا نام سلطنت آصفیہ مشہور ہوگیا۔ نظام کے خاندان کا تعلق سمر قند کے ترکمانی بزرگ عابد خان سے تھا، عابد خان کا سلسلہ نسب مشہور صوفی بزرگ ابوحفص شہاب الدین سہروردی سے ملتا تھا۔ عابد خان ایک دفعہ سفر حج کے دوران دکن میں قیام پزیر ہوئے، اورنگزیب عالمگیر دکن کا شہزادہ تھا، عابد خان کی ملاقات اورنگزیب سے ہوئی اور بعد میں یہ ملاقات دوستی اور عقیدت میں بدل گئی۔
1657 کی جنگ میں عابد خان اورنگزیب کے شانہ بشانہ لڑے، اورنگزیب کو عابد خان کی جرات و شجاعت اچھی لگی اور اس نے اسے اپنا قریبی بنا لیا۔ بعد میں عابد خان کے بیٹے کی شادی وزیر اعظم سعد اللہ خان کی بیٹی صفیہ خانم سے ہوئی۔ ان کے بطن سے میر قمرالدین پیدا ہوئے جو آگے چل نظام الملک آصف جاہ اول کے نام سے مشہور ہوئے۔ نظام الملک کی پرورش اورنگزیب عالمگیر کے دربار میں ہوئی اس لیے اس کی شخصیت میں اورنگزیب عالمگیر کی جھلک دکھائی دیتی تھی۔
مغلیہ سلطنت زوال پذیر ہوئی تو نظام الملک نے خود مختاری کا اعلان کر دیا، حیدر آباد دکن ہندوستان کی سب سے بڑی خودمختار ریاست تھی جس کی حدیں دریائے نربدا سے راس کماری تک پھیلی ہوئی تھی۔ حیدر آباد، اورنگ آباد، احمد نگر، بیجا پور، ترچناپلی، تنجور اور مدورا مملکت آصف جاہی کے مشہور شہر تھے۔ مملکت کا رقبہ تقریبا تین لاکھ مربع میل تھا۔
نظام الملک نے مغلیہ سلطنت سے خودمختاری کے بعد ریاست کے بہت بڑے حصے کو مرہٹوں کی تباہ کاریوں سے محفوظ کر دیا تھا اور ایسے دور میں جب ہندوستان طوائف الملوکی کا شکار تھا انہوں نے دکن میں امن و امان کی فضا قائم کر رکھی تھی۔ نظام الملک دیانتدار، دیندار اور صاحب کردار حکمران تھااور اس کی انتظامی صلاحیت اور تدبر کا اعتراف مغربی مورخین نے بھی کیا ہے۔
بر صغیر کی تاریخ میں اورنگ زیب کے بعد جن تین اہم حکمرانوں کا نام لیا جا سکتا ہے ان میں نظام الملک، حیدر علی اور ٹیپو سلطان شامل ہیں۔ نظام الملک کی وفات کے بعد اس کے بیٹو ں کی خانہ جنگیوں کی وجہ سے مملکت آصفیہ کمزور ہوگئی، اٹھارویں صدی کے آخر میں نظام نے انگریز کی بالادستی قبول کر کے مملکت آصفیہ کی خودمختاری کو ختم کر دیا۔ ٹیپو سلطان نے نظام کو متعدد خطوط لکھ کر متحدہ محاذ بنانے اور انگریز کے خلاف جنگ کے لیے آمادہ کیا مگر نظام اس کے لیے تیار نہ ہوا۔ مئی 1799 میں سلطان ٹیپو کی شہادت سے ہندوستان مکمل طو رپر انگریز کے قبضے میں چلا گیا، مملکت آصفیہ بھی اس کا مقابلہ نہ کر سکی اور برٹش حکومت کی ایک ماتحت ریاست بن کر رہ گئی۔
برٹش حکومت کی سرپرستی قبول کرنے کے باوجود انیسویں صدی میں ہندوستان کی دیگر ریاستوں کی طرح ریاست حیدر آباد (مملکت آصفیہ) میں امن و امان کے مسائل پیدا نہیں ہوئے، یہی وجہ تھی کہ یہ ایک دولت مند ریاست کے طور پر ہندوستان کے نقشے پر موجود رہی اور بعد میں آنے والے نظاموں نے علم و ادب کی سرپرستی بھی کی۔ نادر شاہ کے حملے اوردہلی کی تباہی کے بعد حیدر آباد واحد ریاست تھی جہاں امن و سکون برقرار رہا اور ہندوستان کے اطراف سے بہت سارے اہل علم اس ریاست کی طرف کھنچے چلے آئے۔
بیسویں صدی میں بھی اہل علم کی ایک کثیر تعداد اس ریاست سے وابستہ رہی جن میں شبلی نعمانی، مولوی چراغ علی، سید علی بلگرامی، ڈپٹی نذیر احمد، عبدالحلیم شرر، مولانا مناظر احسن گیلانی، مولانا ظفر علی خاں اورجوش ملیح آبادی جیسے نام شامل ہیں۔ اس کے علاوہ شاعروں کی کثیر تعدادکا تعلق بھی اس ریاست سے رہا۔ ہندوستان میں دارالعلوم کے نام سے جدید درسگاہ کی بنیاد بھی سب سے پہلے ریاست حیدر آباد میں 1856ءمیں رکھی گئی جو بعد میں 1918ءمیں جامعہ عثمانیہ کے نام سے یونیورسٹی میں بدل گئی۔
جامعہ عثمانیہ پہلی جامعہ تھی جس نے اردو کو ذریعہ تعلیم بنایا۔ جامعہ عثمانیہ کے تحت ایک شعبہ تالیف و ترجمہ قائم کیا گیا تھا جس میں عربی، فارسی، انگریزی اور فرانسیسی پر مشتمل کئی سو کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیاگیا۔ دائرة المعارف کے نام سے ایک علمی ادارہ قائم کیا گیا جس کا کام عربی کی نایاب کتب کو جمع کرنا اور ان کی تصحیح کرکے ان کو شائع کرنا تھا۔ اس ادارے نے تقریباً پانچ سو کتب شائع کیں اور ان کتب کی وجہ سے ریاست حیدر آباد کا نام اسلامی دنیا اور خصوصاً عرب ممالک میں علم پرور ریاست کی حیثیت سے عام ہوگیا۔
ریاست کی علمی سرپرستی صرف ریاست حیدر آباد تک محدود نہیں تھی بلکہ بر صغیر کے تقریباً تمام تعلیمی، علمی، مذہبی اور معاشرتی اداروں کوبھی ریاست کی طرف سے امداد ملتی تھی۔ دارالعلوم دیوبند، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اورجامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کوبھی باقاعدہ مالی امداد ملتی تھی۔ ہندوستان بے شمار صاحب کمال اور اہل علم ایسے تھے جن کے ریاست کی طرف سے وظیفے مقرر کیے گئے تھے۔
پاکستان کے قیام کے بعد 1948میں ہندوستان نے ریاست پر زبردستی قبضہ کر لیا تھا۔ نواب میر عثمان علی آصف جا ہ جو 1912 میں ریاست کے ساتویں نظام بنے تھے انہو ںنے صرف تین دن بعد ہندوستانی فوج کے سامنے ہتھیار پھینک دیے تھے۔ ہندوستان کی ماتحت ریاست بننے کے باوجود ریاست حیدر آباد ہندوستان کی امیر ترین ریاست اور نواب میر عثمان علی ہندوستان کے امیر ترین شخص تھے۔
یہ اپنے عہد کے ایلون مسک اور بل گیٹس تھے اور 22 فروری 1937کو ٹائم میگزین نے ان پر ایک کور سٹوری شائع کی جس میں انھیں دنیا کا امیر ترین آدمی ڈکلیئر کیاگیا تھا۔ ان کی دولت کا عالم یہ تھا کہ انہوں نے 1965 کی چین انڈیا جنگ میں وزیر اعظم لال بہادر شاستری کو 5000 ہزار کلو سونا عطیہ کیا تھا۔ انہوں نے شاہ سعود سے ملاقات کے دوران مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں بجلی کاانتظام بھی کیا تھااور مسجد الحرام اور مسجد نبوی میں پنکھے بھی لگوائے تھے۔
انہوں نے جامعہ مسجد دہلی کی تزئین نو بھی کی اور مسجد اقصیٰ کی بحالی کے لیے بھی فنڈز دیے تھے۔ ان کے پاس 282 قیراط کا ایک ہیرا بھی تھاجو دنیا کے بڑے ہیروں میں سے ایک تھا۔ 1967 میں آصف جاہ کی وفات ہوئی تو ان کا پوتا مکرم جاہ دنیا کے سب سے بڑے خزانے کامالک بن گیا۔ اپنے دادا کی طرح مکرم جاہ بھی1980 کی دہائی تک بھارت کا سب سے امیر ترین شخص تھا لیکن 1990ءکی دہائی میں بھارتی حکومت نے اکثر اثاثے تحویل میں لے لیے اور مکرم جاہ ہندوستان سے آسٹریلیا شفٹ ہوگیا۔
آسٹریلیا میں کچھ عرصہ قیام کے بعد مکرم جاہ نے ترکی میں مستقل رہائش اختیار کر لی۔ اس نے پانچ شادیاں کی تھی، جو تھوڑی بہت دولت بچی تھی وہ عیش پرستیوں اور طلاقوں کے مقدمات میں اڑا دی اور 15جنوری 2023 میں اس کی وفات ہوئی تو وہ صرف دو کمروں کے ایک فلیٹ میں رہائش پذیر تھا۔ لاکھوں میل رقبے پر مشتمل مملکت آصفیہ اور دنیا کا امیر ترین خاندان سمٹ کردو کمروں کے فلیٹ میں انتقال کر گیا۔
اس ملک کے سیاستدانوں، ججوں، جرنیلوں اور بیوروکریٹس میں سے کوئی ہے جو اس ا نجام پر غور کرے؟ اس ملک کو حالت نزع تک پہنچانے اور اس ملک کے غریب عوام سے روٹی کا نوالہ چھیننے والوں میں سے کوئی ہے جو اس حقیقت پر غور کرے؟