آپ کو یاد ہوگا کچھ عرصہ قبل پاکستان کے مین سٹریم میڈیا اور بعض کالم نگاروں کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی مہم چلائی گئی تھی۔ ان کالم نگاروں اور میڈیا پرسنز کا مؤقف یہ تھا کہ جب مصر، اردن اور شام جیسے ممالک جن کی اسرائیل کے ساتھ جنگیں ہو چکی ہیں وہ اسرائیل کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا چکے ہیں تو ہمارے پیٹ میں کیا درد ہے۔ مزید استدلال یہ تھا کہ ہم اسرائیل کے ساتھ دشمنی پال کر سروائیو نہیں کر سکتے اور اگر ہم اسرائیل کو تسلیم کرنے کی طرف قدم بڑھاتے ہیں تو ہماری معیشت مضبوط ہو جائے گی۔
پچھلے چھ ماہ سے سعودیہ، یو اے ای، بحرین اور دیگر خلیجی ممالک بھی اسرائیل کے طرف دست تعاون بڑھا چکے تھے اور عنقریب آزادانہ تجارت اور آمد و رفت بھی شروع ہونے والی تھی۔ یہ سب اقدام مختلف ممالک اپنے اپنے مفادات کے تحت کر رہے تھے لیکن فلسطینیوں کا مفاد کس میں تھا کسی کو اس کی پروا نہیں تھی۔ یہ وہ صورتحال تھی جس نے حماس کو طویل پلاننگ اور جنگی حکمت عملی پر مجبور کیا اور دنیا نے اس کے نتائج طوفان الاقصیٰ کی صورت میں دیکھے۔ اہل فلسطین کی تیسری نسل اس جنگ کا حصہ بننے پر مجبور ہے لیکن وہ اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنے اور اپنی سرزمین سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
زندہ قوموں کا یہی شعار ہوتا ہے۔ اگر اہل فلسطین اسرائیل کو تسلیم کر لیتے ہیں تو بھی انہیں اندازہ ہے کہ انہیں اور ان کی آئندہ نسلوں کو امن و سکون سے زندگی گزارنے کا حق نہیں دیا جائے گا تو پھر کیوں نہ گیڈر بننے کے بجائے شیر بن کر زندگی گزاری جائے اور تب تک لڑا جائے جب تک اللہ کا امر نہیں آ جاتا۔ آج اہل فلسطین کا بیانیہ دنیا کے کونے کونے میں پہنچ چکا ہے اور دنیا کا ہر باشعور انسان فلسطین کے ساتھ کھڑا ہے۔
مجھے یقین ہے کہ پاکستان میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی مہم چلانے اور اسرائیل کے حق میں بیانیہ گھڑنے والوں کو بھی اندازہ ہوگیا ہوگا کہ پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا جو اصولی مؤقف اپنایا ہے وہ کس قدر صائب اور مبنی بر حقیقت ہے۔ ایسے کالم نگاروں اور میڈیا پرسنز کو چاہیے کہ وہ اسرائیل کے متعلق پاکستانی مؤقف کا تاریخی و تفصیلی مطالعہ ضرور کریں اور اگر وہ تفصیلی مطالعہ کے لیے وقت نہیں نکال سکتے تو اس کا کچھ اہتمام یہاں کیا جا سکتا ہے۔
اگر ہم قیام پاکستان سے پہلے کی بات کریں تو برصغیر کے مسلمان بیسویں صدی کے شروع سے ہی فلسطین کے محاذ پر سرگرم رہے ہیں۔ اعلان بالفور کے بعد برصغیر کے مسلمان عربوں سے بہت پہلے فلسطین کے محاذ پر پہنچ چکے تھے۔ علامہ اقبالؒ اس جنگ کے اولین سپاہی تھے اور وہ برصغیر اور فلسطین کی آزادی کو ایک ہی محاذ سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک فلسطین کی آزادی کا ایشو اتنا اہم تھا کہ وہ دسمبر 1931ء میں لندن کی گول میز کانفرنس کو ادھورا چھوڑ کر جس میں ہندوستان کی آزادی کے مذاکرات ہو رہے تھے، بیت المقدس پہنچ گئے تھے۔
اپنی زندگی کے آخری برسوں میں اقبال کو تقسیمِ فلسطین کے تصوّر نے مسلسل بے چین کیے رکھا۔ اقبالؒ کے خیال میں یہ مسئلہ یہودیوں کے لیے وطن کی تلاش کی خاطر ایجاد نہیں کیا گیا تھا بلکہ یہ مشرق کے دروازے پر مغربی سامراج کے فوجی اڈے کی تعمیر کا شاخسانہ تھا۔ وہ اسے عالمِ اسلام کے قلب میں ایک ناسور سے تعبیر کرتے تھے۔ رائل کمیشن کی رپورٹ میں تقسیمِ فلسطین کی تجویز نے اقبالؒ کو اس قدر مضطرب کیا کہ رپورٹ شائع ہوتے ہی اقبالؒ نے لاہور کے موچی دروازے پر ایک احتجاجی جلسہ کا اہتمام کیا۔
اس اجتماع میں اقبالؒ کا جو بیان پڑھا گیا وہ سیاسی بصیرت اور پیش بینی کی بدولت دنیائے اسلام کی جدید سیاسی فکر میں اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس بیان میں اقبالؒ نے مغربی سامراج کے مذموم عزائم کو بے نقاب کرنے کے ساتھ ساتھ دنیائے اِسلام کو خود احتسابی کا بھی درس دیا۔ وہ اس اَلمیے کو دو بڑی عبرتوں کا آئینہ دار بتاتے تھے، پہلا یہ کہ دنیائے اسلام کی سیاسی بقا کا راز عربوں اور ترکوں یعنی عرب و عجم کے اتحاد میں مضمر ہے اور دوسرا یہ کہ عربوں کو چاہیے کہ اپنے قومی مسائل پر غور و فکر کرتے ہوئے عرب ممالک کے بادشاہوں کے مشوروں پر اعتماد نہ کریں کیونکہ ان بادشاہوں کی حیثیت ہرگز اس قابل نہیں ہے کہ وہ اپنے ضمیر و ایمان کی روشنی میں فلسطین کے متعلق کسی فیصلے یا کسی صائب نتیجے پر پہنچ سکیں۔
اقبالؒ نے 7 اکتوبر 1937ء کو محمد علی جناح کے نام بھی ایک خط لکھا جس میں لکھتے ہیں کہ فلسطین کا مسئلہ مسلمانوں کے ذہنوں کو بہت پریشان کر رہا ہے، مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ لیگ اس مسئلے پر ایک ٹھوس قرارداد منظور کرے گی اور قائدین کی ایک نجی کانفرنس کا انعقاد کرکے کسی ایسے مثبت قدام کا فیصلہ کرے گی جس میں عوام بڑی تعداد میں شریک ہو سکیں۔ اس طرح لیگ بھی مقبول ہوگی اور فلسطینی عربوں کی مدد بھی ہو سکے گی۔ ذاتی طور پر مجھے کسی ایسے معاملے پر جیل جانے پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہوگا جس سے اسلام اور ہندوستان دونوں متاثر ہوں۔
صورتحال یہ تھی کہ اقبالؒ اس وقت بیمار تھے اور چھ ماہ کے اندر ان کا انتقال ہوگیا تھا لیکن اس وقت بھی وہ فلسطین کے معاملے پر جیل جانے کے لیے تیار تھے۔ اقبالؒ نے اپنے انتقال سے صرف ایک سال پہلے حکومت برطانیہ کو خط لکھا اور برطانوی حکومت پر زور دیا کہ عربوں سے ناانصافی نہ کی جائے۔ مزید لکھاکہ میں علیل ہوں اس لیے تفصیل سے آپ کو نہیں لکھ سکتا کہ رائل کمیشن کی رپورٹ نے میرے دل پر کیسا چرکا لگایا ہے۔ نہ یہ بتانے پر قادر ہوں کہ اس رپورٹ سے ہندوستان کے مسلمان بالخصوص اور پورے ایشیا کے مسلمان بالعموم کس قدر رنج و الم کا شکار ہوئے ہیں اور ان کے غم و غصے کے جذبات آئندہ دنوں کیا رنگ اختیار کر سکتے ہیں۔
لیگ آف نیشنز کو چاہیے کہ بیک آواز ہو کر اس ظلم و طغیان کے خلاف احتجاج بلند کرے اور برطانوی باشندگان کو سمجھائے کہ عربوں سے ناانصافی نہ کریں بلکہ ان وعدوں کو ایفا کریں جو گذشتہ جنگ عظیم کے دوران برطانیہ کے حکمرانوں نے عربوں سے کیے تھے۔ آپ اندازہ لگائیں کہ ایک صدی قبل اقبالؒ اپنی مومنانہ بصیرت کی بنیاد پر جو دیکھ رہے تھے وہ آج عملاً ہو رہا ہے اور مسئلہ فلسطین سے عالم اسلام بلکہ پوری دنیا متاثر ہو رہی ہے۔
فلسطینی مسئلے پر قائد اعظم کی دلچسپی بھی اعلان بالفور کے فوراً بعد شروع ہوگئی تھی اور انہوں نے فلسطینی مسلمانوں کے مستقبل کو درپیش خطرات کو محسوس کر لیا تھا۔ اعلان بالفور کے بعد ان کا کہنا تھا کہ میں برطانوی حکومت کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ مسئلہ فلسطین کو اگر منصفانہ طریقے سے حل نہ کیا گیا تو سلطنت برطانیہ کے لیے یہ تبدیلی کا نکتہ آغاز ہوگا۔ اگر برطانیہ نے فلسطینی عربوں کی رائے عامہ کو طاقت و جبر سے کچلنے کا فیصلہ کیا ہے تو ہم برصغیر کے مسلمان اس موڑ پر عرب موقف کے حامی ہیں اور ان کی منصفانہ جد و جہد میں ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ عرب مسلمان اپنے جائز حق کی جدوجہد میں ضرور کامیابی حاصل کریں گے۔
قیام پاکستان کے بعد پاکستانی سیاست، ادب، میڈیا، اکڈیمیا اور دیگر سماجی و مذہبی حلقوں میں مسئلہ فلسطین کی کیا حیثیت رہی اس پر ہم اگلے کالم میں بات کریں گے۔