ہم یہاں تک پہنچے تھے کہ ادارے نے2008 سے 2013 تک سیاسی منظرنامے کو دیکھ کر صدق نیت سے ایک پروجیکٹ کا آغاز کیا، 2018 میں اس کی تکمیل ہوئی اور 2022 میں یہ پروجیکٹ ان کے گلے پڑ گیا۔ 2022 سے 9 مئی 2023 تک ادارے کے خلاف انتہائی بدبو دار اور شدت پسندانہ طرزعمل اختیار کیا گیا، اس کے خلاف ہر طرح کی مہم چلائی گئی اور انہیں ہر جرم کا عنوان ٹھہرایا گیا۔
9 مئی اس مہم کا نکتہ عروج تھا اور اس دن یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ پاکستان کے تمام جرائم کا ذمہ دارصرف یہ ادارہ ہے۔ ہم اس بدبودار اور شدت پسندانہ طرز عمل کی بجائے عام سیاسی جماعتوں کے بیانیے کو موضوع بنا کر بات آگے بڑھاتے ہیں، پاکستان کی تقریبا تمام سیاسی جماعتوں، میڈیا اور باشعور طبقے کا مؤقف ہے کہ ادارے کی سیاست میں دخل اندازی نہیں ہونی چاہئے، یہاں تک تو بات ٹھیک ہے لیکن یہ دخل اندازی کیوں ہوتی ہے اس پر کوئی غور نہیں کرتا اور جب تک اس پر غور نہیں کیا جائے گا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
اس کی ایک وجہ تو ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ طاقت اور اختیار کی نفسیات زیادہ دیر تک ہاتھیوں کی لڑائی اور اس لڑائی میں گھاس کو روندتا ہوا نہیں دیکھ سکتے۔ دوسری وجہ بتانے سے پہلے میں آپ کو ایک حقیقت بتاناچاہتا ہوں، وہ حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی چالاک اور ہشیار دشمن اپنے حریف کا دلیل، طاقت اور اخلاق سے مقابلہ نہیں کر سکتا تو وہ اسے اپنی ڈومین میں لا کر شکست دینے کی کوشش کرتاہے۔ وہ اپنے کمتر کمفرٹ زون میں لا کر اسے اس طرح الجھاتا ہے کہ اسے طاقت، دلیل اور اخلاق سے تہی دست کرکے شکست سے دوچار کر تا ہے۔
اس حقیقت کو سمجھنے کے بعد آپ دوبارہ موضوع کی طرف آ ئیں، فوج پاکستان کا ایک منظم، مستحکم اور مضبوط ادارہ ہے جبکہ پارلیمان ہمیشہ متنازع، لڑائی جھگڑے کا مرکز اور سیاستدانوں کا اکھاڑا ثابت ہوئی ہے۔ پالیمان میں وہ زبان استعمال ہوتی ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ سیاستدان منظم ہیں، مستحکم نہ ہی ا ن میں اخلاقی رمق موجود ہے۔ یہ آئے روز پارٹیاں بھی بدلتے ہیں، لوٹے بھی کہلاتے ہیں، کرپشن بھی کرتے ہیں، ہارس ٹریڈنگ اور فلور کراسنگ میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔
یہ سیاست میں آکر مال بھی بناتے ہیں، میرٹ کا قتل بھی کرتے ہیں اور اداروں کو بھی برباد کرتے ہیں۔ یہ پڑھے لکھے بھی نہیں ہوتے اور یہ ملک، صوبہ حتیٰ کہ اپنا حلقہ تک چلانے کے اہل نہیں ہوتے۔ اب دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں یا تو ادارہ ان سیاستدانوں کی سطح پر آ جائے، ادارے میں نظم و ضبط اور استحکام ختم ہو جائے، میرٹ سسٹم کو روند دیا جائے، فوج کا کمانڈاینڈ کنٹرول سسٹم ختم ہو جائے اور پاکستانی فوج بھی دنیا کی دیگر فورسز کی طرح کی ایک عام فورس بن جائے۔ ظاہر ہے ہمارے دائیں بائیں ازلی دشمنوں کی موجودگی میں ہم یہ نہیں چاہیں گے۔ کوئی پاکستانی نہیں چاہے گا کہ ہماری فوج کمزور ہواور اس کے اندر وہ ساری خرابیاں پیدا ہوں جو ہمارے سیاستدانوں میں موجود ہیں۔
دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ سیاستدان اپنے آپ کو فوج کی سطح پر لے آئیں، یہ پارلیمان کو عزت دیں، اپنا دامن صاف رکھیں، شفاف انتخابات کروائیں اور انہیں قبول کریں، کرپشن سے باز آئیں، اپنے اندر نظم و ضبط پیدا کریں، پارلیمان میں اصل مسائل کو ڈسکس کریں، تہذیب و شائستگی کو اپنائیں، ایک دوسرے کا مینڈیٹ تسلیم کریں اور لوٹا کریسی اور ہارس ٹریڈنگ سے توبہ کریں۔ یہ باہم مل جل کر بیٹھیں، اتحاد و اتفاق سے ملکی مسائل حل کریں اور ڈائیلاگ کا راستہ اپنائیں۔
ظاہر ہے جب پارلیمان مضبوط اور سیاستدان اس رویے کا مظاہرہ کریں گے توبات لیول پر آجائے گی اور ادارے کے لیے مداخلت کرنا آسان بلکہ ممکن نہیں رہے گا۔ اس لیے اصل مسئلہ یہ ہے کہ سیاستدان اپنی روش بھی نہیں بدلنا چاہتے اورچاہتے ہیں کہ ملک اسی طرح تباہ ہوتا رہے اور کوئی نوٹس بھی نہ لے تو ایسے نہیں ہوگا۔ ایسی صورت میں کسی نہ کسی کو آگے بڑھنا ہوتا ہے اور ادارے کے پاس طاقت اور اختیار ہے لہذا یہ آگے بڑھ جاتا ہے۔
آگے بڑھتے ہیں، ادارے پر ایک اہم اعتراض اس کے بجٹ پر کیا جاتا ہے، عموما یہ تاثردیا جاتا ہے کہ پاکستان کے کل بجٹ کا ستر اسی فیصد فوج پر خرچ ہوتا ہے۔ یہ سراسر غلط اور جھوٹ ہے، ابھی دو دن قبل اسمبلی میں بجٹ پیش ہوا، اس میں فوج کے لیے مجموعی بجٹ کا صرف 16 فیصد مختص کیا گیا ہے۔
2020 کے بعد سے افراط زر کے باوجود فوج کے بجٹ میں کسی قسم کااضافہ نہیں کیا گیا۔ اس 16فیصد میں سے بھی پاک آرمی کو صرف 824 ارب ملیں گے باقی آٹھ فیصد فضائیہ، بحری افواج اور دیگر مدات پر خرچ ہوگا۔ گویا ہمیں جس ادارے پر اعتراض ہے وہ ملکی مجموعی بجٹ کا تقریباً آٹھ فیصد لے رہا۔ پاکستان کے مقابلے میں بھارت کا دفاعی بجٹ 76 ارب ڈالر ہے جو سات گنا زیادہ ہے۔ بھارت نے پچھلے 5 سال میں سالانہ 19ارب ڈالر کا اسلحہ درآمد کیا ہے اور اس اعتبار سے یہ دنیا کا دوسرا بڑا ملک بن گیا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ دیگر ممالک کے دفاعی اخراجات دن بدن بڑھ رہے ہیں اور پاکستان کے کم ہو رہے ہیں۔
دو ماہ قبل مشہورتھینک ٹینک گلوبل فائر پاور نے دنیا کی طاقتورترین افواج کی سٹرینتھ رینکنگ جاری کی ہے جس کے مطابق پاک فوج دنیا کی بہترین ساتویں فوج ہے۔ امریکہ پہلی، روس دوسری، چین تیسری، بھارت چوتھی جنوبی کوریا پانچویں اور برطانیہ چھٹی سب سے مضبوط فوج رکھنے والے ممالک ہیں۔ آپ ان ممالک کی اکانومی اور فوج پر خرچ ہونے والے بجٹ پر نظر دوڑائیں پھرپاک فوج کے بجٹ اور ساتویں پوزیشن پر نظر دوڑائیں آپ کو یقین نہیں آئے گا۔ انتہائی کم اور مختصر ترین بجٹ کے باوجود ادارے نے پروفیشنلزم کو بھی برقرار رکھا ہوا ہے اوراس پر کسی قسم کا کمپرومائز نہیں کیا۔
آگے بڑھتے ہیں، ایک اہم اعتراض فوج کے کاروباری اداروں اور ہاؤسنگ سوسائیٹیوں پر کیا جاتا ہے، اس اعتراض کی حقیقت یہ ہے کہ فوج نے اپنے ساتھ جڑے افراد، سابقہ ملازمین اور شہداء کے ورثاء کی فلاح و بہبود کے لیے فلاحی ادارے بنا رکھے ہیں۔ پاک فوج کے زیر انتظام جتنے بھی منافع بخش ادارے ہیں اکثر فلاحی ہیں جن کی آمدن سے شہداء کے خاندانوں کی کفالت کی جاتی ہے۔ فوجی فاؤنڈیشن اور آرمی ویلفیئر ٹرسٹ یہ کوئی کاروباری ادارے نہیں ہیں۔ فوجی فاؤنڈیشن اور آرمی ویلفیئر ٹرسٹ کے ملازمین کی ایک بہت بڑی تعداد شہداء، ڈبلیو ڈبلیو پی اور ریٹائرڈ فوجی اہلکاروں کے ورثاء ہیں۔
اس حقیقت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ یہ ادارے شہریوں کی ایک بڑی تعداد کو ملازمتیں بھی فراہم کر رہے ہیں۔ فوجی فاونڈیشن ملک کے سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے اداروں میں شامل ہے اور اس نے سا ل 2021میں ٹیکس، ڈیوٹیز اور لیویز کی مد میں قومی خزانے کو 150 ارب روپے ادا کیے تھے۔ اسی طرح ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی بھی بنیادی طور پر شہداء اورریٹائرڈ فوجی اہلکاروں کے لیے رہائش فراہم کرنے کی ایک تنظیم تھی، فوج کے ڈسپلن، نظم و ضبط، صفائی ستھرائی اور آرائش و زیبائش کی وجہ سے سویلینز نے بھی اس میں گھر بنانے شروع کر دیئے۔
کیا وجہ ہے کہ فوج میں شمولیت اختیار کرنے والے بچے ڈسپلن، نظم و ضبط اور بہادری و جفاکشی کی مثال بن جاتے ہیں اور وہی بچے دیگر ادارں میں جا کر بوجھ ثابت ہوتے ہیں۔ کیا یہ ثابت نہیں کرتا کہ فوج کی تعلیم و تربیت، میرٹ اور رجال سازی قابل مثال ہے۔ ہمیں تو ان سب باتوں پر خوش ہونا اور فخر کرنا چاہیے تھا مگر ہم نے انہی باتوں کو بنیاد بنا کر بدبودار بیانیوں کی جنگ شروع کر دی۔
یاد رکھیں امت مسلمہ کی تاریخ میں سقوط بغداد، سقوط اندلس، سقوط سلطنت عثمانیہ اور سقوط سلطنت مغلیہ اسی وجہ سے ہوا کہ ان کی عسکری قوت کمزور تھی لیکن آج ہم اپنے ہاتھوں سے اپنی قوت کو کمزور کر رہے ہیں۔ آج بھی دنیا میں ان اقوام اور ممالک کی کوئی وقعت نہیں جن کا دفاعی سسٹم کمزور ہے اور دنیا کی بڑی طاقتیں کسی بھی وقت انہیں اپنی کالونی ڈکلیئر کر سکتی ہیں۔ اس لیے ادارے پر تنقید سے قبل درست تناظر کو سمجھنے اور اپنی نااہلیوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم جس شاخ پر تکیہ لگائے بیٹھے ہیں اگر اسی کو کاٹتے رہیں گے تو ہمیں تباہی سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔