سوال یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے نزدیک "فکری آزادی" کیاہے؟ کیا فکری آزادی صدیوں کے غور و فکر کونظر انداز کرکے اپنے عہد کے تاثر کے زیر اثر فہم دین کی تجدد پسندانہ تشریحات کا نام ہے؟ امت کے مسلمہ فہم دین کو نظر انداز کرکے کچھ انوکھی تشریحات کرنے اور اپنے فہم کو بڑوں کے فہم سے ما فوق گرداننے کی روش کا نام"فکری آزادی"۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب جس اندازفکر کو "فکری آزادی" سے تعبیر کر رہے ہیں درحقیقت وہ کسی دوسرے طرز کی فکری غلامی کااظہار ہے۔ ڈاکٹر صاحب روایتی فکر کی آزادی سے تجدد کی غلامی کی طرف چلے گئے ہیں اور اپنے تئیں اسے آزادی سے تعبیر کر رہے ہیں۔
انسانی تاریخ میں بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کسی نئی علمی و فکری روایت کی بنیاد رکھتے ہیں۔ اکثر اہل علم کسی روایت اور اس کے ذیلی عنوانات کے اسیر ہو کر اسی کوفالو کرتے اوراسی کو آگے بڑھاتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اگر یہ فیصلہ کرتے کہ آئندہ کسی روایت کا اسیر ہونے کے بجائے از خودآزادانہ غو ر وفکر کرکے نتائج تک پہنچیں گے تو شاید اسے "فکری آزادی" کا عنوان دیا جاسکتا مگر یہاں تو واضح طور پروہ ایک مسلمہ روایت کو چھوڑ کر ایک تجدد پسند روایت سے جڑنے کا علی الاعلان اظہار ہیں۔ اسی لیے عرض کیا یہ فکری آزادی نہیں بلکہ ایک نئے طرز کی ذہنی غلامی کا اقرار ہے۔
ڈاکٹر صاحب بالخصوص اور روایت بے زار بالعموم روایت کے بارے میں خلط مبحث پیدا کرکے اپنا مدعا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلامی روایت کے ابتدائی عہد میں ہر صاحب علم کو فکری آزادی حاصل تھی۔ اس فکری آزادی کو اختیار کرکے بیسیوں فقہاء نے اپنے ذاتی فہم اور استدلال کی بنا پر مختلف مواقف اپنائے اور اس کے نتیجے میں مختلف فقہی مسالک وجود میں آئے۔ لہذا آج اگر کوئی ذاتی فہم یافکری آزادی کی بنا پر کوئی الگ موقف اختیار کرتا ہے تو یہ عین روایت ہے بلکہ اصل روایت یہی ہے۔ بات یہ ہے کہ بیسیوں فقہی مسالک میں سے صرف چار کا باقی رہنا بذات خود اس امر کی دلیل ہے کہ ذاتی فہم کی بنا پر الگ مسلک اختیار کرنے والے اہل علم خام اسلامی روایت کا حصہ تو رہے لیکن اس خام روایت سے جو مسلمہ روایت نکھر کر سامنے آئی اس روایت نے ا نہیں جگہ نہیں دی۔ ان بیسیوں فقہاء نے فکری آزادی کو تو "انجوائے" کیا لیکن ان کا علمی و فکری سرمایہ مسلمہ اسلامی روایت کا حصہ نہیں بن سکا اور نہ ہی ان کے علمی و فکری کام کو سماج میں پذیرائی حاصل ہوئی۔ آج بھی مسلمہ اسلامی روایت وہی ہے جو کلاسیکی اسلامی روایت کے نہج، اصول اور معیارات کو لے کر آگے بڑھ رہی ہے۔ آج اس روایت کے امین کون ہیں یہ بتانے کی البتہ ضرورت نہیں۔ اس لیے چند تجدد پسندوں کے فہم دین اور اس طرح کے "فکری آزادی" کے نعروں کو "اصل روایت" کا عنوان دینا کسی کی ذہنی تسکین اور اطمینان قلب کا سامان تو ہو سکتا ہے اصل اسلامی روایت ہر گز نہیں۔ آج بھی فکری آزادی تفہیم دین کے باب میں غور و فکر کرنے والے اہل علم کو حاصل یہ اختیار ہے کہ وہ خام روایت سے بعض مفید اور سنجیدہ چیزوں کو لے کر مسلمہ روایت میں جڑتے اور اس کی پختگی کا اہتمام کرتے ہیں یا محض فکری آزادی "انجوائے" کرتے اور خام روایت کو ہی اصل سمجھ کر اپنی علمی و فکری صلاحیتوں کو ضائع کر دیتے ہیں۔
اسی خلط مبحث کی بنا پر ڈاکٹر صاحب کے اس انتہائی اہم اور سنجیدہ فیصلے کو "نارملائز" کرنے کے لیے یہ استدلال پیش کیا جاتا ہے کہ یہ ایک انتظامی نوعیت کا فیصلہ ہے، نیز ڈاکٹر صاحب کا یہ فیصلہ ایک معمول اور عام سی بات ہے اور اس سے اختلاف اصل اسلامی روایت سے ناواقفیت اور بے محل ہے اور مذکورہ دونوں روایتیں فہم دین کے باب میں دین کو سمجھنے کی کوششیں ہیں۔ ہم پہلے واضح کر چکے ہیں کہ دونوں روایتیں ایک نہیں ہیں، ایک مسلمہ اسلامی روایت ہے اور دوسری خام اور تجدد پسند۔ اگر دونوں روایتیں ایک ہی ہیں تو ڈاکٹر صاحب کوان روایتوں میں انتخاب کی ضرورت کیوں پیش آئی اور انہیں یہ اعلان کیوں کرنا پڑا کہ وہ ایک روایت سے دوسری روایت کی طرف جا رہے ہیں۔ ان دونوں روایتوں اور ان کے فہم دین میں کچھ تو ایسا مختلف ہے جس کی بنیاد پر انہیں ایک روایت سے دوسری روایت کی طرف جانا پڑا۔ ڈاکٹر صاحب ایک عرصے سے فہم دین کے باب میں ان دونوں روایتوں کے شعوری طالبعلم رہے ہیں۔ اگر کسی نے ڈاکٹر صاحب کے فکری سفر کی روداد پڑھی ہو تو اسے اندازہ ہوگا کہ کسی طرح انہوں نے اوائل عمری میں ہی روایتی اہل علم اور روایتی لٹریچر سے تاثر کی بجائے گھر میں آنے والے "اشراق" سے تاثر لینا شروع کر دیا تھا۔ بقول ڈاکٹر صاحب انہوں نے 2004 میں ہی فیصلہ کر لیاتھا کہ انہوں نے کس روایت کا ہمسفر بننا ہے۔ گویا ڈاکٹر صاحب شروع دن سے ہی دو روایتوں میں سے کسی ایک کے انتخاب پر کلیئر تھے اور وقت آنے پر انہوں نے اس کا انتخاب بھی کر لیا۔ اس لیے یہ کہنا کہ یہ فیصلہ معمولی اور انتظامی نوعیت کا ہے اوردونوں روایتیں ایک ہی کوشش کا عنوان ہیں اور یہ "فکری آزادی" عین روایت ہے سراسر خُلط مبحث، اوور سمپلی فکیشن اور اس فیصلے کو نارملائز کرنے کی کوشش ہے۔ حقیقت صرف یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب واضح طور پر ایک مسلمہ روایت سے ایک خام اور تجدد پسند روایت کے اسیر ہوئے ہیں اوراس اسیری کو "فکری آزادی" کا خوشنما پیرہن عطا کردیا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کے متبعین کی طرف سے ایک خلط مبحث یہ پیش کیا جاتا ہے کہ دیوبندی روایت میں جو فکری تنوع موجود ہے ڈاکٹر صاحب کا فیصلہ اس تنوع کی ایک مثال ہے۔ بات یہ ہے کہ دیوبندی روایت میں فکری تنوع اور ڈاکٹر صاحب کے فیصلے میں بعد المشرقین ہے۔ پہلی بات یہ کہ ڈاکٹر صاحب علی الاعلان اس بات کااظہار کر چکے ہیں کہ انہیں دیوبندی روایت سے وابستگی پر اصرار نہیں۔ دوسری بات یہ کہ دیوبندی روایت میں جو فکری تنوع موجود ہے اس میں ہر صاحب فکرنے دیوبندی روایت سے وابستگی کے ساتھ فکری تنوع کو اختیار کیا ہے۔ کوئی بھی صاحب فکر ایسا نہیں جس نے مسلمہ روایت سے علی الاعلان برائت کا اظہار کیا ہو۔ اگر کبھی کسی صاحب فکرکے بارے میں سوالات اور ابہامات پیدا ہوئے تو اس نے اپنی فکری پوزیشن کلیئر کی اور بعض اصحاب فکرنے توجہ دلانے پر رجوع بھی کیا۔ اصولی بات یہ ہے کہ دیوبندی روایت میں فکری تنوع سے مراد فکری انتشاریا فکری اجاڑ نہیں کہ جس کا جو جی چاہے وہ فہم اپناتا پھرے۔ دیوبندی روایت مسلمہ روایت سے وابستگی کے ساتھ فکری تنوع سے مستفید ہونے کا نام ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے معاملے میں ہوا یہ ہے کہ انہوں نے مسلمہ روایت سے وابستگی کو درخور اعتناء نہیں جانا بلکہ اس کی بجائے ایک خام اور تجدد پسند روایت کا چناؤ کیا ہے۔ اس لیے اس فیصلے کو دیوبندی روایت کے فکری تنوع کے کھاتے میں ڈال کر اطمینان قلب کا اہتمام نہیں کیا جا سکتا۔ دیوبندی روایت ہی کیا کوئی بھی روایت ہو آپ پہلے اس روایت سے وابستگی کے متعلق اپنی پوزیشن کلیئر کرتے ہیں پھر اس پر اگلے احکام متفرع ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اس معاملے میں علی الاعلان ایک روایت سے برائت اوردوسری روایت سے وابستگی اختیار کرکے اپنی پوزیشن کلیئر کر چکے ہیں۔ اس لیے یہ فیصلہ دیوبندی روایت کا فکری تنوع نہیں بلکہ ایک خام اورتجدد پسند روایت سے وابستگی کا اظہار ہے۔ (آخری حصہ اگلے کالم میں ملاحظہ کیجیے)