ہم حل کے طرف آتے ہیں، پچھلے کالم میں میں نے ملک میں رائج نظام تعلیم کے حوالے سے بات کی تھی کہ اور ثابت کیا تھا کہ پاکستان اورمن حیث القوم ہمیں جو مسائل درپیش ہیں اس کی وجہ ہمارا فرسودہ اور مغربی خطوط پر استوار نظام تعلیم ہے۔ سماجی برائیاں، مذہب سے دوری، اخلاقی تصورات کی پامالی اور عدم احترام انسانیت یہ سب امراض نظام تعلیم کے کھوکھلے پن کی وجہ سے پیدا ہو رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اس کا حل کیا ہے، حل کے لیے ہم مختلف آپشنز پر غور کر لیتے ہیں۔ پہلا حل یہ ہے کہ ہم سیاست کے میدان میں محنت کریں، نئے اور پڑھے لکھے چہرے سامنے لائیں، نوجوان قیادت آگے آئے اورہم اپنے سماج کو ترقی یافتہ اقوام کی صف میں لا کھڑا کریں۔ سر دست یہ ممکن نہیں اور ہم پچھلے پچھتر سال سے یہ تجربات کر رہے ہیں۔ پچھلے دس سال اس تجربے کی ناکامی کے حوالے سے اہم ثابت ہوئے ہیں، ملک کی ساری اسٹبلشمنٹ مل کر اس تجربے کو سپورٹ کرتی رہی مگر نتیجہ خاک نکلا۔
ہم من حیث القوم دس سال پیچھے چلے گئے اور ان دس سال کی کمی پوری کرنے کے لیے ہمیں اگلے پچاس سال محنت کرنا پڑے گی۔ اس ناکام تجربے سے ثابت ہوا ہمیں موجودہ سیٹ اپ میں رہتے ہوئے ہی محنت کرنا ہے۔ دوسرا حل چین یا طالبان طرز کا ہو سکتا ہے، یعنی ہم جمہوریت کا بستر گول کردیں، کمیونزم نافذ کردیں یا طالبان کی طرح عسکری جد وجہد شروع کردیں۔ یہ دونوں حل پاکستان کو سوٹ نہیں کرتے، ہم چین ہیں نہ افغانستان لہٰذا ہمیں موجودہ سیٹ اپ میں رہتے ہوئے ہی محنت کرنا ہوگی۔
تیسرا حل یہ ہو سکتا ہے کہ ہم موجودہ سیٹ اپ میں رہتے ہوئے تعلیمی نظام پر محنت کریں۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ تعلیمی میدان میں تو پہلے ہی محنت ہو رہی ہے، اس کا جواب ہے نہیں، آپ اس "نہیں" کو تفصیل سے سمجھنا چا ہیں تو پچھلا کالم پڑھ لیں، ہم تعلیم کے نام پر قوم کے ساتھ مذاق کر رہے ہیں۔ ہم تعلیمی اداروں میں اچھے پاکستانی تیار کر پارہے ہیں نہ اچھے مسلمان۔ ان کے پاس تعلیم ہے نہ تربیت، زندگی کا کوئی نظریہ ہے نہ مقصد زندگی۔ یہ کائنات کو سمجھنے کی
صلاحیت رکھتے ہیں نہ انسان کے مقصد تخلیق سے آگا ہ ہیں۔ معروف معنوں میں ڈگری ہولڈر لوگوں کا ایک ہجوم ہے جن کے پاس نظریہ ہے نہ مشن، خودآگاہی ہے نہ خدا شناسی صرف ہیجان ہے اور وہ بھی لامحدود۔ اس پر مستزاد انہیں پڑھانے والوں کو بھی غرض نہیں کہ ان میں مذکورہ صفات پیدا ہو رہی ہیں یا نہیں۔ اس مستزاد پر مستزاد ان تعلیمی اداروں کے مالکان اور منتظمین کو بھی غرض نہیں کہ وہ نوجوان نسل کو کیا دے رہے ہیں اور کہاں لے جا رہے ہیں۔
امر واقع یہ ہے کہ یونیورسٹیز فیشن انڈسٹریز بن چکی ہیں اورتعلیم گاہیں تفریح گاہیں بن چکی ہیں۔ اب ایسے کھوکھلے نظام تعلیم کو کوئی سمجھتا ہے کہ یہاں محنت ہو رہی ہے تو وہ ضرورت سے زیادہ سادہ ہے۔ اس لیے میں نے عرض کیا کہ ہمیں تعلیم کے میدان میں محنت کی ضرورت ہے۔ اب اس محنت کی متنوع صورتیں ہو سکتی ہیں، بنیادی لازمی تعلیم کے بعد کالج اوریونیورسٹی سطح کی تعلیم کے لیے الگ تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں، خواتین کی تعلیم کو ان کی متعلقہ فیلڈ تک محدود رکھا جائے، دیگر ڈسپلینز میں خواتین کے لیے سیٹس مختص کی جائیں، نصاب و نظام کی بہتری اور اساتذہ کی تربیت کا اہتمام کیا جائے۔ تعلیم کو تربیت اور ہنر و تجربے کے ساتھ مربوط کیا جائے اور سارے نظام تعلیم کو خدا مرکز بنایا جائے اور مذہب کے دیے گئے اخلاقی تصورات کو اس پر حاکم ٹھہرایا جائے۔ مجھے یقین ہے سماج کو یہ حل قابل قبول نہیں ہوگا اور نہ اس پر عمل درآمد ہو سکے گا۔
دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ سر دست ہم تعلیم کے میدان میں ایسے نظام تعلیم، نصاب تعلیم، ڈگری ایوارڈنگ بورڈز اور یونیورسٹیز قائم کریں جن کے پیچھے مشنری ذہن کام کر رہا ہو۔ جس نظام تعلیم کو چلانے والوں میں امت اور ملک کا غم اور نسل نو کی دین سے وابستگی کی فکر رچی بسی ہو۔ جس نظام تعلیم کی بنیاد مادیت کی بجائے روحانیت پر رکھی گئی ہو، جس نظام تعلیم سے عوام سے لینا نہیں بلکہ انہیں کچھ دینا مقصود ہو، جس نظام تعلیم کے تحت تعلیمی ادارے کمانے کے لیے نہیں افراد بنانے کے لیے قائم کیے گئے ہوں، جس نظام تعلیم میں دین و دنیا دونوں کو اکٹھا کر دیا گیا ہواور جس نظام تعلیم کی سرپرستی ایسی ہستیاں کر رہی ہوں جن کی نیم شبی زبان زد عام ہو، جن کا تعلق مع اللہ مستند ہو اور جن کے دنیاوی اغراض سے مستغنی ہونے کی قسم دی جا سکے۔
اگرچہ پچھلے کچھ عرصے سے انفراد ی طور پر کچھ اداروں نے صورتحال کا ادراک کرکے اس نہج پر محنت شروع کی ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ خرابی اس قدر زیادہ اور وسیع پیمانے پر ہے کہ انفراد ی کوششیں بارآور نہیں ہو سکتیں۔ جہاں تک اجتماعی کوششوں کا تعلق ہے تو اس حوالے سے جامعۃ الرشید نے کوششوں کا آغاز کیا ہے، اس ادارے کے نظام تعلیم میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جن کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے۔ اس نظام تعلیم کے تحت پہلے مرحلے میں یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا گیا ہے اور بہت جلد سیکنڈری اور انٹر میڈیٹ بورڈ کا سٹیٹس بھی حاصل کر لیا جائے گا۔
میں ذاتی طور پر اس نظام تعلیم کے خد و خال سے واقف ہوں، اس کے پیچھے جو مشنری سوچ کارفرما ہے اس سے بھی آگا ہ ہوں، اس کے قیام میں جو دعائے نیم شبی شامل ہے اس کوبھی محسوس کر سکتا ہوں، اس کے پیچھے امت اور ملک و قوم کا جو غم چھپا ہوا ہے وہ بھی میرے سامنے عیاں ہے اور اس کے قیام میں دنیاوی اغراض و مقاصد سے مستغنی ہونے کی قسم دے دوں تو میں حانث نہیں ہوں گا۔
یہ نظام تعلیم قائم کرنے والوں کے پاس مشن بھی ہے، ویژن بھی اور افراد بھی اس لیے مجھے امید ہے انشاء اللہ اس نظام تعلیم سے ملک و قوم کی بہتری کے آثار پیدا ہونا شروع ہو جائیں گے۔ ابھی یہ نظام تعلیم ابتدائی مراحل میں ہے، نظام قائم کرنے والوں نے سالہال کی محنت، غور و فکر، تدبراور کوششوں کے بعد ایک نظام ہمارے سامنے پیش کر دیا ہے۔ اب اس نظام سے وابستگی، اس سے استفادہ اور اسے ملک و قوم کے حق میں نافع بنانے کی ذمہ داری ہماری ہے۔ اس نظام تعلیم سے وابستگی کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں، مثلا ملک بھر میں اس نظام تعلیم کے تحت ادارے قائم کیے جائیں، پہلے سے موجود اداروں کا ان سے الحاق کیا جائے۔
سکول ہے توان کے بورڈ سے الحاق کرکے ان کے نصاب تعلیم اور نظام تعلیم کو رائج کیا جائے، کالج ویونیورسٹی ہے تو اس یونیورسٹی سے الحاق کرکے اس کے نظام تعلیم اور نصاب تعلیم سے استفادہ کیا جائے۔ جیسے میں نے پہلے عرض کیا ابھی یہ نظام تعلیم ابتدائی مراحل میں ہے اورابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے مگر قابل اطمینان امر یہ ہے کہ ایک عرصے بعد ایسا نظام تعلیم وجود میں آگیا ہے جس کی اس ملک کو ضرورت تھی اور انشاء اللہ اس کے فوائد و ثمرات بہت جلد قوم کے سامنے آنا شروع ہو جائیں گے۔