ہم کچھ سال قبل ایک ورکشاپ میں شریک تھے اور یہ ورکشاپ ہماری دوستی اور پہچان کا سبب بن گئی تھی۔ یہ تین دن کی ورکشاپ تھی اور ان تین دنوں میں، میں اس کا "فین" ہوگیا تھا۔ اس کی عادتیں مجھے بڑی عجیب سی لگتی تھیں اور انہیں عادتوں کی وجہ سے میری اس میں دلچسپی بڑھتی گئی۔
ہماری قومی روایت کے مطابق ورکشاپ کا آغاز عموماً لیٹ ہوتا تھا اور تمام شرکاء دس کے بجائے بارہ بجے سیمینار ہال میں پہنچتے تھے لیکن میرا یہ دوست ٹھیک دس بجے اکیلا سیمینار ہال میں بیٹھا مکھیاں مار رہا ہوتا تھا۔ مغرب کے بعد ایک گھنٹہ ڈسکشن اور مکالمے کے لیے مختص ہوتا تھا جسے ہم سب خوش گپیوں اور قہقہوں میں اڑا دیتے تھے لیکن وہ پورے "خشوع و خضوع" کے ساتھ ڈسکشن میں حصہ لیتا تھا۔ وہ ورکشاپ میں شریک ایک ایسا باغی تھا جو ہمیشہ الٹ چلتا تھا۔
ہم زمین کی بات کرتے وہ آسمان کا نام لیتا، ہم سورج کی بات کرتے تو وہ چاند لے آتا، ہم پڑھنے کی بات کرتے وہ سو جاتا اور جب ہم سوتے تو وہ کتاب لے کر بیٹھ جاتا۔ ہم سب خوش ہوتے وہ ناراض ہو جاتا اور جب ہم سب پریشان ہوتے وہ کھلکھلا اٹھتا۔ جب سوال کی بات ہوتی وہ خاموش رہتا اور جب خاموشی ضروری ہوتی وہ چیخ اٹھتا۔ ہم دھوپ کی بات کرتے وہ بارش لے آتا اور جب ہمیں بارش کی خواہش ہوتی وہ دھوپ کی دعا کرنے لگتا۔
ایک عجیب معما تھا اور اس معمے کی کوکھ سے ہماری دوستی نے جنم لیا۔ ایک دن میں نے اسے چائے کی دعوت دے ڈالی۔ میں نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے اس سے سوال کیا "آپ سب سے الگ کیوں چلتے ہیں، جب ہم بادل کی تمنا کرتے ہیں تمہیں دھوپ چاہئے ہوتی ہے اور جب ہم دھوپ کے لیے گڑگڑاتے ہیں تمہیں بارش کی تمنا ہوتی ہے ایسا کیوں ہے؟ اس نے تیکھی نظروں سے مجھے گھورا، ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ سجائی اور بولا "میں اس کا جواب تمہیں تب دوں گا جب تم میرے گھر یا میرے آفس آؤ گے"۔
میں پچھلے ہفتے اس کے گھر چلا گیا، یہ لاہور کا ایک خوبصورت علاقہ تھا، ہم نے رات کا کھانا اکھٹے کھایا اور کھانے کے بعد باہر نکل گئے۔ میں نے اسے یاد دلایا کہ میں اس سوال کی تلاش میں آیا ہوں جو میں نے ورکشاپ کے دوران کیا تھا۔ اس کے ہونٹوں پے مسکراہٹ چھا گئی اور بولا "اس کے لیے تمہیں پورا ایک دن میرے ساتھ گزارنا پڑے گا" میں نے حامی بھر لی اور یوں ہمارا اگلے دن کا پروگرام طے ہوگیا۔ اگلے دن صبح آٹھ بجے اس نے گاڑی نکالی اور مجھے ساتھ لے کر نکل پڑا۔
مجھے منزل کی خبر نہیں تھی لیکن میں اس کے ساتھ ہو لیا۔ ہم مختلف راستوں سے ہوتے ہوئے مرکزی شاہراہ پر پہنچ گئے، سامنے اشارہ تھا لیکن لوگ اندھا دھند بھاگ رہے تھے، شاید وہاں کوئی ٹریفک وارڈن نہیں تھا لہٰذا اشارے پر رکنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا اور لوگوں نے سوال پیدا ہونے بھی نہیں دیا۔ جب یہ اشارہ پر پہنچا تو اس نے اپنی گاڑی روک لی، لوگ اس کے دائیں بائیں سے نکل رہے تھے لیکن یہ کمبخت رکا رہا اور اشارے کا انتظار کرنے لگا۔ پیچھے سے گاڑیاں ہارن پے ہارن بجا رہی تھیں بلکہ ہارن "مار" رہی تھیں لیکن یہ وہاں رکا رہا۔
اشارہ کھلا تو اس نے اپنی گاڑی آگے بڑھائی، میں نے سوال کے لیے زبان کھولی لیکن اس نے مجھے وعدہ یاد کرا دیا جو صبح گھر سے نکلتے وقت طے ہوا تھا کہ میں رات گھر واپسی تک کوئی سوال نہیں کروں گا۔ ہم آگے بڑھے اور ایک بینک کے سامنے اس نے گاڑی روک لی۔ وہ گاڑی سے اتر کر قطار میں کھڑا ہوگیا، لوگوں کی ایک لمبی قطار تھی اوپر سے جولائی کی گرمی لیکن یہ قطار میں کھڑا ہوگیا۔ اس سے پہلے چند نوجوانوں کی باری تھی لیکن ان میں کسی بات پر ان بن ہوگئی اور بات ہاتھا پائی تک پہنچ گئی، وہ لوگ لڑتے ہوئے قطار سے دور چلے گئے، اب پیچھے کھڑے لوگوں کا کہنا تھا آپ آگے بڑھ جائیں لیکن یہ وہاں سے نہیں ہلا، پچھلے لوگ اسے بُرا بھلا کہنے لگے لیکن یہ ٹس سے مس نہ ہوا۔
تھوڑی دیر بعد وہ لڑکے واپس آ گئے اور قطار دوبارہ سیدھی ہوگئی، وہ بینک سے ہو کر واپس آیا تو میں نے پوچھا یار اتنی دھوپ تھی تم نے ان لڑکوں کا ٹھیکہ لیا ہوا تھا؟ تم آگے بڑھ جاتے اور پچھلے والوں کی باری بھی جلدی آ جاتی۔ اس نے مجھے وعدہ یاد دلایا اور میں خاموش ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد ہم اس کے آفس پہنچ گئے، ہم خوش گپیوں میں مصروف تھے کہ ایک نوجوان اس کے آفس میں داخل ہوا اور بڑی لجاجت سے معذرت کرنے لگا، اس نے "کوئی بات نہیں" کا جملہ پھینکا اور نوجوان واپس چلا گیا۔
رات کو ہم گھر واپس آئے تو میں نے پہلا سوال کیا "تم اشارے پر کیوں رکے، لوگ تمہیں گالیاں دے رہے تھے تمہیں پھر بھی کوئی اثر نہیں ہوا، جب سب لوگ گزر رہے تھے تو تمہیں کیا مسئلہ تھا" اس نے میری طرف دیکھا اور بولا "دیکھو میں قانون کو فالو کر رہا تھا، قانون کہتا ہے اشارے پر رکا جائے اور جب میں قانون کو فالو کر رہا ہوں تو مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ لوگ مجھے کیا کہتے ہیں" میں تھوڑا سنبھل گیا، میں نے اگلا سوال کیا "اچھا تو تم قطار میں جگہ ہونے کے باوجود آگے کیوں نہیں بڑھے" وہ بولا "وہ لڑکے اگرچہ قطار سے نکل گئے تھے اگر وہ واپس آ جاتے تو پہلا حق ان کا تھا اس لیے میں نے ان کا حق برقرار رکھا۔
اب اگر لوگ اس بات پر سیخ پا ہو رہے تھے تو فالٹ لوگوں میں تھا مجھ میں نہیں" میں نے پوچھا "اچھا وہ نوجوان کی کیا کہانی تھی"۔ وہ بولا "اس کی کہانی بھی دلچسپ تھی، وہ نوجوان میرا جونیئر تھا اس نے مجھے مل کر کمپنی میں کرپشن کی آفر کی تھی لیکن میں نے انکار کر دیا تھا، اس نے مجھ پر جھوٹا الزام لگایا اور میں باعزت بری ہوگیا اور اب وہ اس بات کی معذرت کرنے آیا تھا اور میں نے اسے معاف کر دیا"۔
اس نے پہلو بدلا اور بولا "اب ایک سوال میں تم سے کرنا چاہتا ہوں" میں نے گردن ہلائی تو وہ بولا "تم مجھے بتاؤ ورکشاپ کے دوران میں نے روٹین، ٹائم ٹیبل اور انتظامیہ کی طرف سے دیئے گئے قوانین سے ہٹ کر کوئی قدم اٹھایا؟" میں سوچ میں پڑ گیا، وہ بولا "دیکھو میں آرام کے وقت آرام کرتا تھا لیکن آپ سب گپیں لگاتے تھے، میں ڈسکشن کے وقت سیمینار ہال میں ہوتا تھا آپ لوگ باہر نکل جاتے تھے، میں دس بجے لیکچر ہال میں ہوتا تھا آپ بارہ بجے آتے تھے، میں لیکچر کے دوران سوال کرتا تھا اور آپ بعد میں سوال کرتے تھے۔
میں نے اشارے پر گاڑی روکی تو میں بُرا بن گیا، مجھے گالیاں بھی سننا پڑیں اور طعنے بھی۔ میں بینک میں قطار میں کھڑا ہوا تو مجھے بُرا کہا گیا، میں نے کرپشن سے انکار کیا تو مجھ پر الزام لگ گیا۔ میں ایک عرصے تک یہی سوچتا رہا کہ میں کہاں غلط ہوں لیکن پھر ایک وقت کے بعد مجھے اطمینان ہوگیا کہ فالٹ مجھ میں نہیں لوگوں میں ہے۔ میں ایک ایسے معاشرے میں جی رہا ہوں جہاں قانون پر عمل کرنے والوں کو اجنبی اور باغی تصور کیا جاتا ہے اور جہاں امن، قانون اور وقت کی قدر کرنے والوں کو طعنے اور گالیاں سننا پڑتی ہیں۔
سیدھی بات ہے کہ جب ہم اپنے ملک اور قوم کو ٹھیک کرنے کے وعدے کرتے اور نعرے لگاتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں اپنی ذات کو ٹھیک کرنا چاہیے اور میں اسی نکتے پر عمل کر رہا ہوں۔ تمہاری نظر میں، میں باغی ہوں لیکن میرا دل مطمئن ہے اور جب میرا دل مطمئن ہے تو مجھے کسی کے کچھ کہنے اور کوسنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا"۔ وہ اپنی بات کہہ کر خاموش ہوگیا۔ ٹھیک ایک سال بعد مجھے میرے سوال کا جواب مل گیا تھا اور اس جواب نے مجھے لاجواب کر دیا تھا۔