اگر آج کوئی مؤرخ یہ دعویٰ کرے کہ چنگیز خان اور ہلاکو خان کے عہد میں جب بغداد میں مسلمانوں کے خون سے دجلہ و فرات کا پانی سرخ ہو چکا تھا عین اسی لمحے منگول سلطنت میں فہم دین کی ایک عظیم الشان روایت پروان چڑھ رہی تھی تو کیا آپ اس کا یقین کریں گے؟ اس سوال کے جواب سے قبل میں تاریخ اور مؤرخ کے بارے میں کچھ حقائق آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ تاریخ وہ علم ہے جس میں ہم ماضی کے اہم واقعات، بادشاہوں کے حالات، جنگوں کی صورتحال اور اہم سماجی معاملات کے بارے میں جانکاری حاصل کرتے ہیں۔
تاریخ کا تصور عموماً ماضی سے جڑا ہوتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنے عہد کی تاریخ لکھنا ایک مشکل امر ہوتا ہے۔ کوئی بھی مؤرخ اپنے عہد کی تاریخ اس لیے ٹھیک سے نہیں لکھ پاتا کہ وہ جذباتی طور پر اپنی پسند و ناپسند کا اظہار کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ بعد میں آنے والے مؤرخین اور اہل علم کی ان حالات سے جذباتی وابستگی نہیں ہوتی اس لیے وہ انہیں زیادہ بہتر انداز اور حقیقت پسندانہ نظر سے دیکھ رہے ہوتے ہیں اور بہتر نتائج کشید کر سکتے ہیں۔
اگرچہ پچھلی ایک صدی میں ماضی کی طرح حال کی تاریخ لکھنے کی روایت بھی پروان چڑھی ہے، مثلاً جنگ عظیم اول اور دوم کے بعد مؤرخین نے اپنے عہد کی تاریخ لکھنا شروع کی تا کہ انسان اپنے عہد کی سرگرمیوں کا تجزیہ کرکے اپنے مستقبل کو بہتر بنا سکے۔ بلکہ اب تو مستقبل کی تاریخ لکھنے کی روایت بھی پڑ گئی ہے، مثلاً ہراری نے Homo Deus: A Brief History of Tomorrow لکھ کر اس کی شروعات کر دی ہیں لیکن بنیادی طور پر تاریخ کا تعلق انسانوں کی ماضی کی روایات، حقائق، واقعات اور حالات سے ہوتا ہے۔
آج ہم جن حالات واقعات سے گزر رہے ہیں یا دیگر لفظوں میں ہمارے حال کی جو تاریخ ہے ہم اس سے بے خبر ہیں۔ ہم اپنی تاریخ کو اپنی جذباتی وابستگی کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں اس لیے ہم صحیح اور غلط کی پہچان سے بھی نابلد ہیں۔ تاریخ کی مختلف اقسام ہیں مثلاً بین الاقوامی تاریخ، علاقائی تاریخ، سیاسی تاریخ، مذہبی تاریخ، ملٹری تاریخ، آرٹ اور کلچر کی تاریخ، علوم و فنون کی تاریخ اور سائنس و فلسفہ کی تاریخ۔ ہم اگر بین الاقوامی تاریخ کی بات کریں تو اس وقت روس یوکرین جنگ، فلسطین اسرائیل ایشو، پاک بھارت تنازع، شمالی کوریا اور امریکہ کے معاملات، امریکہ اور چین کے مابین سرد جنگ اور دنیا کے دیگر ممالک کے تعلقات تاریخی حوالے سے اہم ہیں۔
مذہبی حوالے سے دیکھیں تو الحاد، سیکولرزم، لبرلزم، مذہبی انتہا پسندی، جدیدیت و مابعد جدیدیت اور اسلاموفوبیا جیسے مسائل مستقبل کے مؤرخ کی توجہ کا مرکز ہوں گے۔ بین الاقوامی تاریخ کی طرح تاریخ کے کچھ علاقائی تناظرات بھی ہو سکتے ہیں مثلاً اس وقت پاکستان کی سیاسی صورتحال میں اداروں کی مداخلت، پی ٹی آئی کا عروج و زوال، پولیٹیکل انجینئرنگ اور سیاسی و معاشی استحکام جیسے مسائل مستقبل کے مؤرخ کی توجہ کا مرکز ہوں گے۔ اسی طرح مذہبی حوالے سے پاکستان میں رائج مختلف مسالک، مذہبی شدت پسندی، مذہبی سیاسی جماعتیں، دینی مدارس اور تفہیم دین کی مختلف روایتیں مؤرخین کی توجہ کا مرکز ہوں گی۔
آج مذہبی حوالے سے ہماری جذباتی وابستگیاں مختلف ہیں، ہم اپنے مسالک، اپنی مذہبی جماعتوں، اپنے دینی مدارس اور اپنے مسلکی علما سے جذباتی وابستگی رکھتے ہیں اس لیے ہم چیزوں اور حقائق کو درست انداز میں نہیں سمجھ پا رہے۔ اس سب کے باوجود اتنی بات ضرور ہے کہ آج یہ خطہ فہم دین کے حوالے سے دنیا کے دیگر خطوں میں جنم لینے والی فہم دین کی روایات سے کہیں فائز اور فوق ہے۔ اس کی وجہ اس خطے میں موجود دینی مدارس کی وہ شاندار روایت ہے جو اٹھارہ سو ستاون کے بعد پروان چڑھی۔ ان مدارس میں آج بھی قرون وسطیٰ کے روایتی مدارس کی جھلک موجود ہے۔
آج بھی ان دینی مدارس میں قرآن، فن تجوید، تفسیر و اصول تفسیر، حدیث و اصول حدیث، فقہ و اصول فقہ، منطق، کلام، بلاغت اور دیگر علوم و فنون اسی کلاسیکی اور روایتی انداز میں پڑھائے جا رہے ہیں۔ آج دنیا بھر کے مسلمان اور خصوصاً مغرب کے نوجوان اگر دینی علوم کے حصول کے لیے کہیں جاتے ہیں تو وہ یہی خطہ اور دینی مدارس کی اسی روایت کا انتخاب کرتے ہیں۔ بلکہ اب تو اردو کو اسلامی روایت کے علوم کی زبان کا درجہ حاصل ہو چکا ہے۔
آج ٹھیٹھ اسلامی علوم میں جو ریسرچ ہو رہی ہے، تحقیق و افتا کے حوالے سے جو کام ہو رہا ہے، قدیم کتب کی شرحیں لکھی جا رہی ہیں یا جدید مسائل کے حوالے سے غور و فکر ہو رہا ہے وہ اکثر اردو میں ہو رہا ہے۔ ماضی میں فارسی کو یہ حیثیت حاصل تھی کہ وہ اسلامی علوم کی زبان کہلاتی تھی، برصغیر میں اردو کی ترویج سے قبل بلکہ نصف صدی قبل تک اکثر اسلامی علوم فارسی زبان میں منصہ شہود پر آتے تھے۔ فارسی سے قبل یہ حیثیت عربی کو حاصل تھی اور آج بھی عربی اس حوالے سے کچھ زیادہ بانچھ نہیں۔
قصہ مختصر! آج یہ خطہ دینی مدارس، کلاسیکی اسلامی علمی روایت اور فہم دین کے حوالے سے امتیازی شان کا حامل ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان اور خصوصاً مغرب کا نوجوا ن حصول علم کے لیے اس خطے اور ان اداروں کا رخ کرنے پر مجبور ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان اس خطے کے علما و مفتیان کو راہنمائی کے لیے اپنے ہاں مدعو کرتے رہتے ہیں۔ اہل عرب اس خطے کے علما کی خدمات کے معترف اوران کی راہنمائی میں کام کرنے پر شاداں ہیں۔
دنیا بھر میں امت مسلمہ کو کہیں زخم لگے تو اس خطے اور ان مدارس اور علما کی طرف سے سب سے پہلے اور سب سے مضبوط و توانا آواز بلند ہوتی ہے اور تب تک ہوتی رہتی ہے جب تک زخم مندمل نہ ہو جائیں۔ مستقبل کا مؤرخ جب اس سارے منظر نامے پر غور کرے گا تو وہ اس بات پر مجبور ہوگا کہ اس خطے اور ان مدارس میں پروان چڑھنے والی فہم دین کی روایت کو مرکزی مقام دے۔ لیکن اس کے ساتھ وہ اس سوال پر بھی سوچنے پر مجبور ہوگا کہ جب اس خطے کو فہم دین کی روایت میں مرکزی مقام حاصل تھا تو وہ کون سی روایت تھی جو اس خطے سے اٹھ کر استعمار کی گود میں بیٹھ کر فہم دین کا نعرہ بلند کر رہی تھی۔ وہ استعمار جس کے ہاتھ دنیا بھر کے مسلمانوں کے خون سے رنگین تھے۔ وہ استعمار جس کی ہلہ شیری سے اہل فلسطین پر انسانی تاریخ کے بدترین مظالم ڈھائے گئے تھے۔
مستقبل کا مؤرخ ضرور سوچے گا کہ اس استعمار کی گود میں جنم لینے والی فہم دین کی روایت نے کبھی امت کی بات کی تھی اور کبھی فلسطین کے حق میں دو بول بولے تھے۔ میں اور آپ آج یہ سوال نہیں سوچ سکتے کیونکہ ہم اس عہد میں زندہ ہیں اور کسی عہد میں زندہ رہنے والا انسان اس عہد کے حالات و واقعات کو معروضی انداز میں نہیں دیکھ رہا ہوتا۔
مستقبل کا مؤرخ اور ایک عام مسلمان جب اکیسیویں صدی میں دنیا بھر کے مسلمانوں اور خصوصاً اہل فلسطین کی دکھ بھری داستان پڑھے گا اور دوسری طرف وہ دیکھے گا کہ عین اسی لمحے اسی استعمار کی گود میں فہم دین کی ایک عظیم الشان روایت پروان چڑھ رہی تھی تو کیا وہ اس روایت پر یقین کرے گا؟ کیا آپ آج یہ یقین کر سکتے ہیں کہ جب بغداد میں مسلمانوں کے خون سے دجلہ و فرات کا پانی سرخ ہو چکا تھا اسی لمحے منگول سلطنت میں فہم دین کی ایک عظیم الشان روایت پروان چڑھ رہی تھی؟