واشنگٹن ڈی سی امریکہ کا دارالحکومت ہے، ڈی سی سے مراد ڈسٹرکٹ آف کولمبیا ہے۔ یہ ایک وفاقی ضلع ہے اور دستور کے مطابق یہ کسی ریاست کا حصہ نہیں بلکہ فیڈرل گورنمنٹ کے ماتحت ہے۔ واشنگٹن کو 16 جولائی 1790 میں دارالحکومت ڈکلیئر کیا گیا اور اس کے قیام کے لیے مطلوبہ زمین ریاست میری لینڈ اور ریاست روجینیا سے حاصل کی گئی تھی۔
امریکی ریاست اور بین الاقوامی اداروں کی تمام اہم عمارات واشنگٹن میں ہیں۔ پینٹا گون، وائٹ ہاؤس، پارلیمنٹ، سینٹ، ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور دیگر بہت سارے قومی اور بین الاقوامی اداروں کے دفاتر اسی شہر میں ہیں۔ واشنگٹن میں امریکی پارلیمنٹ کے بالکل سامنے جیفر سن بلڈنگ ہے اور یہ پُر شکوہ عمارت امریکہ کے تیسرے صدر تھامس جیفرسن سے منسوب ہے۔ یہ عمارت دنیا کی چند بڑی لائبریریوں میں سے ایک ہے اور اس لائبریری میں 150 ملین سے زائد کتب موجود ہیں۔
مختلف زبانوں میں لکھے گئے مخطوطات اور دیگر قیمتی نوادرات بھی یہاں محفوظ ہیں۔ تھامس جیفرسن امریکہ کے بانیوں میں سے تھے، یہ ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے امریکہ کی آزادی کا اعلان تحریر کیا تھا۔ یہ 1743 میں ورجینیا میں پیدا ہوئے تھے اور 1826میں وفات پائی تھی۔ یہ 1801 سے 1809 تک امریکہ کے صدر رہے۔ جیفرسن کی زندگی بڑی دلچسپ تھی، یہ ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے، انہیں مطالعے کا شوق تھا اور انہوں نے دنیا بھر کا لٹریچر پڑھ ڈالا تھا۔
جیفرسن کو انگریزی، لاطینی، یونانی، فرانسیسی، سپینی، اطالوی اور اینگلو سیکسن زبانو ں پر عبور حاصل تھا۔ یہ انتہا درجے کے علم دوست اور صاحب مطالعہ انسان تھے اور انہوں نے علم اور مطالعے کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا۔
جیفرسن کے شوق مطالعہ کا اندازہ آپ اس بات سے کر سکتے ہیں کہ انہوں نے قرآن کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا تھا، وہ روزانہ صبح اٹھنے کے بعد قرآن کا ترجمہ پڑھتے اور اس کے معانی و مطالب پر غور کرتے تھے۔ وہ قرآنی موضوعات پر اپنے دوستوں سے بحث و مباحثہ کرتے اور جب تھک جاتے تو قرآن کو بڑے ادب و احترام کے ساتھ الماری میں رکھ دیتے تھے۔ ان کے زیر مطالعہ رہنے والے قرآن کے دو نسخے آج بھی جیفرسن بلڈنگ میں محفوظ ہیں۔
مطالعہ اور کتاب دوستی ترقی یافتہ معاشروں کی علامت ہے اور کوئی معاشرہ کتاب کو نظر انداز کر کے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ امریکہ آج اگر امریکہ ہے تو اس کی وجہ علم، مطالعہ، تحقیق اور کتاب دوستی ہے۔ ہمارے پیچھے رہ جانے کے اسباب میں سے ایک یہ ہے کہ ہم نے من حیث القوم کتاب کو نظر انداز کر دیا ہے۔ آپ مغربی ممالک کا سفر کر کے دیکھیں آپ کو وہاں لوگ سڑکوں، فٹ پاتھ، ایئرپورٹس، ریلوے سٹیشن، بسوں اور انتظار گاہ میں کتاب پڑھتے دکھائی دیں گے۔ لوگ اشارے پر بھی رکیں تو کتاب نکال کے پڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔
ہم کم از کم مغرب سے اچھی باتیں تو سیکھ سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں کتاب بینی کا رواج پہلے ہی نہیں تھا اوپر سے رہی سہی کسر سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز نے پوری کر دی ہے۔ پہلے تو طلبا تھوڑا بہت وقت کتاب کو دے دیا کرتے تھے لیکن اب یہ سارا وقت یو ٹیوب، فیس بک، ٹویٹر اور واٹس ایپ کی نذر ہو جاتا ہے۔ جسمانی عمر کی طرح انسان کے عقل و شعور کی بھی ایک عمر ہوتی ہے جو علم، مطالعے اور تجربات سے پروان چڑھتی ہے۔ اگر ایک انسان کتابیں پڑھتا ہے اور مسلسل پڑھتا ہے تو وہ دوسروں کی نسبت جلد شعور کی منزلیں طے کر لیتا، اس کی عقل پختہ اور اس کا شعور بالغ ہو جاتا ہے۔
مطالعے سے انسان کی شخصیت سنورتی ہے، انسان مہذب اور باشعور بن جاتا ہے۔ سوچنے اور غور و فکر کرنے کی عادت پڑتی ہے، قوت مشاہدہ بڑھ جاتی ہے اور انسان وہ چیزیں اور احساسات بھی محسوس کرنے لگتا ہے جو عام آدمی محسوس نہیں کر سکتا۔ اگر کسی کو بچپن سے ہی کتابیں پڑھنے کی عادت پڑ جائے تو وہ اپنے ہمعصروں سے بہت آگے نکل جاتا ہے۔ ہر انسان کی کوئی نہ کوئی تفریح ہوتی ہے اور وہ فارغ وقت میں اپنے لیے تفریح کا کوئی نہ کوئی ذریعہ ڈھونڈتا ہے۔
کوئی دوستوں کے ساتھ گپ شپ لگا کر خوش ہوتا ہے، کسی کی تفریح کھیل ہے، کوئی کسی اچھے ہوٹل میں کھانے کو تفریح سمجھتا ہے، کوئی اپنے گھر والوں کے ساتھ رہ کر خوش ہوتا ہے اور کسی کی تفریح ٹی وی اور انٹرنیٹ ہیں لیکن سب سے بہتر تفریح یہ ہے کہ آپ اپنا فارغ وقت کتاب کے ساتھ گزاریں۔ اگر کوئی کتاب کے ساتھ رہ کر خوش ہے اور کتاب اس کے فارغ وقت کی تفریح بن گئی ہے تو شاید وہ دنیا کا خوش قسمت انسان ہے۔ سردیوں کی ٹھنڈی راتوں میں بستر پر لیٹ کر، کمبل اور رضائی اوڑھے، چائے کے ساتھ کتاب پڑھنے کا جو مزہ ہے شاید وہ کسی فائیو سٹار ہوٹل میں کھانا کھانے سے بھی حاصل نہ ہو۔
ہمارے ہاں کتاب بینی کا کتنا ذوق ہے اس کا اندازہ آپ اس سے لگائیں کہ ہمارے ہاں جو کتابیں چھپتی ہیں ان کا پہلا ایڈیشن عموماً گیارہ سو کتابوں پر مشتمل ہوتا ہے، اگر کوئی اچھی کتاب ہو تو چھ ماہ ورنہ عموماً سال تک دوسرے ایڈیشن کی نوبت ہی نہیں آتی۔ گویا بائیس کروڑ عوم میں سے صرف گیارہ سولوگ ایسے ہیں جو کتاب خریدتے ہیں اور ان گیارہ سو میں سے بھی ضروری نہیں کہ سب پڑھتے ہوں۔
ہمارے ہاں بیسٹ سیلر کتابوں کے ایڈیشنوں کی حد بھی زیادہ سے زیادہ پانچ دس تک ہے، اگر کوئی کتاب تمام ریکارڈ توڑ دے تو بھی اس کی اشاعت تیس چالیس ہزار سے زائد نہیں ہوتی۔ مغرب میں ایسی بھی کئی کتابیں شائع ہوئی ہیں جن کی اشاعت دس دس کروڑ تک گئی ہے، ان کی کوئی کتاب نارمل بھی چھپے تو دس ہزار سے کم نہیں چھپتی۔
مطالعہ اور کتاب دوستی آپ کی زندگی میں کتنا بڑا انقلاب پیدا کر سکتی ہے اس کا اندازہ آپ مشہور امریکی مصنف مارک ٹوین کی زندگی سے کر سکتے ہیں۔ مارک ٹوین ایک دن امریکی ریاست میسوری کی گلیوں سے گزر رہا تھا، راستے میں اسے کتاب کا ایک پھٹا ہوا ورق دکھائی دیا، اس نے یونہی وقت گزاری کے لیے اسے اٹھا لیا۔ اس نے ورق پڑھا تو یہ جون آف آرک کی سوانح حیات تھی، اس صفحے پر جون آف آرک کی قید کے بارے میں لکھا تھا۔
وہ جون آف آرک کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا، اسے دلچسپی پیدا ہوئی اور اس نے جون آف آرک کے بارے میں پڑھنا شروع کر دیا۔ اس نے جون کے بارے ساری کتابیں پڑھ ڈالیں۔ بتیس سال تک وہ جون آف آرک کے بارے میں سب کچھ پڑھ چکا تھا۔ چھیالیس سال کی عمر میں اس نے "جون آف آرک کی یادگاریں" نامی کتاب لکھی، یہ ایک معمولی کتاب تھی لیکن اس کتاب سے اس نے ادب کی شاہراہ پر سفر شروع کر دیا اور آج دنیا اسے مارک ٹوین کے نام سے جا نتی ہے۔
آج ہمارا ملک مذہبی و سیاسی انتہا پسندی کی جس حد تک پہنچ چکا ہے ضرورت ہے کہ سماج میں مطالعہ کا ذوق اور کتاب بینی کے رواج کو پروان چڑھایا جائے۔ یقین جانیں جس دن اس ملک اور اس کے بائیس کروڑ عوام نے کتاب سے رشتہ جوڑ لیا اس دن یہ ہاتھیوں کے کھیل سے توبہ کر لیں گے۔ یہ کسی ہاتھی کی حمایت میں کچلے جانے سے بچ جائیں گے اور یہ اپنے خاندان اور رشتہ داروں کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزارنے کے قابل ہو جائیں گے۔