میں دو ہفتے پہلے ان کی مجلس میں شریک ہوا تھا، ان کی مجلس ہفتے میں دو دن ہوتی تھی، جمعہ کے دن عصر کے بعد اور ہفتے کو رات نو سے دس گیارہ بجے تک چلتی تھی۔ بیان سے پہلے تھوڑی دیر مجلس ذکر ہوتی تھی اور اس کے بعدان کا بیان شروع ہوجاتا تھا۔ اس دن کچھ تاخیر سے بیان کے لیے تشریف لائے، خادم نے بتایا طبیعت ٹھیک نہیں ہے مگر جب بیان کے لیے بیٹھے تو ہشاش بشاش تھے۔
بیان کے دوران حاضرین سے سوال کرنا یا کسی شریک کا نام لے کر اسے مخاطب کرنا ان کا معمول تھا۔ اس دن بیان کا موضوع تکبر وغرور تھا، حسب معمول حاضرین سے کچھ سوالات کیے، میرے طرف دیکھا، مسکرائے اور کہا تم نے جواب نہیں دینا اور میں خاموش ہوگیا۔ حاضرین کے جوابات کے بعد ارشاد فرمایا "نسان اگر اپنی تخلیق پر غور کر لے تو وہ کبھی تکبر میں مبتلا نہ ہو، وہ یہ کبھی نہ کہے تم مجھے نہیں جانتے میں کون ہوں، بھئی کون ہو تم؟ ایک ناپاک قطرے سے جنم لینے والا ایک گندا وجود جو پیدا ہوا تواپنا ہاتھ تک نہیں ہلا سکتا تھا۔
"مجلس ختم ہوئی، حاضرین سلام کرکے رخصت ہونے لگے، میں نے بھی سلام کے لیے ہاتھ آگے بڑھائے تو کہنے لگے"کیا خدمت کریں آپ کی" میں نے زیر لب مسکرا کر دعاؤں کی درخواست کی اور خانقاہ سے نکل آیا۔ کاش مجھے اندازہ ہوتا یہ ان سے آخری ملاقات ہوگی تو میں چند گھڑیاں مزید ان کے خدمت اور صحبت میں گزار لیتا۔
ڈا کٹر شاہد اویس نقشبندیؒ اب اس دنیا میں نہیں رہے لیکن مجھ سمیت ہزاروں چاہنے والوں، طلباء اور متعلقین کواس پر یقین نہیں آ رہا۔ خوبصورت خدوخال، نورانی چہرہ، دراز قد، وجیہ شخصیت، کشادہ پیشانی اور بارعب چہرہ۔ انسان پہلی ہی نظر میں کہہ اٹھے کہ ایسا چہرہ کسی ولی اللہ کا ہی ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کوجوانی کی عمر میں ہی علماء و صلحاء کی صحبت میسر رہی، حضرت زکریا مہاجر مدنیؒ کی صحبت سے بھی فیض یاب ہوئے۔
خاندان میں دنیاوی تعلیم کا رجحان تھا تو میڈیکل کی لائن میں چلے گئے، پیتھالوجسٹ ڈاکٹر بنے اور علامہ اقبال میڈیکل کالج میں پڑھانا شروع کر دیا۔ ایک عرصہ تک تعلیم و تدریس میں مشغول رہے لیکن دل میں دین کی محبت رچی بسی تھی۔ فیصلہ کیا کہ یہ سب چھوڑ کر علم دین حاصل کیا جائے، پروفیسری اور لاکھوں روپے تنخواہ چھوڑ کر مدرسے کی چٹائیوں پر بیٹھنے کا فیصلہ بڑا صبر آزما تھا۔ دوست احباب نے مستقبل کے خطرات اور بے روزگاری کے خدشات سامنے رکھے مگر اللہ
جن لوگوں کو اپنے دین کے لیے منتخب کر لیتا ہے ان کے لیے یہ مسائل مسائل نہیں رہتے۔ آٹھ سال لگا کر دین کی تعلیم حاصل کی اور اپنا گھر بار اور اپنی ذات سمیت سب کچھ خدمت دین کے لیے وقف کر دیا۔ ڈیفنس میں موجود اپنے گھر کے تہہ خانے میں چھوٹی بچیوں کے لیے حفظ قرآن کی کلاسز شروع کر دیں، اوپر والے حصے کو خانقاہ ڈکلیئر کردیا اور اپنی رہائش ایک دو کمروں تک محدود کر لی۔
دس بارہ سال قبل رائیونڈ روڈ پر آس اکیڈمی کے نام سے ایک دینی ادارے کی بنیاد رکھی اور چند ہی سالوں میں اس ادارے کا شمار پاکستانی کے بڑے دینی اداروں میں ہونے لگا۔ آج اس ادارے میں سینکڑوں طلباء زیر تعلیم ہیں اور حفظ، درس نظامی، معہد، افتاء، سکول، حفاظ اسپیشل کورسزاور کئی دیگر شعبے فعال ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے ویژن کے مطابق اس ادارے کی خوبی یہ ہے کہ یہاں تزکیہ نفس کا خصوصی اہتمام کیاجاتاہے۔ ایسے وقت میں کہ جب ہمارا نظام تعلیم تربیت کے حوالے سے کھوکھلا ہو چکا ہے ڈاکٹر صاحب کی دور اندیشی قابل ستائش تھی۔
دین کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب کی خدمات ہمہ جہت تھیں مگر ان کی سب سے اہم خوبی یہ تھی کہ وہ کالجز اور یونیورسٹی اسٹوڈنٹس کے حوالے سے بہت متفکر رہتے تھے اور اور ان میں کام بھی کر رہے تھے۔ وہ خود ان اداروں میں رہ کر آئے تھے اس لیے انہیں اندازہ تھا کہ وہاں کا ماحول کیسا ہوتا ہے اور وہاں پڑھنے والے طلباء طالبات کی نفسیات کیا ہوتی ہیں۔ یونیورسٹیز کے سینکڑوں طلباء و طالبات ان سے بیعت تھے اور وہ کئی طلباء وطالبات کے واقعات اپنی مجالس میں سناتے تھے۔
وہ بتاتے تھے کہ طلباء و طالبات ان کے سامنے روپڑتے ہیں کہ ان کی زندگی کتنی بے چین ہے لیکن جب وہ ان سے جڑتے توان کی زندگیاں تبدیل ہوجاتی تھی۔ وہ یونیورسٹی اسٹوڈنٹس کے لیے وقتا فوقتا اصلاحی مجالس اور اجتماعات کا بھی اہتمام کرتے تھے۔ مجھ سمیت ہزاروں طلباء وطالبات ایسے تھے جو ان کی مجلس میں جاتے اور اشک ندامت بہا کر دلوں کی پاکیزگی کا اہتمام کر لیتے تھے، ان کے جانے سے اب یوں لگتا ہے جیسے ہم سب روحانی طور پر لاوراث اور یتیم ہوچکے ہیں۔
ان کی خدمات کا ایک پہلو یہ تھا کہ وہ ختم نبوت کے حوالے سے بہت حساس تھے اور اس حوالے سے بہت کام بھی کر رہے تھے۔ انہوں نے مختلف اضلاع میں ختم نبوت کے لیے مبلغین مقرر کر رکھے تھے جو اپنے اضلاع میں ختم نبوت کے حوالے سے کام کرتے تھے۔ مثلا مختلف سکولوں اور کالجوں میں ختم نبوت کے حوالے سے پروگرام کرنا، مساجد میں نشستیں رکھنا، تاجروں کے ساتھ ملاقاتیں کرنا وغیرہ۔ یہ مبلغین ڈاکٹر صاحب کو اپنی کارکردگی سناتے تو بہت خوش ہوتے بلکہ کئی دفعہ تو ایسے مبلغین کا ماتھا چومتے اور ان مبلغین کوماہانہ مشاہرہ اپنی جیب سے ادا کرتے تھے۔
ختم نبوت کے حوالے سے اتنے حساس تھے کہ جب بھی ختم نبوت کی بات ہوتی چہرے پر سنجیدگی طاری ہو جاتے اور فورا سیدھے ہو کر بیٹھ جاتے تھے۔ ان کی خدمات کا ایک پہلو رفاہ عامہ تھا، وہ رفاہ عامہ کے کاموں میں بے دریغ خرچ کرتے تھے، مختلف علاقوں اور اداروں میں صاف پانی کا اہتما کیا۔ اپنے مدرسے آس اکیڈمی کے طلباء اور اساتذہ کا خاص خیال رکھتے تھے۔ طلباء کے کھانے، رہائش اور دیگر ضروریات کو خود دیکھتے۔ اساتذہ میں سے جس کے بارے پتا چلتا وہ تنگدستی کا شکار ہے اس کے مدد کرتے۔
دنیاوی تعلیم یافتہ پروفیشنلز کے لیے لاہور کے مختلف علاقوں میں ہلپ کے نام سے دینی تعلیم کا اہتما کر رکھا تھا، جہاں شام کے اوقات یا ہفتہ اتوار کلاسز ہوتی تھیں۔ طالبات کے لیے دینی تعلیم کا اہتما م اور چھوٹے بچوں کی دینی تعلیم و تربیت کے لیے سکولوں کی سرپرستی بھی کر رہے تھے۔ امت کے حوالے سے ہر لمحہ متفکر رہتے۔ چھ ماہ قبل پاکستان میں سیلاب آیا ان دنوں بہت بے چین رہے، میں ان دنوں ان کی مجالس میں شریک رہا، کہا کرتے تھے اتنی بڑی قیامت گزر گئی مگر پھر بھی ہماری زندگیوں میں تبدیلی نہیں آئی۔
لوگ سیلاب سے پہلے نماز پڑھتے تھے نہ اب پڑھتے ہیں، پہلے خوف خدا تھا نہ اب اس کے آثار نظر آتے ہیں۔ کبھی کبھاراپنی مجالس میں علماء سے بھی شکوہ کناں ہوتے کہ علماء اپنی ذمہ داری ادا نہیں کر رہے۔ میڈیا کی اثر پذیری کے پیش نظر اس میدان میں بھی خدمات کے لیے پلاننگ کر رہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب صرف عوام میں ہی کام نہیں کر رہے تھے بلکہ کئی وزیر، مشیر، تاجر، علماء، پروفیسراور اداکار باقاعدہ ان کے خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔
ہم جیسے لوگ جو گناہوں کی دلدل میں دھنسے ہوتے تھے ہفتہ بعد ان کی مجلس میں جا کر دل کی پاکیزگی کا اہتمام کر لیا کر تھے مگراب یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم سب روحانی طور پرلاوارث اور یتیم ہو چکے ہیں۔ اللہ ڈاکٹر صاحب کی لغزشوں کو معاف فرمائیں، ان کے درجات بلندفرمائیں اور خدمت دین کے حوالے سے ان کی ہمہ جہت خدمات کو قیامت تک جاری وساری رکھیں۔