چودھری نیاز علی خان تحریک پاکستان کا اہم کردار تھے، 28 جون 1880میں ضلع ہوشیار پور کے گاؤں "گھوڑے واہ" کے ایک راجپوت گھرانے میں پیدا ہوئے۔ 1900 میں تھامسن کالج آف سول انجینئرنگ سے انجینئرنگ کی ڈگری لی اور پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ کو جوائن کر لیا۔ 1901میں پٹھانکوٹ سے ڈلہوزی تک 80 کلو میٹر کا خوبصورت روڈ بنوایا۔ پبلک ورکس کے علاوہ محکمہ مائنز اور آبپاشی سے بھی وابستہ رہے۔
محکمہ مائنز میں سول انجینئر کی حیثیت سے دنیا کی دوسری بڑی نمک کی کان کھیوڑہ کا نقشہ اور سرنگ کا ڈیزائن ترتیب دیا۔ محکمہ آبپاشی میں پنجاب میں دیپالپور کے قریب 3 نہروں کے آبپاشی کے منصوبے پر کام کیا اور صوبہ کے پی کے قبائلی علاقوں میں ایک ڈیم تعمیر کیا۔
1935 میں سرکاری ملازمت سے ریٹائرڈ ہوئے اور تعلیمی و رفاہی کاموں کا آغاز کر دیا۔ وہ اپنے آبائی علاقے پٹھان کوٹ، ضلع گورداس پور میں اسلامی علوم کی ایک معیاری درسگاہ بنانا چاہتے تھے اس سلسلے میں انہوں نے متعدد اہل علم کو خطوط لکھ کر راہنمائی کی درخواست کی۔ ان اہل علم میں مولانا اشرف علی تھانویؒ، علامہ محمد اقبالؒ، مولانا عبد الماجدؒ دریا آبادی، سید سلیمانؒ ندوی اور مولانا مودودیؒ شامل تھے۔
علامہ اقبالؒ چودھری صاحب کے اس منصوبے سے بہت متاثر ہوئے اور چودھری صاحب کو ملاقات کے لیے طلب کر لیا۔ چودھری نیاز علی خان پہلے ہی علامہ کے نیاز مند تھے چنانچہ انہوں نے علامہ کی خدمت میں حاضر ہو کر منصوبے کی تفصیلات پیش کیں۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے "دار الاسلام" کے نام سے ایک ادارے کے لیے ایک بڑا قطعہ اراضی وقف کر دیا ہے جس پر کتب خانہ، دار المطالعہ اور مکانات تعمیر کیے جائیں گے۔ جتنے علما اور مصنفین وہاں رہ کر اسلامی علوم کی خدمت کے لیے اپنی زندگیاں وقف کریں گے میری زرعی جائیداد کی آمدنی ان سب کے معاش کی کفیل ہوگئی۔
علامہ اقبالؒ چودھری نیاز علی خان کے اس منصوبے سے بے حد خوش ہوئے اور انہیں"دارالاسلام" کے منصوبے میں اپنے خواب کی تعبیر نظر آئی۔ علامہ نے منصوبے کی نہ صرف سرپرستی قبول کی بلکہ اس مجوزہ علمی منصوبے کے لیے مصر سے کسی عالم دین کو بلانے کا خیال بھی ان کے دل میں آیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے الازہر یونیورسٹی کے شیخ الجامعہ مصطفی المراغیؒ کو ایک خط لکھا، خط میں لکھتے ہیں: "ہم نے ارادہ کیا ہے کہ ہم پنجاب کی ایک بستی میں ایک اہم ادارے کی بنیاد رکھیں کہ اب تک کسی اور نے ایسا ادارہ قائم نہیں کیا اور ان شاءاللہ اسے اسلامی دینی اداروں میں بہت اونچی حیثیت حاصل ہوگی۔
ہم یہ چاہتے ہیں کہ کچھ ایسے لوگوں کو جو جدید علوم سے بہرور ہوں کچھ ایسے لوگوں کے ساتھ یکجا کر دیں جنہیں دینی علوم میں مہارت حاصل ہو۔ جن میں اعلیٰ درجے کی ذہنی صلاحیت پائی جاتی ہو اور جو اپنا وقت دین اسلام کی خدمت میں لگانے کو تیار ہوں۔ ہم ان لوگوں کے لیے نئی تہذیب اور جدید تمدن کے شور و شغب سے دور ایک دارالا قامت بنا دیں جو ان کے لیے ایک اسلامی علمی مرکز کا کام دے۔ اس میں ہم ان کے لیے ایک لائبریری ترتیب دیں جس میں وہ تمام قدیم و جدید کتابیں موجود ہوں جن کی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔
مزید برآں ان کے لیے ایک کامل اور صالح گائیڈ کا تقرر کیا جائے جسے قرآن حکیم پر بصیرت تامہ حاصل ہو اور جو دنیائے جدید کے احوال و حوادث سے بھی باخبر ہوتاکہ وہ ان لوگوں کو کتاب اللہ اور سنت رسول کی روح سمجھا سکے۔ جو انہیں فلسفہ و حکمت اور اقتصادیات و سیاسیات کے شعبوں میں فکر اسلامی کی تجدید کے سلسلے میں انہیں مدد دے سکے تا کہ یہ لوگ اپنے علم اور اپنے قلم سے اسلامی تمدن کے احیا کے لیے کوشاں ہو سکیں۔
آپ جیسے فاضل شخص کے سامنے اس تجویز کی اہمیت واضح کرنے کی چنداں ضرورت نہیں چنانچہ میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ از راہ کرم ایک روشن دماغ مصری عالم کو جامع ازہر کے خرچ پر بھجوانے کا بندو بست فرمائیں تا کہ وہ اس کام میں ہمیں مدد دے سکے۔ لازم ہے کہ یہ شخص علوم شریعہ نیز تاریخ تمدن اسلامی میں کامل دستگاہ رکھتا ہو اور یہ بھی لازم ہے کہ اسے انگریزی زبان پر قدرت حاصل ہو۔ " اس طویل خط کے جواب میں شیخ الا زہر نے لکھا: "ہمارے ہاں علمائے ازہر میں کوئی ایسا شخص موجود نہیں جو انگریزی زبان پر قدرت رکھتا ہو"۔
ادارے کے بنیادی خطوط وضع کرنے اور اس کی ابتدائی تفصیلات مرتب کرنے کے لیے علامہ کی نظر مولانا مودودی پر پڑی۔ علامہ کی نظر سے مولانا مودودی کی تحریر یں گزرتی تھیں اور ان کی کتاب "الجہاد فی الاسلام" بھی علامہ نے دیکھی تھی اس لیے وہ ان کی علمیت اور فہم سے متاثر تھے۔ انہوں نے چودھری نیاز علی خاں کو مشورہ دیا کہ وہ مولانا مودودی کو حیدرآباد سے دار الاسلام بلا لیں۔
چودھری نیاز علی خان نے مولانا مودودی کو قائل کیا چنانچہ مولانا مودودی نے لاہور آ کر چودھری نیاز علی اور علامہ محمد اسد کی معیت میں علامہ اقبال سے ملاقات کی اور مجوزہ ادارے کے آئندہ منصوبوں، منہاج اور طریقہ کار کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی۔ علامہ سے ملاقات کے بعد مولانا مودودی 1938 میں حیدر آباد دکن سے پٹھان کوٹ منتقل ہو گئے۔ اس منتقلی کے کچھ ہی عرصہ بعد علامہ اقبالؒ کا انتقال ہوگیا، مولانا مودودی بھی کچھ عرصہ بعد پٹھانکوٹ سے لاہور منتقل ہو گئے اور دار الاسلام کے نام سے علامہ اور چودھری نیاز علی خان کا ایک عالمی اسلامی تحقیقی ادارے کا خواب پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔
تمہید کافی بکھر گئی، ہم موضوع کی طرف آتے ہیں۔ "دار الاسلام" کے نام سے جس ادارے کی ضرورت چودھری نیاز علی خان اور علامہ اقبالؒ نے آج سے ایک صدی قبل محسوس کی تھی وہ ضرورت آج بھی موجود ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس کے اہل افراد موجود نہیں ہیں بلکہ اصل مسئلہ وسائل اور ان کے درست استعمال کا ہے۔ چودھری نیاز علی خان اور علامہ محمد اقبالؒ نے محسوس کر لیا تھا کہ "دار الااسلام" طرز کا ادارہ جدید تہذیب و تمدن کے اثرات سے دور اور اس میں خدمات سر انجام دینے والے اہل علم کی معاشی کفالت کی صورت میں ہی بارآور ثابت ہو سکتا ہے۔
میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ ہمارے ہاں بڑی تیزی کے ساتھ "مذہبی برین ڈرین" ہو رہا ہے لیکن ہمیں اس کا احساس نہیں ہے۔ مذہب کی بقا اور شعائر دین کے تحفظ کی ذمہ داری جس قدر ایک عالم دین پر عائد ہوتی ہے آج اس سے کہیں زیادہ یہ ذمہ داری ایک مسلمان سرمایہ دار پر عائد ہو رہی ہے۔ دینی علم کے حصول اور بعد ازاں اس کام کے لیے زندگیاں وقف کرنے والے اہل علم اسباب کی حد تک معاشیات کے پابند ہیں۔ انہیں فکر معاش سے آزاد کرکے ان کی صلاحیتوں کو دینی کاموں کے لیے وقف کرنا اہل ثروت کی ذمہ داری ہے۔
آج بیسیوں ذہین، قابل اور محنتی نوجوان جو دین و دنیا کا علم رکھتے ہیں صرف معاشی مسائل کی وجہ سے غلط جگہوں پر اپنی صلاحیتیں صرف کر رہے ہیں اور یہ یعقوبؑ کے نور سے زلیخا کی آنکھوں کو روشن کرنے والی بات ہے۔ کاش کچھ اہل ثروت آگے بڑھیں اور من حیث الامہ ہمیں جن چیلنجز کا سامنا ہے ان کو رسپانڈ کرنے کے لیے علماءکی مشاورت سے دار الاسلام طرز کے ادارے بنائیں۔
ان اداروں میں علمی و تحقیقی خدمات سرانجام دینے والے اہل علم کی معاشی کفالت کی ذمہ داری لیں اور انہیں جدید تہذیب و تمدن اور فکر معاش سے آزاد ماحول فراہم کریں۔ یہ اتنا بڑا اور اہم کام ہے کہ اس سے امت کی نشاة ثانیہ کے خواب کی تکمیل نہ سہی کم از کم اس کا دھندلا سا عکس ضرور دیکھا جا سکتا ہے۔