پروجیکٹ عمران خان پچھلی ایک دہائی سے جاری ہے اور اس کے جو نتائج نکلے ہیں وہ سب کے سامنے ہیں۔ 2022 تک اس پروجیکٹ کو لانچ کرنے والے، اکثر عوام اور میڈیا اس کی ناکامی کو قبول کر چکے تھے۔ ہم جیسے عام کالم نگاروں نے تو شروع دن سے لکھا تھا کہ یہاں سے کسی قسم کی خیر برآمد نہیں ہوگی۔
2022تک ملک و قوم کا بیڑا غرق کرنے کے بعد اداروں کو سمجھ آئی تو پروجیکٹ کی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ لیا۔ اکثر صحافی اور میڈیا کے لوگ بھی کھلے عام اپنی غلطی کا اعتراف کرنے لگے کہ ہم غلط جگہ اپنی توانائیاں صرف کرتے رہے۔ اعترافات کا ایک سلسلہ تھا جو یکے بعد دیگرے مختلف اطراف سے ہوتا رہا۔ سنجیدہ طبقے کے لیے یہ بات خوش آئند تھی کہ عوام اور میڈیا کو حقیقت حال کا اندازہ ہوگیا۔ مگر صرف ایک سال کے اندر عوام اور میڈیا از سر نو اس عشق میں گرفتار ہو جائیں گے اس کا اندازہ نہیں تھا۔
عوام کے جو طبقات اس عشق میں گرفتار ہیں ان کی نفسیاتی تحلیل کی جائے تو وجوہات متعدد ہیں۔ اہل صحافت مگراتنے سطحیت پسند نکلیں گے اس کا اندازہ نہیں تھا۔ صرف ایک سال پہلے اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے والے آج دوبارہ اس عشق میں گرفتار ہو چکے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ میڈیا اور اہل صحافت کا کاروبار اسی سے وابستہ ہے۔ ایک عظیم الجثہ کالم نگار "نیوٹرل" کا روپ دھار کر باقاعدہ کمپین چلا رہے ہیں۔ بہت ساروں کی روزی روٹی اس سے وابستہ ہے کہ فین فالونگ اور سبسکرائبر اور ویور یہیں سے ملنے ہیں۔
پی ٹی آئی کو سپورٹ کرنے والوں کا موقف یہ ہے کہ یہ نوجوانوں کی جماعت ہے اور اس نے نوجوانوں کی نمائندگی کی ہے۔ یہ کس قدر سطحی اور عامیانہ بات ہے اس کامشاہدہ حالیہ ٹکٹوں کی تقسیم سے ہوتا ہے۔ اکثر ٹکٹ ہولڈر وہی ادھیڑ عمرروایتی سیاستدان ہیں یا ان کے بیٹے پوتے اوررشتہ دار۔
کوئی ایک ٹکٹ ہولڈرایسا دکھا دیں جس کی عمر، تعلیم، تجربہ، سماجی خدمات یا نیک نامی کی بنا پر اسے ٹکٹ دیا گیا ہو۔ پھر یہ جھوٹ کس بنیاد پر کہ یہ نوجوانوں کی نمائندہ جماعت ہے؟ نوجوانوں کے ساتھ پچھلے چار سال میں، جو اس جماعت نے کیا ہے اگر نوجوان طبقے میں ذرا سی سنجیدگی، شعور اور تجزیے کی صلاحیت ہوتی تووہ سب سے پہلے اس کے خلاف سب سڑکوں پر ہوتے۔
صرف محکمہ تعلیم کو دیکھ لیں 2012 سے 2018 تک مسلسل ہر سال ہزاروں ٹیچرز تعلیمی اداروں میں بھرتی ہوئے مگر 2018 سے تاحال ایک بھی بھرتی نہیں ہوئی، بلکہ 2016 سے 2018 تک جو لوگ بھرتی ہوئے تھے انہیں ابھی تک ریگولر نہیں کیا گیا۔ یہ صرف محکمہ ایجوکیشن کی بات ہے دیگر اداروں میں بھی صورتحال اس سے مختلف نہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ لاکھوں نوجوان جو جاب کے منتظر تھے اوورایج ہونے کی وجہ سے اس دوڑ سے باہر ہو گئے ہیں۔ یونیورسٹی سطح پر لیپ ٹاپ ہر سٹوڈنٹ کی مجبوری بن جاتا ہے کہ اس کے بغیر تعلیمی سفر مشکل ہو جاتا ہے۔
پچھلی حکومتوں نے آٹھ دس سال مسلسل نوجوانوں کو لیپ ٹاپ دیے مگر پی ٹی آئی کے دور میں یہ سکیم بھی بند رہی۔ تعلیمی اداروں میں ہم نصابی سرگرمیاں ہوں یا کھیلوں کا فروغ اس حوالے سے بھی شہباز شریف کی خدمات قابل تحسین تھیں مگر پچھلے ادوار میں یہ سب پس منظر میں چلا گیا۔ اگر سماجیات کا کوئی طالب علم اس موضوع پر ریسرچ کرے تو اچھے خاصے حقائق جمع کیے جا سکتے ہیں۔ سو نوجوانوں کو چاہئے کہ اندھادھند پیروی کے بجائے ان حقائق پربھی غور کر لیا کریں۔
پی ٹی آئی کی حالیہ سرگرمیاں بھی مشکوک ہوتی جا رہی ہیں، محترم خورشید ندیم نے اچھے سوالات اٹھائے ہیں کہ پی ٹی آئی کی اتنی مضبوط سیاسی حکمت عملی، فنڈنگ اور منصوبہ بندی کہاں سے ہوتی ہے یہ ایک معماہے اور تاحال کسی پر منکشف نہیں ہوا۔ مثلاً امریکہ میں دو لابنگ فرمز تو علی الاعلان لابنگ کر رہی ہیں، امریکی کانگریس میں بھی گاہے بگاہے آوازیں اٹھتی رہتی ہیں، زلمے خلیل زاد کو کس نے متحرک کر رکھا ہے؟ انسانی حقوق کی تنظیموں کو دنیا بھر میں صرف پاکستان میں ہی کیوں تشویش ہوتی ہے؟
سوشل میڈیا کے سیکڑوں پیڈ ورکر، الیکشن کمپین، ایک ایک جلسے پر خرچ ہونے والے کروڑوں روپے اور خواجہ حارث جیسے وکیلوں کی فیسیں کہاں سے ادا کی جا رہی ہیں جبکہ بظاہر اب اے ٹی ایم مشینیں بھی میسر نہیں؟ ایک منظم و مربوط سیاسی حکمت عملی کہاں سے ترتیب دی جا رہی ہے جبکہ ٹاپ میں بذات خود اور فواد چوہدری، شیخ رشید اور اسد عمر جیسے عالی دماغوں کی دماغی صلاحیت سے عوام آگاہ ہیں، تو یہ منظم و مربوط پروپیگنڈہ کہاں سے اور کون ترتیب دیتا ہے؟
رہے عوام تو عوام صرف ووٹ د ے سکتے ہیں وہ اے ٹی ایم مشینیں بن سکتے ہیں نہ ہی بیانیہ ترتیب دے سکتے ہیں۔ اس پر کسی Journalist investigative کو تحقیق کرنی چاہئے، ہو نہ ہو کچھ ایسا ضرور ہے جو پردہ اخفا میں ہے اور یہ عام ذہنوں کے بس کی بات نہیں کچھ انتہائی شاطر دماغ اس سارے پلان کو منظم کررہے ہیں۔
سنجیدہ طبقے کے لیے یہ ساری صورت حال پریشان کن ہے کہ یہ ملک دوبارہ اس بلنڈر کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھے کہ جن اداروں نے اس لاحاصل عشق کواس عروج تک پہنچایا وہی اس کے زوال کا بھی اہتمام کرتے مگر انہوں نے ملک وقوم کو آزمائش میں مبتلا کرکے چپ سادھ لی ہے۔ اب کم از کم سنجیدہ طبقے کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کودرست صورت حال سے آگاہ کریں۔
اس آگاہی کو اپنے ملک سے محبت اور اپنا فرض سمجھتے ہوئے عوام میں شعور کی آبیاری کریں۔ ممکن ہے کہ بعض احباب کو سیاست میں دلچسپی نہ ہو مگر جب حالات اس نہج پر پہنچ جائیں تو کردار ادا کرنا لازم ٹھہرتا ہے۔ جب ایک طرف سچے جھوٹے بیانیوں کی بھرمار ہو، سیکڑوں پیڈ سوشل میڈیا ورکرز ہوں اور ٹاپ مین بذات خود یوٹرن اور سراپا جھوٹ ہو تو سنجیدہ طبقے کی خاموشی جرم ٹھہرتی ہے۔ اس لیے کم از کم اپنے دائرے اور رسوخ کی حد تک سنجیدہ طبقے کی ذمہ داری ہے کہ وہ مورچہ زن ہوں اور اپنے حصے کی شمع جلائیں۔