میں نے کچھ عرصہ پہلے کسی سفرنامے میں یہ واقعہ پڑھا تھا۔ میں سفرنامہ نگار کو بھول گیا ہوں لیکن یہ واقعہ آج بھی نقش بن کر میرے ذہن پر ثبت ہے۔ یہ ان دنوں کا واقعہ ہے جب اندلس کے در و دیوار اسلامی علوم و فنون سے روشن تھے اور اندلس کی درسگاہیں دینی و عصری علوم کی آماجگاہیں تھیں۔ ایک عالم کو کسی کتاب کی تلاش تھی، کتاب نایاب تھی اورکتاب کی یہ تلاش انہیں قرطبہ لے آئی، وہ قرطبہ کے بازاروں میں گھومے لیکن انہیں اپنی مطلوبہ کتاب کہیں نہ ملی۔
آخر ایک جگہ پر کتابوں کا نیلام ہو رہا تھا، ان صاحب کو وہ کتاب وہاں نظر آ گئی، وہ خوشی سے اچھل پڑے کہ جس کتاب کے لیے سیکڑوں میل سفر طے کیا تھا آخر مل گئی۔ انہوں نے کتاب کے حصول کے لیے زیادہ سے زیادہ بولی لگانا شروع کر دی، وہ جو بھی بولی لگاتے کوئی دوسرا شخص آگے بڑھ کر ان سے زیادہ بولی لگا دیتا۔ وہ بولی میں حصہ لیتے رہے، ایک آدمی نے حد سے زیادہ بولی لگا دی، یہ پریشان ہو گئے اور آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ پکڑ کر درخواست کی "ماشاء اللہ آپ کوئی بڑے فقیہ اور صاحب علم دکھائی دیتے ہیں اگر آپ کو واقعی اس کتاب کی ضرورت ہے تو میں آپ کے حق میں دستبردار ہوتا ہوں"۔
اس اجنبی نے عالم کی بات سنی اور نرمی سے بولا "میں کوئی عالم یا فقیہ نہیں ہوں، میں نے اپنے گھر میں ایک کتب خانہ بنا رکھا ہے جو شرفاء کی علامت ہے، ایک الماری میں تھوڑی سی جگہ خالی ہے اور یہ کتاب اس میں فٹ آئے گی۔ اس کتاب کی جلد خوبصورت ہے، ٹائٹل بھی اچھا ہے اور کتابت بھی بہت عمدہ ہے اس لیے میں یہ کتاب خرید رہا ہوں۔ " اس عالم نے فوراً کہا بادام اس کو مل رہے ہیں جس کے دانت نہیں۔
کتاب دوستی ترقی یافتہ معاشروں کی علامت ہے اور کتاب کو نظر انداز کرکے کوئی سماج آگے نہیں بڑھ سکتا۔ جس طرح انسان جسمانی طور پر عمر کی حدیں طے کرتا ہے اسی طرح اس کے عقل و شعور کی حدیں بھی پروان چڑھتی ہیں۔ اگر ایک انسان کتابیں پڑھتا ہے اور مسلسل پڑھتا ہے تو وہ دوسروں کی نسبت جلد شعور کی منزلیں طے کر لیتا ہے۔ اس کی عقل پختہ ہو جاتی ہے اور اس کا شعور بالغ ہو جاتا ہے۔
ہر انسان کی کوئی نہ کوئی تفریح ہوتی ہے، ہر انسان فارغ وقت میں تفریح کا کوئی نہ کوئی ذریعہ ڈھونڈتا ہے، کوئی دوستوں کے ساتھ گپ شپ لگا کر ریلیکس ہوتا ہے، کسی کی تفریح کھیل ہے، کوئی کسی اچھے ہوٹل میں کھانے کو تفریح سمجھتا ہے، کوئی اپنے گھر والوں کے ساتھ رہ کر خوش ہوتا ہے اور کسی کی تفریح سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ ہیں لیکن سب سے بہتر تفریح یہ ہے کہ آپ اپنا فارغ وقت کتاب کے ساتھ گزاریں۔ اگر کوئی کتاب کے ساتھ رہ کر خوش ہے اور کتاب اس کے فارغ وقت کی تفریح بن گئی ہے تو شاید وہ دنیا کا خوش قسمت ترین انسان ہے۔ کتاب انسان کی شخصیت کو سنوارتی ہے، انسان کو مہذب اور باشعور بناتی ہے۔
انسان کو سوچنے اور غور کرنے کی عادت پڑتی ہے، قوت مشاہدہ بڑھتی ہے اور انسان وہ چیزیں اور احساسات بھی محسوس کرنے لگتا ہے جو عام آدمی محسوس نہیں کر سکتا۔ ہمارے پیچھے رہ جانے کے اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی ہے کہ ہم نے من حیث القوم کتاب کو نظر انداز کر دیا ہے۔ ہمارے ہاں کتاب بینی کا کتنا ذوق ہے اس کا اندازہ آپ اس سے لگائیے کہ ہمارے ہاں جو کتابیں چھپتی ہیں اس کا پہلا ایڈیشن عموماً گیارہ سو کتابوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اگر کوئی اچھی کتاب ہو تو چھ ماہ ورنہ عموماً سال تک دوسرے ایڈیشن کی نوبت ہی نہیں آتی، گویا چوبیس کروڑ عوم میں سے صرف گیارہ سو ایسے ہیں جو کتاب خریدتے ہیں اور ان گیارہ سو خریدنے والوں میں سے بھی ضروری نہیں کہ سب پڑھتے ہوں گے۔
ہمارے ہاں بیسٹ سیلر کتابوں کے ایڈیشنوں کی تعداد بھی زیادہ سے زیادہ دس بارہ تک ہوتی ہے گویا اگر کو ئی کتاب تمام ریکارڈ توڑ دے تو بھی اس کی اشاعت تیس چالیس ہزار سے زائد نہیں ہوتی۔ مغرب میں ایسی بھی کئی کتابیں شائع ہوئی ہیں جن کی اشاعت دس دس کروڑ تک گئی ہے۔ آپ مغربی ممالک کا سفر کر یں آپ کو وہاں لو گ سڑکوں، فٹ پاتھ، ایئرپورٹس، ریلوے سٹیشنز اور انتظار گاہ پر کتاب پڑھتے ہوئے دکھائی دیں گے۔ وہاں لوگ اشارے پر بھی رکیں تو کتاب نکال کے پڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہم کم از کم مغرب سے اچھی باتیں تو سیکھ سکتے ہیں۔
ہمارے ہاں ایک تو پہلے ہی کتاب بینی کا رواج نہیں اوپر سے رہی سہی کسر سوشل میڈیا اور یوٹیوب چینلز نے پوری کر دی ہے۔ ہمارے ہاں یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس کو عموماً پڑھا لکھا اور کتاب دوست سمجھا جاتا ہے لیکن افسوس کہ یہ طبقہ بھی کتاب کو وہ اہمیت نہیں دے رہا جو دینی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ یہی لوگ پڑھ لکھ کر جب آگے آتے ہیں تو وہ کارکردگی نہیں دکھا پاتے جس کی ان سے توقع اور امید کی جاتی ہے۔ آپ تھوڑی سی خالص اردو بولیں تو یہ بوکھلا جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے آنے کے بعد تو صورتحال اور بھی گمبھیر ہو چکی ہے۔ پہلے تو طلبا تھوڑا بہت وقت کتاب کو دے ہی دیا کرتے تھے لیکن اب یہ سارا وقت یو ٹیوب، فیس بک، ٹویٹر اور واٹس ایپ کی نذر ہو جاتا ہے۔
اکثر طلبا صرف نصابی کتابوں پر ہی توجہ دیتے ہیں، اگر ان سے کہا جائے کہ خارجی کتب کا بھی مطالعہ کیا کریں تو لگا بندھا جواب ملتا ہے وقت نہیں بچتا۔ بھائی وقت بچانا پڑتا ہے، اگر ایک سبجیکٹ کو آپ ساٹھ منٹ دیتے ہیں تو اگر آپ چاہیں تو وہی کام چالیس منٹ میں بھی ہو سکتا ہے۔ ہماری یونیورسٹیوں میں جو صحافت پڑھائی جا رہی ہے اس میں بھی آؤٹ لائن پر زیادہ زور دیا جاتا ہے، کتابیں پڑھنے اور پڑھانے کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے۔ صحافت کے طلبا میں سے ہر کوئی اینکر اور نیوز کاسٹر بننا چاہتا ہے، کوئی ان کو بتائے کہ آپ ٹی وی پر بیٹھ کر تب ہی کچھ بول سکیں گے جب آپ کے پاس بولنے کے لیے کچھ ہوگا۔ کتابیں آپ کو بولنا سکھائیں گی۔
پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر خالد محمود مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے سات، آٹھ اور نو مارچ کو پنجاب یونیورسٹی میں پاکستان کے سب سے بڑے کتاب میلے کا انعقاد کرکے نژاد نو کو کتاب سے جوڑنے کا اہتمام کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے نو سال سے رکی ہوئی اس خوبصورت روایت کا احیا کرکے یونیورسٹی اور کتاب دوست طبقے کی رونقیں بحال کر دی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی علم دوستی کا ایک زمانہ معترف ہے اور اس کتاب میلے نے اس اعتراف کو مزید اعتبار بخش دیا ہے۔
ڈاکٹر خالد محمود کے ساتھ پنجاب یونیورسٹی لائبریری کے چیف لائبریرین ڈاکٹر ہارون عثمانی اور ان کی ٹیم بھی مبارکباد کی مستحق ہے جنہوں نے دن رات ایک کرکے اس ایونٹ کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ میں آٹھ اور نو مارچ کو کتاب میلے میں گیا اور طلبا اور عوام الناس کی دلچسپی دیکھ کر خوش ہوتا رہا۔ لوگ فیملی سمیت کتابیں خریدنے کے لیے آ رہے تھے۔ بچوں کی خوشی دیدنی تھی۔ کتابوں کے ساتھ کھانے پینے کے سٹالز اور بچوں کی تفریح کا اہتمام بھی موجود تھا۔
انتظام و انصرام قابل تحسین تھا، طلبا اور سکیورٹی عملے نے خوش اسلوبی سے ذمہ داریاں سر انجام دیں۔ میں یونیورسٹی میں جن کلاسز کو پڑھاتا ہوں ان میں کتاب دوستی کو پروموٹ کرنے کے لیے کہہ دیا تھا کہ جو طلبا کتاب میلے میں جائیں گے اور کتابیں خریدیں گے انہیں اضافی نمبر دیے جائیں گے۔ میری ڈاکٹر صاحب سے درخواست ہے کہ سال نہیں بلکہ چھ ماہ بعد ایسے کتب میلوں کا انعقاد ضرور کرتے رہیں کیونکہ ہم من حیث القوم جن مسائل کا شکار ہیں ان سے نمٹنے کے لیے ہمیں ایسی سرگرمیوں کی ہی ضرورت ہے۔