1974 میں مرزائیوں کو دستوری سطح پر غیر مسلم قرار دیے جانے کے باوجود مرزائیوں کی طرف سے خود کو مسلمان ظاہر کر نے اور مسلمانوں کو دھوکہ دینے کا عمل جاری رہا جس کے نتیجے میں 1985 میں شریعت کورٹ اور 1993 میں سپریم کورٹ نے دو اہم فیصلے جاری کیے۔ شریعت کورٹ کے فیصلے کا خلاصہ یہ تھا کہ مرزائی اسلامی شعائر اپنا کر خود کو مسلمان ثابت کرتے اور سادہ لوح مسلمانوں کو دھوکا دیتے ہیں اس لیے یہ کھلے عام مسلمانوں کے مذہبی شعائر کو نہیں اپنا سکتے اور کسی مذہبی گروہ کو مسلمانوں کے مخصوص شعائر سے روکنا، اسلامی احکام سے متصادم نہیں ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کا خلاصہ یہ تھا کہ مرزائیوں کی دھوکہ دہی کی روش کے پیش نظر ان کو کھلے عام اسلامی شعائر اختیار کرنے سے روکنا پاکستانی دستور کے مطابق بھی بنیادی انسانی حقوق کے خلاف نہیں۔ گویا سپریم کورٹ اور شریعہ کورٹ دونوں اپنے فیصلوں میں اس بات کی توثیق کر چکے ہیں کہ مرزائیوں کوکھلے عام اسلامی شعائر اختیار کرنے سے روکنا اسلامی اور پاکستانی آئین و دستور کے مطابق درست ہے۔ دونوں فیصلوں میں جن امور کو مستدل بنایا گیا وہ یہ تھے کہ مرزائی خود کو مسلمان ثابت کرکے دھوکہ دہی کی روش سے باز نہیں آتے اور دوسرا یہ کہ جب کسی مذہبی گروہ کے اعمال و افعال سے نقص امن کا خطرہ پیدا ہو تو اس کے حقوق پر قیود لگا کر ان کی تحدید کی جا سکتی ہے۔
2022 میں سپریم کورٹ میں ایک مقدمہ دائر ہوا جس میں مرزائیوں کے اسلامی شعائر کو اپنانے (مثلاً مسجد میں قرآن کی موجودگی اور کلمہ طیبہ کا لکھا ہونا) اور اس بنیاد پر ان پر توہین قرآن اور توہین رسالت کی دفعات شامل کرنے کی استدعا کی گئی۔ جسٹس منصورعلی شاہ اور جسٹس امین الدین خان نے اس کی سماعت کی، عدالت نے ریمارکس دیے کہ شریعہ کورٹ اور سپریم کورٹ فیصلے میں مرزائیوں کو اسلامی شعائر اپنانے سے منع کرنے سے، ان کے بنیادی حقوق متاثر نہ ہونے کے جس فیصلے کو اسلامی احکام اور پاکستانی دستور کے عین مطابق قرار دیا گیا ہے، وہ صرف عوامی سطح اور کھلے مقامات پر اسلامی شعائر اپنانے سے متعلق ہے۔ اگر کوئی مرزائی اپنی عبادت گاہ کے اندر اسلامی شعائر اپناتا ہے تو اس پر اسے روکنے سے اس کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی لازم آتی ہے اور یہ اسلامی احکام اور دستور پاکستان سے متصادم ہے۔ کیونکہ اسلامی احکام اور پاکستانی دستور ہر شہری کو اپنی عبادت گاہ کے اندر اپنے مذہب پر عمل کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔
شریعہ کورٹ1985، سپریم کورٹ 1993 اور سپریم کورٹ 2022 کے فیصلوں میں ایک مشترک تضاد موجود ہے اور وہ یہ کہ مرزائی کھلے عام تو اسلامی شعائر نہیں اپنا سکتے لیکن اپنی عبادت گاہ کے اندر اسلامی شعائر اپنا سکتے ہیں۔ یعنی تینوں فیصلوں میں اس بنیادی مستدل کو تو مانا گیا کہ مرزائی دھوکہ دہی کی روش سے باز نہیں آتے اور سادہ لوح مسلمانوں کو منحرف کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس مستدل سے متفرع ہونے والے حکم کو مقید کر دیا گیا کہ سرعام دھوکہ دینے کی اجازت نہیں ہاں عبادت گاہ کے اندر دھوکہ دہی کی اجازت ہے۔
اصولی طور پر اس تضاد کو ختم ہونا چاہئے تھا اور عبادت گاہ کے اندر بھی مرزائیوں کو اسلامی شعائر اپنانے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے تھی کہ مگر عملاً ایسا نہیں ہو سکا اور ان ناقص اور ادھورے فیصلوں کو مصلحتاً عارضی و روایتی طور پر تسلیم کر لیا گیا۔ مثلاً عارضی و روایتی طور پر تسلیم کر لیا گیا کہ وہ عبادات یا اسلامی شعائر جو عبادت گاہ کے اندر ہوتے ہیں مرزائی انہیں ادا کرتے رہیں لیکن ایسی عبادات یا اسلامی شعائر جن کا تعلق عبادت گاہ کے بجائے عوامی مقامات سے ہے اس کی انہیں اجازت نہیں تھی۔ اس قانونی تشریح کے مطابق مرزائیوں کو قربانی کی اجازت نہیں تھی کیونکہ قربانی ایسا شعار تھا جس کا تعلق عبادت گاہ کے بجائے عوامی مقامات سے تھا۔
مثلاً قربانی کا جانور خریدنے کے لیے مویشی منڈیوں میں جانا، قربانی کے جانور کو گلی محلے میں باندھ کر اہل علاقہ کو اپنے مسلمان ہو نے کا یقین دلانا، کسی بڑی حویلی یا کھلے مکان میں قربانی کرکے مسلمانوں کو اپنے مسلمان ہونے کا دھوکہ دینا اور بعد از قربانی مسلم بستیوں میں قربانی کا گوشت تقسیم کرکے ان کے دلوں میں نرم گوشہ پیدا کرنا اور انہیں اپنی عبادت گاہوں میں آنے کی دعوت دینا۔ ان تمام افعال کی بنا پر قانونی تشریح اور روایت یہی تھی کہ مرزائیوں کو قربانی جیسی عبادت یا شعار اپنانے کی اجازت نہیں تھی اور مرزائی خود بھی اس قانونی تشریح اور روایت کو تسلیم کرتے چلے آ رہے تھے۔
2022 میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد مرزائیوں نے پروپیگنڈہ کرنا شروع کر دیا کہ جسٹس منصور علی شاہ کے فیصلے کے مطابق انہیں قربانی کی بھی اجازت ہے حالانکہ جسٹس منصور علی شاہ کے فیصلے میں قربانی کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ یہ فیصلہ بنیادی طور پر مرزائیوں کی عبادت گاہ کے اندر قرآن اور کلمے کی موجودگی کے حوالے سے تھا اور صرف اس حوالے سے جسٹس منصور علی شاہ نے، سابقہ مقدمات کا حوالہ دیتے ہوئے فیصلہ دیا تھا کہ مرزائیوں کو اپنی عبادت گاہ کے اندر اپنے طریقے سے عبادت یا اسلامی شعائر اپنانے کی اجازت ہے۔ اس پورے مقدمے میں قربانی کا کہیں ذکر تک نہیں تھا اس لیے قربانی کے حوالے سے قانونی تشریح اور روایت وہی تھی جو پہلے سے چلی آ رہی تھی۔
جسٹس منصور علی شاہ کے فیصلے کو بنیاد بنا کر نئی قانونی تشریح اور قربانی کے جواز کا پروپیگنڈہ کرنا مرزائیوں کے حوالے سے تو قابل فہم تھا لیکن مسلمان اہل علم و دانش قربانی کے حوالے سے سابقہ قانونی تشریح اور روایت کو رد کرکے نئی قانونی تشریح کے لیے میدان میں کیوں آ گئے یہ بات سمجھ سے بالا تھی۔ قربانی کے حوالے سے سابقہ قانونی تشریح کو رد کرنے کے لیے خلط مبحث پیدا کرتے ہوئے یہ بیانیہ گھڑا گیا کہ یہ ایسی عبادت ہے جس کا اہتمام چار دیواری کے اندر کیا جاتا ہے۔ گویا اب تک خود مرزائیوں اور مسلمانوں کو علم نہیں تھا کہ یہ عبادت چار دیواری کے اندر کی جاتی ہے اور اب 2022 کے فیصلے کے بعد مرزائیوں اور ان کے چند بہی خواہوں پر یہ حقیقت منکشف ہوئی ہے۔
صاف بات ہے کہ قربانی کو چار دیواری کے اندر کیا جانے والا عمل ڈکلیئر کیا جا سکتا ہے نہ ہی اسے نماز، تلاوت اور کلمے پر قیاس کیا جا سکتا ہے کیونکہ نماز، تلاوت اور کلمہ لازم افعال ہیں جو صرف مرتکب تک محدود رہتے ہیں لیکن قربانی ایک متعدی فعل ہے جو دوسروں تک تجاوز کرتا، اثرات چھوڑتا اور نتائج مرتب کرتا ہے۔ اصولی بات یہ ہے کہ اسلامی شعائر اپنانے کے حوالے سے مرزائیوں کے وہ تمام افعال و اعمال جن میں تعدی الی المسلم اور دھوکہ دہی کا عنصر پایا جائے مسلم کمیونٹی کو اس کے خلاف آواز اٹھانے اور مرزائیوں کو قانونی طور پر جوابدہ ہونا پڑے گا۔