ریچل کوری 10 اپریل 1979ء کو امریکی شہر ہوسٹن میں پیدا ہوئی۔ ابتدائی تعلیم واشنگٹن کے علاقے اولمپیا کے کیپٹل ہائی سکول سے حاصل کی۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے دی ایور گرین سٹیٹ کالج کا رُخ کیا اور اسی دوران انصاف اور امن کے لیے کام کرنے والی ایک عالمی تنظیم "اولمپیا موومنٹ فار جسٹس اینڈ پیس" جوائن کر لی۔ 2002 تک ریچل کوری اس تنظیم کے ساتھ کام کرتی رہی۔ جنوری 2003ء کے ابتدا میں ریچل کوری "انٹرنیشنل سولڈیریٹی موومنٹ" میں بھرتی ہوگئی۔
"انٹرنیشنل سولڈیریٹی موومنٹ" کا کام دنیا بھر سے ایسے سویلینزکو جمع کرنا تھا جو اسرائیلی جارحیت کے خلاف اور فلسطینیوں کے حق میں پُرامن احتجاج کریں۔ ریچل کوری 18 جنوری 2003ء کو اس تنظیم کی طرف سے مظاہرے میں شرکت کے لیے فلسطین کے مغربی کنارہ پہنچی۔ اس نے دو دن تک پُرامن مظاہرے کے لیے ٹریننگ حاصل کی اور ٹریننگ کے بعد مظاہروں میں شرکت کے لیے فلسطین کی سڑکوں پر نکل پڑی۔ ان دنوں فلسطین بھر میں امریکہ و اسرائیل کے خلاف مظاہرے ہو رہے تھے۔ ریچل کوری نے ان مظاہروں میں امریکی جارحیت کے خلاف نفرت کا اظہار کرتے ہوئے امریکی جھنڈا تک نذر آتش کر دیا۔
14 مارچ 2003ء کو "مڈل ایسٹ براڈ کاسٹنگ نیٹ ورک" کو انٹرویو دیتے ہوئے اس نے کہا کہ فلسطینیوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی منظم سازشیں ہو رہی ہیں۔ 15 مارچ کو ریچل کوری رفاہ کے علاقے "حی السلام" پہنچی۔ 16 مارچ 2003ء کو اسرائیلی فوجیوں نے فلسطینیوں کے ایک محلے کو گرانے کے لیے محاصرہ کر لیا۔ اسرائیلی بلڈوزر فلسطینیوں کے گھر گھرانے کے لیے آگے بڑھ رہے تھے، مقامی فلسطینی اور بین الاقوامی افراد پُر امن مظاہرے کے لیے آگے بڑھے۔ ریچل کوری ان میں سب سے آگے تھی، اس نے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسرائیلی بلڈوزروں کو روکنے کی کوشش کی اور مائیکروفون کے ذریعے بار بار انہیں آگے نہ آنے کا انتباہ کرتی رہی۔ اسرائیلی درندوں نے ریچل کی جان کی پروا کیے بغیر بلڈوز اس کے اوپر چڑھا دیا اور ریچل کوری فلسطینیوں کے حقوق کے لیے لڑتی ہوئی جاں بحق ہوگئی۔
ریچل کوری پر بعد ازاں دنیا بھر کے آزادی پسندوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بہت ساری دستاویزی فلمیں بنائیں اور اس کی قربانی اور جذبے کو سراہا گیا۔
فلسطین کے محاذ پر خواتین کا کردار ہمیشہ قابل تحسین رہا ہے۔ ریچل کوری سے شیریں ابو عاقلہ اور امیمہ تک جرأت و بہادری کی طویل داستان ہے۔ حالیہ جنگ میں جس طرح فلسطینی خواتین صبر، استقامت، جرأت اور بہادری کا مظاہرہ کر رہی ہیں وہ قابل رشک ہے۔ مائیں اپنے بیٹوں کی شہادت پر فخر کا اظہار کر رہی ہیں۔ خواتین ڈاکٹرز، نرسز اور پیرا میڈیکل سٹاف بموں اور گولیوں کی بوچھاڑ میں خدمات سر انجام دی رہی ہیں۔ آج ہمارے ہاں عورت کو صنف نازک کے تصور کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے گویا عورت کا ہمت، جرأت، بہادری، صبر، استقلال اور ثابت قدمی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ جو جتنی نزاکت اور ناز و نخرے کا اظہار کرے گی وہ اتنی
حسین سمجھی جائے گی۔
جو جتنی زیادہ نازک مزاجی، گوری رنگت اور ہلکی سی تکلیف پر ایک خاص انداز میں"آؤچ" کی آواز نکالے گی وہ قابل تعریف سمجھی جائے گی اور عورت کے اس تصور کو پروان چڑھانے میں میڈیا، ڈرامہ انڈسٹری اور تعلیمی اداروں نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ اسلامی تاریخ میں خواتین کا یہ کردار کبھی نہیں رہا۔ اسلامی تاریخ کے ہر عہد میں خواتین نے زندگی کے ہر شعبے میں نمایاں خدمات سر انجام دی ہیں۔ میدان جنگ ہو یا علم کا میدان، سماجی بہبود ہو یا ملکی انتظام و انصرام خواتین نے ہر شعبے میں نمایاں خدمات سر انجام دی ہیں۔ میں تاریخ سے مثالیں دے کر تحریر کو بوجھل نہیں کرنا چاہتا صرف ایک دو واقعات ذکر کرنا چاہتا ہوں۔
قرون وسطیٰ میں جب صلیبی جنگیں شروع ہوئیں تو خواتین نے مسجد اقصیٰ کی حفاظت کے لیے بھرپور قربانیاں دی۔ خواتین مسجد اقصیٰ میں درس کے حلقے لگا کر بیٹھ جاتی تھی، 492 ہجری میں ایک فقیہ، نیک سیرت اور داعی خاتون تھی جن کا نام شیرازیہ تھا، جب رومیوں نے بیت المقدس پر حملہ کیا تو یہ خاتون اپنے حلقہ درس کی جماعت کو لے کر مسجد اقصیٰ میں موجود گنبد صخرہ میں جم کر بیٹھ گئیں۔ رومی مسجد اقصیٰ میں داخل ہوئے تو ان خواتین نے دفاع کی پوری کوشش کی لیکن سفاک رومیوں نے مسجد اقصیٰ کے صحن کو مذبح خانہ بنا دیا۔ مقابلہ کرنے والی خواتین کی تعداد تقریباً ایک ہزار تھی اور ان سب نے مسجد اقصیٰ کی حفاظت کی خاطر جام شہادت نوش کیا۔
1921 میں بیت المقدس میں فلسطینی خواتین کی ابتدائی تنظیم تشکیل دی گئی تھی۔ 1929 میں یروشلم میں اہم اجلاس میں 3 ہزار خواتین نے شرکت کرکے اعلان بالفور کو منسوخ اور فلسطین میں صہیونیوں کی آمد کو روکنے کا مطالبہ کیا تھا۔ 1948 کی جنگ سے پہلے حیفا میں فلسطینی خواتین کی تنظیم زھرات الاقحوان وجود میں آئی تھی جس نے میڈیکل، غذا، پانی اور دیگر زندگی کی بنیادی ضروریات کے حوالے سے اہم کردار ادا کیا تھا۔ آج بھی خواتین کے کئی حلقے مسجد اقصیٰ کے دفاع میں مشغول ہیں اور انہوں نے اس کا نام مرابطات الاقصیٰ رکھا ہے۔ یہ خواتین مسجد اقصیٰ کے احاطے میں قرآن اور دنیوی علوم پڑھاتی اور قرآن کا درس دیتی ہیں۔
مرابطات الاقصیٰ کی جانب سے پورے سال کے دوران مختلف پروگرام رکھے جاتے ہیں تا کہ مسجد اقصیٰ کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔ رمضان المبارک میں افطاری کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے جس میں صہیونی حکومت کی شکست کی علامت کے طور پر برتن اور غذا کو مخصوص انداز میں رکھا جاتا ہے۔ حماس کے منشور کی دفعہ 17 کے مطابق جنگ آزادی میں مسلمان عورت کا کردار مردوں کے کردار سے کم تر نہیں۔ مرد بھی خواتین کی کوکھ سے ہی جنم لیتے ہیں۔ اس کا کردار نسلوں کی رہنمائی اور ان کی تربیت کرنا ہے اور یہ ایک بہت بڑا کردار ہے۔
آج فلسطینی خواتین اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی اور اپنے ہاتھوں سے اپنے جگر گوشوں کو دفنا رہی ہیں۔ دوسری طرف برصغیر پاک و ہند سمیت دنیا بھر کی مسلم خواتین کس جگہ کھڑی اور کیا کردار ادا کر رہی ہیں، کیا انہوں نے کبھی اس ظلم کے خلاف آواز بلندکی، دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے، فلسطینی خواتین کے لیے مالی و اخلاقی مدد کے لیے آگے بڑھیں اور اپنی ذات میں ایک مسلم عورت کی صفات پیدا کرنے کا فیصلہ کیا؟ تقدیر کا قلم سب دیکھ اور نوٹ کر رہا ہے۔