انسانی تاریخ کے بنیادی اور اہم ترین سوالات میں سے ایک سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں نظر آنے والی کائنات اور انسان کاکوئی حقیقی وجود ہے یا یہ محض تاثر اور حقیقت کا عکس ہے اور حقیقت کہیں اور موجود ہے؟ اس سوال سے جڑا اور اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ اگر ہمیں نظر آنے والی کائنات اور انسان کا وجودحقیقی ہے توکیا اس کا کوئی خالق ہے یا یہ بغیر کسی خالق کے وجود میں آئے ہیں؟
ان دونوں سے بھی اہم اور مرکزی سوال یہ ہے کہ اگرکوئی خالق ہے تو وہ کون ہے، کیا یہ خود اپنے خالق ہیں یا خالق کوئی اور ہے؟ ان تینوں سے بھی اہم سوال پھر یہ ہے کہ اگر یہ خود خالق نہیں بلکہ خالق کوئی اور ہے تو وہ کون ہے اور اس کی قدرت اورصفات کیا ہیں؟ معلوم انسانی تاریخ کے ہرعہد اور ہر ناموراہل علم، فلسفی اور متکلم نے ان سوالات کو موضوع بنایا ہے۔ یہ ایسے بنیادی سوالات ہیں جن کا جواب دیے بغیر کوئی علم، کوئی بیانیہ اور کوئی ورلڈ ویو قائم نہیں کیا جا سکتا۔
ہم سب سے پہلے اس بنیا دی سوال کو لیتے ہیں کہ کیا کائنا ت اور انسان کا وجود حقیقی ہے یا یہ محض تاثر اور حقیقت کا عکس ہیں۔ مذہب کا بیانیہ اس حوالے سے کلیئر ہے لیکن قدیم یونان سے لے کراکیسویں صدی کے علم جدید تک، بعض فلسفیوں، ملحدین اور سائنس دانوں کی طرف سے یہ بیانیہ پیش کیا جاتا رہا ہے کہ اس کائنات کا وجود حقیقی نہیں بلکہ حقیقت کا عکس ہے۔ مثلا عہد یونان میں افلاطون کا تمثیل غار کا بیانیہ بہت اہم ہے جو اس نے اپنی مشہور کتاب "ریاست" میں پیش کیا تھا۔
اس تمثیل میں افلاطون نے ایک ایسے غار کا ذکر کیا ہے جس میں کچھ لوگ پیدائش کے وقت سے قید ہیں جن کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے ہیں۔ ان کے سر بھی اس انداز سے بندھے ہیں کہ وہ مسلسل غار کی صرف اندرونی دیوار کو دیکھتے رہتے ہیں۔ ان کے پیچھے غار کے اندر ایک آگ کا الاؤ روشن ہے اور اس الاؤ کے پیچھے غار کا دہانہ ہے۔ اس آگ کے الاؤ اور ان بندھے ہوئے انسانوں کے درمیاں کچھ لوگ ہاتھوں میں کچھ اشیاء اٹھائے گزرتے ہیں اور ان کے سائے غار کی دیوار پر پڑتے ہیں جنہیں وہ قیدی اپنی پیدائش کے وقت سے دیکھ رہے ہیں۔
اپنی مخصوص ہیئت و کیفیت کی وجہ سے ان قیدیوں نے یہ بات تسلیم کرلی ہے کہ یہ سائے واحد حقیقت ہیں اور یہی واحد سچائی ہے کیونکہ انہوں نے اپنی زندگیاں محض انہی ٹمٹماتے سایوں کو دیکھتے ہوئے گزار ی ہیں۔ انہوں نے کبھی غار کے باہر موجود حقیقی زندگی نہیں دیکھی۔ پھر ایک دن ان کا ایک ساتھی کسی طرح خود کو زنجیروں سے آزاد کر لیتا ہے اور پیچھے پلٹ کر دیکھتا ہے تو آگ کے الاؤ اور ان گزرتے لوگوں کا ادراک کرلیتا ہے جن کے سائے دیوار پر وہ ساری عمر دیکھتا رہا۔ پھر وہ غار کے دہانے کی طرف بڑھتا ہے اور آخرکار غار سے باہر نکلتا ہے اور غار کے باہر موجود حقائق کا مشاہدہ کرتا ہے اور اصل سچائی کو دیکھ کر ششدر رہ جاتا ہے۔
وہ سوچتا ہے کہ اب یہ اس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے باقی ساتھیوں کو زنجیروں سے آزاد کرائے اور انہیں قائل کرے کہ وہ تمام زندگی بیوقوف بنے رہے ہیں اور اصل سچائی اور اصل جہاں تو باہر موجود ہے۔ جب وہ غار کے اندر جاتا ہے اور انہیں سچائی اور اصل جہان کے بارے قائل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو قیدی اس کا مذاق اڑاتے ہیں اور اس کا یقین کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ وہ سایوں کی جعلی حقیقت کے اس قدر عادی ہو چکے ہوتے ہیں کہ وہ بے دردی سے اصل سچائی کی تردید کرتے ہیں، اپنے اس آزاد ساتھی کو دیوانہ و مجنون قرار دیتے ہیں اور اپنی کیفیت بدلنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ اس مثال سے یونانی فلسفی یہ ثابت کرتے ہیں کہ بعینہ کائنات اور انسان کا وجود بھی حقیقی نہیں بلکہ حقیقت کا عکس ہیں لیکن ہم اپنے محدود علم اور تجربے و مشاہدے کی بناپر اس پر اس قدر پختہ یقین رکھے ہوئے ہیں کہ اسے حقیقی سمجھ رہے ہیں۔
افلاطون کے بعد بھی قرون وسطیٰ تک مختلف فلسفی یہ سوال دہراتے رہے لیکن پھر سترھویں صدی میں مشہور فرانسیسی فلسفی رینے ڈیکارٹ آیا اور اس نے فلسفیانہ انداز میں ثابت کیا کہ انسان اور کائنات کاوجود ایک حقیقت ہے۔ اس حوالے سے ڈیکارٹ کاایک جملہ بہت مشہور ہوا، اس نے کہا "میں سوچتا ہوں اس لیے میں ہوں" یعنی میرا سوچنا اس بات کی دلیل ہے کہ میرا کوئی وجود ہے کیونکہ کسی چیز کا عکس شعور اور سوچنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اسی طرح اگر میرے وجود پر کوئی زخم لگتا ہے، مجھے کوئی تکلیف پہنچتی ہے اور اسے میں محسوس کرتا ہوں تو یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ میرا کوئی وجود ہے۔
اگر میرا وجود محض تاثر یا عکس ہوتا تو تاثر یا عکس کو تکلیف محسوس نہیں ہوتی۔ کروڑوں اربوں انسان ہر روزپنی ذات سے باہر خارج میں نئے تجربات ومشاہدات کرتے ہیں اور یہ مشاہدات ثابت کرتے ہیں کہ خارج میں کائنات، انسان اور دیگر اجسام کا وجود ایک حقیقت ہے۔ لہٰذا انسانی تاریخ کے مختلف عہدوں میں گھڑا جانے والا یہ بیانیہ سترھویں صدی کے بعد آہستہ آہستہ دم توڑنا شروع ہوا۔ مذہب جو حقیقت سیکڑوں سال پہلا بتا رہا تھا اور انسانی ذہن اسے قبول کرنے پر آمادہ نہیں تھا قرون وسطیٰ کے بعد انسانی علم میں ہونے والے ارتقا اور انسانی تجربہ و مشاہدہ نے اس حقیقت کو قبول کرکے ماضی کے بیانیے کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا۔
جب کائنات اور انسان کے وجود کا حقیقی ہونا علم جدید کے نزدیک ثابت شدہ ہے تو اگلا سوال یہ ہے کہ کیا اس وجود کا کوئی خالق ہے یا یہ بغیر کسی خالق کے وجود میں آئے ہیں؟ علم جدید اور علم کی مغربی روایت اس سوال کا جواب مختلف صورتوں میں دیتے ہیں۔ مثلاً ملحدین اور علم جدید تشکیک کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم ا س بارے شک میں مبتلا ہیں، ہم نہیں جانتے کہ کوئی خالق ہے یا نہیں ہے، ہو سکتا ہے خالق ہو اور ہو سکتا ہے خالق نہ ہو۔ دوسرا جواب یہ دیتے ہیں کہ ہم نہیں جانتے کہ کوئی خالق ہے یا نہیں ہے یعنی لاادری۔ تیسرا جواب انکار کی صورت میں ہوتا ہے کہ کوئی خالق نہیں ہے۔
پہلی دونوں صورتوں میں دیے گئے جوابات ناقابل اعتبار ہیں یعنی کوئی انسان لاادری یا تشکیک کی پوزیشن میں کھڑے ہو کر کوئی بیان نہیں دے سکتا اور اگر بالفرض کوئی بیان دیتا ہے تو عقلاً وہ ناقابل اعتبار ہوتی ہے۔ تیسری صورت یعنی انکار خالق کی اسٹیٹمنٹ دی جا سکتی ہے لیکن اس پر پھر مزید سوالات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ مثلا کیا دنیا میں کوئی وجود ایسا ہے جو بغیر کسی خالق کے وجود میں آیا ہو، ایک دیو ہیکل جہاز سے لے کر ایک چھوٹی سی سوئی تک کیا از خود وجود میں آ سکتے ہیں؟ کیا علم جدید یا ملحدین کے پاس ایسے کسی وجود کی کوئی مثال ہے جو از خود وجود میں آیا ہو؟
اسی طرح اگر ہم علت و معلول کا سلسلہ دراز کرتے چلے جائیں پھر بھی آخر میں جا کر ہمیں کسی خالق کا وجود ماننا پڑے گا۔ مثلا ہم کہتے ہیں انسان مٹی اور پانی سے بنا، سوال ہوگا مٹی اور پانی کو کس نے بنایا، جواب ہوگا مٹی اور اور پانی کائنات کے وجود میں آنے سے وجود میں آئے تو سوال ہوگا کائنات کو کس نے عدم سے وجود بخشا۔۔ الخ یعنی سوالات اور علت و معلول کے اس سلسلے کو ہم جتنا مرضی دراز کرتے چلے جائیں آخر میں ہمیں بہر حال کسی خالق یا علت اولیٰ کو ماننا پڑے گا۔
انسانی عقل ایک چھوٹی سی سوئی کے وجود کو بغیر کسی خالق کے تسلیم نہیں کرسکتی تو اتنی بڑی کائنات اور اس کائنات کی سب سے ذہین ترین مخلوق کو بغیر کسی خالق کے کیسے تسلیم کر سکتی ہے؟ جب کسی خالق کاوجود ثابت شدہ ہے تو اگلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کائنات اور انسان از خو د اپنے خالق ہیں یا خالق کوئی اور ہے۔ علم جدید اور ملحدین یہ سوال اس طرح اٹھاتے ہیں کہ کائنات سے پہلے کچھ نہیں تھا اور کائنات کے وجود میں آنے کے بعد ہی سب کچھ وجود میں آیا تو ظاہر ہے کائنات از خود اپنی خالق ہے۔ کیا کائنات اور انسان از خود خالق ہو سکتے ہیں اس سوال پر مزید بات ہم اگلے کالم میں کریں گے۔