اسوالڈ شپنگلر بیسویں صدی کا نامور مؤرخ تھا، اس نے دنیا کی آٹھ تہذیبوں کا مطالعہ کیا اور اس مطالعے کے بعد "زوال مغرب" کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ یہ کتاب تہذیبوں کے مطالعے اور عروج وزوال پر ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسوالڈ شپنگلر نے بتایا دنیا کی ہر تہذیب اپنی زندگی کے مختلف ادوار سے گزرتی ہے، زندگی کے ابتدائی دور میں وہ مذہب اور آرٹ کو تخلیق کرتی ہے، جوانی اور بہار کے موسم میں وہ فیوڈل ازم اور جاگیر داری کو فروغ دیتی ہے، عمر کے تیسرے حصے میں اس پر عقلیت پرستی کا رنگ چڑھ جاتاہے اور بڑھاپے میں اس پر مادیت غالب آ جاتی ہے جو بالآخر کسی تہذیب کے خاتمے کا باعث بنتی ہے۔
اس کے بعد تہذیب اپنی تاریخ سے محروم ہو جاتی ہے جس میں لوگ تو ہوتے ہیں لیکن تہذیب دم توڑ دیتی ہے۔ قوموں کے عروج وزوال کے حوالے سے مؤرخین نے ہر دور میں تاریخ کا تجزیہ کیا ہے، ماضی قریب میں آرنلڈ ٹوائن بی اور شپنگلر اس حوالے سے کافی شہرت رکھتے ہیں۔ اس وقت ہم اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں اور یہ صدی تہذیبوں کے درمیان تصادم اور کشمکش کی صدی ہے، آج یہ کشمکش عروج پر ہے اور بہر حال اس صدی میں کچھ نیا ہو نے والا ہے۔ ہر عروج کو زوال اور ہر زوال کو عرو ج ہوتا ہے، وقت کبھی ایک جیسا نہیں رہتا۔
آج اگر ساٹھ اسلامی ممالک کے طلبا مغرب کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے جاتے اور اس پر فخر کرتے ہیں تو ماضی میں مغرب اور یورپ کے سٹوڈنٹس پڑھنے کے لیے دمشق، بغداد، بلخ اور بخارا کی جامعات میں آیا کرتے تھے۔ آج اگر ڈیڑھ ارب مسلمان انگریزی سیکھنے پر مجبور ہیں یا فخر کرتے ہیں تو ماضی میں اہل مغرب اس دور سے گزر چکے ہیں جب انہیں مسلم سائنسدانوں اور ماہرین کی کتابوں کو سمجھنے اور مسلم جامعات میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے عربی لازمی سیکھنا پڑتی تھی۔
آج اگر روسو، کارل مارکس، اینگلز، آئن سٹائن، نیوٹن اور ایڈیسن ہماری جامعات کے نصاب میں شامل ہیں تو ماضی میں بو علی سینا، الکندی، ابوالقاسم زہراوی، البیرونی اور ابن الہیشم بھی سترھویں اور اٹھارھویں صدی تک مغرب اور یورپ کی یونیورسٹیوں میں پڑھے اور پڑھائے جاتے رہے ہیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ جتنے بھی جدید علوم و فنون آج مغرب میں پڑھائے جا رہے ہیں ان کے موجد اور اصل وارث مسلمان ہی تھے۔ اسے قدرت کا قانون کہیں یا ہماری اجتماعی غفلت کہ ہم اپنے آبا کے اس ورثے کو سنبھال نہ سکے اور ترقی کی گاڑی ہم سے چھوٹ گئی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے حالات کا تجزیہ کریں اور اپنے لیے کوئی لائحہ عمل ترتیب دیں۔
انیسویں اور بیسویں صدی مغربی تہذیب کے عروج کا زمانہ ہے تھا اوران دو صدیوں میں مغربی تہذیب نے سائنسی ترقی کے ساتھ ادب اور آرٹ بھی تخلیق کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ ان دو صدیوں میں جتنا بھی ادب تخلیق ہوا اور کتابیں چھپی وہ سب مغربی مصنفین کی تھیں لیکن شاید اکیسویں صدی میں مغربی تہذیب وہ کچھ تخلیق نہیں کر پا رہی جو اس نے مسلسل پچھلی دو صدیوں میں کیا تھااور شاید یہ مغربی تہذیب کے زوال کی پہلی نشانی ہے۔
عقلیت پرستی مغربی تہذیب کے زوال کی دوسری نشانی ہے، جب کو ئی تہذیب عقلیت پرستی کی راہ پر چل پڑتی ہے تو اس کے زوال میں بہت کم فاصلہ رہ جاتا ہے۔ کسی بھی تہذیب کی بقا اور دوام میں مذہب کا کردار بنیادی اور اساسی ہوتا ہے لیکن عقلیت پرستی اور مذہب کا آپس میں خدا واسطے کا بیر ہے۔ مذہب میں عقلیت پرستی کی گنجائش نہیں اور جہاں عقلیت پرستی نے قدم جمائے وہاں مذہب دبے پاؤں رخصت ہو جاتا ہے۔
اسلامی تہذیب پسماندہ ہونے کے باوجود اس حوالے سے خوش قسمت ہے کہ اس میں ابھی تک مذہب کو عقلیت پرستی پر فوقیت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی تہذیب آج بھی اپنی ٹھوس بنیادوں پر قائم ہے۔ عقلیت پرستی کو پوجنے والے یہ نہیں جانتے کہ مذہب اور وحی کے سامنے انسانی عقل کی بساط ہی کیا ہے۔ ایک سادہ سااصول ہے کہ جو قومیں، تہذیبیں اور افراد مقابلے کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں انہیں آگے بڑھنے کے لیے پہلے سے زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے، انہیں خود کو زندہ رکھنے کے لیے دن رات ایک کرنا پڑتا ہے اور آج ہمیں اسی رویے کی ضرورت ہے۔