Sunday, 24 November 2024
  1. Home/
  2. Muhammad Izhar Ul Haq/
  3. Is Soday Mein Kya Nuksan Hai?

Is Soday Mein Kya Nuksan Hai?

مسلم لیگ نون کے ایک سرکردہ لیڈر نے تجویز کیا ہے کہ عمران خان استعفیٰ دے دیں۔ ۔ یہ تجویز کسی ان پڑھ سیاست دان نے نہیں بلکہ پارٹی کے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ ممبر نے پیش کی ہے، عمران خان صاحب فرشتہ نہیں، انسان ہیں۔ غلطیوں پر غلطیاں کیے جا رہے ہیں مگر مسلم لیگ نون کا المیہ دوسرا ہے۔

روز اول سے مسلم لیگ نون نے تحریک انصاف کے حوالے سے رویہ متکبرانہ رکھا۔ کبھی کہا کہ وزیر اعظم کی شیروانی کا بٹن تک نہیں ملے گا، کبھی عمران خان کے بیٹوں کے لندن میں رہائشی محلے کے نام کا مذاق اڑایا۔ اب یہ جو استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے تو یہ بھی تکبر ہی کی ایک قسم ہے! ایک طرف کہتے ہیں ووٹ کو عزت دو! دوسری طرف استعفیٰ کا مطالبہ !! عمران خان بھی آخر اسی الیکشن سے کامیاب ہو کر آئے ہیں جس سے شہباز شریف اور مسلم لیگ نون کے دیگر زعما پارلیمنٹ میں تشریف لائے ہیں!!

موقف مسلم لیگ نون کا یہ ہے کہ معیشت تباہ حال ہو گئی ہے۔ اگر ایسا ہے اور آپ سمجھتے ہیں کہ اس کی ساری ذمہ داری تحریک انصاف کی حکومت پر ہے تو آپ کو تو خوش ہو کر، تحریک انصاف کو مزید وقت دینا چاہیے تاکہ عوام پوری طرح مایوس ہوں! پھر آپ الیکشن میں مقابلہ کریں! اونٹ کے نچلے ہونٹ کے گرنے کا مسلم لیگ نون کب تک انتظار کرے گی؟ کسی بھی منتخب حکومت کو اپنی مدت پورا کرنے کا مکمل جمہوری، قانونی اور اخلاقی حق حاصل ہے! جمال احسانی مرحوم یہ واقعہ بطور لطیفہ سنایا کرتے تھے کہ ایک صاحب جو اپنے آپ کو مغل شاہی خاندان کا چشم و چراغ بتاتے تھے اور لال قلعہ دہلی سے لے کر شالا مار باغ لاہور تک، تمام مغل عمارتوں پر اپنا موروثی حق جتاتے تھے، شاعری کا شوق بھی فرماتے تھے۔ ایک دن اپنی شاعری سنانے کے لئے جوش صاحب کے ہاں تشریف لے آئے۔ اب جوالٹی سیدھی، بے ہنگم، بے وزن شاعری سنائی تو جوش صاحب کیسے برداشت کرتے؟ انہوں نے ملازم کو حکم دیا کہ اس شخص کو چلتا کرو! وہ صاحب جاتے جاتے یہ کہہ رہے تھے کہ جوش صاحب! غنڈہ گردی نہیں چلے گی ! مقابلہ کرنا ہے تو شاعری میں کیجیے! مسلم لیگ نون کو ہم یہی مشورہ دیں گے کہ استعفیٰ استعفیٰ نہ کھیلیں! تحریک انصاف کا مقابلہ انتخابات میں کریں! وقت سے پہلے جس پارٹی کی حکومت بھی، بزور یا بہ زر ختم کی جائے گی خواہ وہ پیپلز پارٹی کی حکومت ہو یا مسلم لیگ کی یا تحریک انصاف کی، تو پارٹی کو شہید بننے کا فائدہ حاصل ہو گا! خون آلود قمیص کا پرچم دکھا کر، وہ پارٹی پہلے سے زیادہ ووٹ لے کر، دوبارہ حکومت بنائے گی!

اس سے بہتر، زیادہ قانونی طریقہ مسلم لیگ نون کے لئے یہ ہے کہ استعفیٰ کا مطالبہ کرنے کے بجائے اگر وزیر اعظم یا حکومت وقت کے خلاف ان کے پاس مضبوط مواد موجود ہے تو عدالت میں جائیں، نااہل قرار دلوا کر بدلہ لیں اوریوں اپنا کلیجہ ٹھنڈا کریں! بھلا آپ کے مطالبے پر استعفیٰ کون دے گا!

یہ تو ایک ضمنی مسئلہ تھا۔ اصل مسئلہ جو اہل سیاست کو درپیش ہے، مولانا کا مجوزہ آزادی مارچ ہے! پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون دونوں کو معلوم ہے کہ یہ ایک خطرناک کھیل ہے۔ اس سے بچنا بھی چاہتے ہیں مگر عمران دشمنی اکساتی ہے تو ساتھ دینے کو بھی تیار ہو جاتے ہیں۔ مُزبذَ بین بین ذالک لا الیٰ ہو لا ٔ و لا الیٰ ہولا!پورے اس طرف نہ پورے اس طرف! مولانا کے حوالے سے دونوں پارٹیاں خوب اچھی طرح جانتی ہیں کہ ؎

حسینوں سے فقط صاحب سلامت دور کی اچھی

نہ ان کی دوستی اچھی نہ ان کی دشمنی اچھی

مولانا کی ذہانت ضرب المثل ہے۔ وہ ایسی جگہ جا کر مارتے ہیں جہاں پانی بھی نہ ملے! اب تو وہ اپنے خلف الرشید کو بھی میدان میں اتار چکے۔ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات! سعدی نے کسی ایسے ہی نوخیز کے لئے کہا تھا ؎

بالائی سرش ز ہوش مندی

می تافت ستارۂ بلندی

سر کے اوپر عقل مند ہونے کی بنا پر عروج کا ستارہ دمک رہا ہے!مولانا کے زیر اثر لاکھوں نہیں تو ہزاروں مدارس ضرور ہیں۔ ان ہزاروں مدارس کے طلبہ کو جمع کیا جائے تو تعداد لاکھوں میں ہو گی! اگر مولانا ان مدارس کے مالکان کو حکم دیں گے تو وہ ان طلبہ کو "آزادی مارچ" تشکیل دینے کے لئے بھیج دیں گے۔ ان طلبہ اور ان کے مدارس کو آزادی مارچ کا نام تحفظ ناموس رسالت اور تحفظ ختم نبوت بتایا جا رہا ہے۔ ان رسیدوں کی عکسی نقول سوشل میڈیا پر عام گردش کر رہی ہیں جو اس مقصد کے لئے چندہ جمع کر کے جاری کی جا رہی ہیں۔ یعنی مولانا کی جدوجہد کے کئی چہرے ہیں۔ ایک چہرہ مدارس کے لئے ہے۔ اس چہرے پر تحفظ ناموس رسالت کا ماسک چڑھا ہوا ہے دوسرا چہرہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی طرف ہے۔ اس پر حکومت کی تبدیلی کا ماسک ہے۔ تیسرا چہرہ عوام کے لئے ہے اس پر جمہوریت نظر آ رہی ہے گویا ؎

مرے لاشے کے ٹکڑے دفن کرنا سو مزاروں میں

بنے گا کوئی تو تیغ ستم کی یادگاروں میں

یہ تھری ان ون کا کھیل ہے اور حد سے زیادہ پُرخطر! ہم سب جانتے ہیں کہ یہ ایک مسلکی جماعت ہے اس کے ساتھ وابستہ مدارس بھی ایک مخصوص مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگر مدارس کے طلبہ کو مارچ اور دھرنوں میں دھکیلنے کی رسم ایک بار پڑ گئی تو یہ ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہو گا! اس ملک کی ایک بدقسمتی یہ بھی ہے کہ مدارس اور مساجد مسلکوں میں تقسیم ہیں۔ کل کو جماعت اسلامی بھی اپنے مدارس کے طلبہ کو دھرنوں اور گھیرائو تحریکوں کا ایندھن بنانے کے لئے باہر نکال لائے گی۔ تبلیغی جماعت کے اپنے مدارس ہیں۔ شیعہ حضرات کے الگ ہیں۔ بریلوی اور اہل حدیث مسالک کے مدرسے اس کے علاوہ ہیں! کل کو یہ سب حضرات اپنے اپنے مطالبات منوانے کے لئے اپنے اپنے مدارس سے طلبہ کو لے آئیں گے! یہ نئی ریت خطرناک ہو گی!

اب اگر یہ مسئلہ ناموس رسالت کا ہے تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ مولانا کے زیر اثر مدارس کے علاوہ کیا باقی مدارس ناموس رسالت کے پروانے نہیں؟ اگر خدانخواستہ ناموس رسالت کو کوئی خطرہ درپیش ہے تو صرف ایک مخصوص مسلک کو یہ خطرہ کیوں دکھائی دے رہا ہے؟ ناموس رسالت پر تو شیعہ، بریلوی، دیو بندی، اہل حدیث سب جان قربان کرنے کو تیار ہیں! اگر واقعتاً ناموس رسالت کو خطرہ درپیش ہوتا تو ملک میں اس وقت قیامت برپا ہوتی!

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون دونوں کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ کیا وہ مولانا کے مذہبی(بلکہ مسلکی) کارڈ کا شکار ہونے کے لئے تیار ہیں؟ انہیں مولانا سے یہ وضاحت مانگنی چاہیے کہ مارچ آزادی کے لئے ہے تو کس استعمال کس غلامی سے آزادی کے لئے؟ ناموس رسالت کو خطرہ ہے یا ختم نبوت خطرے میں ہے تو یہ خطرہ مولانا کے علاوہ دوسروں کو کیوں نہیں نظر آ رہا؟ دونوں جماعتوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ سیاست کریں تو عوام کو درپیش مسائل کے حوالے سے سیاست کریں۔ خدارا مذہب اور مسالک کا کھیل نہ کھیلیں!

ویسے اگر تحریک انصاف کی حکومت ہائوسنگ اور تعمیرات کی وزارت حضرت کی خدمت میں پیش کر دے اور اس کے عوض آں جناب حکومت کے استحکام کی دعا فرما دیں تو اس سودے میں کیا نقصان ہے؟

About Muhammad Izhar Ul Haq

Muhammad Izhar ul Haq, is a columnist and a renowned poet of Urdu language, in Pakistan. He has received international recognition for his contribution to Urdu literature, and has been awarded Pakistan’s highest civil award Pride of performance in 2008. He has published four books of Urdu poetry and writes weekly column in Daily Dunya.

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran