یہ بنانا ری پبلک ہے، ٹھہرئیے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہاں کیلے ہی کیلے ہیں بلکہ اس کا مطلب ایک ایسی ریاست ہے جس میں آئین اور قانون کی حکمرانی نہیں، سیاسی اور معاشی استحکام نہیں۔ اگر آپ کو اس سے سمجھ نہیں آتی تو میں آپ کو ایک بنانا ری پبلک دکھانے لئے چلتا ہوں جہاں کچھ برس پہلے ایک تنظیم کچھ مطالبات کے ساتھ سڑکیں بند کر دیتی ہے اور حکومت اس قابل بھی نہیں ہوتی کہ اس سے اہم ترین چوک کھلوا سکے۔ حکومت احتجاج کرنے والوں کو ہٹانا چاہتی ہے مگر سرکاری ادارے انہیں اپنے لوگ قرار دیتے ہیں اور پھر کچھ عرصے کے بعد یہی لوگ دوبارہ سڑکیں بند کر دیتے ہیں۔ اس مرتبہ ان کو ہٹانے کے لئے ان کے ساتھ ایک معاہدہ ہوتا ہے جس میں وعدہ کیا جاتا ہے کہ بیس اپریل تک ریاستی نظرئیے اور عقیدے کی توہین کرنے والے ملک کے سفیر کو نکال دیا جائے گا۔
اگرو ہ ملک بنانا ری پبلک نہ ہوتا تو حکومت اپنے کئے ہوئے وعدے پر عمل کرتی مگر اس وعدے کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا جاتا ہے کیونکہ بنانا ری پبلک کے چیف ایگزیکٹو کی نظر میں یوٹرن عظیم لیڈر ہونے کی نشانی ہے۔ حکومتی لوگ کہتے ہیں کہ ان کے اس تنظیم کے ساتھ مذاکرات جاری تھے مگر وہ اس کے ساتھ ساتھ بیس اپریل کو دارالحکومت میں دھرنا دینے کی تیاریاں بھی کر رہی تھی یعنی وہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ بات چیت کررہے تھے اور اسی دوران ڈیڈ لائن سے بھی بہت دن پہلے اس تنظیم کے سربراہ کو گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ اب اگر یہ بنانا ری پبلک نہ ہوتی تو حکومت کبھی اس تنظیم کے سربراہ کو گرفتار نہ کرتی جس نے اس وقت تک قانون کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی، جو ملک کے سب سے بڑے صوبے میں تیسرے نمبر پر ووٹ لینے والی پارٹی ہے اور جس کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں اور اگر یہ بنانا ری پبلک نہ ہوتی تو حکومتی سطح پر اس گرفتاری سے پہلے سوچا جاتا کہ اس کے نتائج کیا نکلیں گے کیونکہ وہ تنظیم اس سے پہلے شاہراہیں بند کرنے کی غیر معمولی شہرت اور مہارت رکھتی ہے۔ جب گرفتاری ہوتی ہے تو بنانا ری پبلک کی وہی صورت سامنے آتی ہے کہ ملک بھر میں اہم سڑکیں جام ہوجاتی ہیں، لوگ سڑکوں پر پھنس جاتے ہیں او ر حکومت اور سڑکیں بند کرنے والوں کو بددعائیں دیتے ہیں۔
اب اگر یہ بنانا ری پبلک نہ ہوتی تو سیاسی حکومت سیاسی وعدہ خلافی کے معاملے کو سیاسی طریقے سے حل کرتی۔ سڑکیں بند ہونے کے بعد اس بنانا ری پبلک میں تصادم شروع ہوجاتے ہیں اور حکومت پولیس کو فری ہینڈ دے دیتی ہے کہ لاٹھی چارج، شیلنگ، فائرنگ اور گرفتاریوں سمیت جو چاہے کرے۔ بنانا ری پبلک میں میڈیا پرحقائق سامنے لانے پر پابندی لگا دی جاتی ہے جس کے نتیجے میں سوشل میڈیا پرافواہوں اور پروپیگنڈے کا طوفان برپا ہوجاتا ہے۔ ایسی ویڈیوز شئیر کی جاتی ہیں جن میں قتل وغارت ہوتی ہے مگر ذمے دار میڈیا تصدیق یا تردید نہیں کرسکتا۔ یہ بنانا ری پبلک ہی ہوسکتی ہے جہاں پولیس، سڑکیں بند کرنے والوں کو مارتی ہے اور سڑکیں بند کرنے والے پولیس کو۔ ایک طرف سے ویڈیو آتی ہے پھر دوسری طرف سے ویڈیو آتی ہے۔
جب خرابی انتہا پر پہنچ جاتی ہے تو بنانا ری پبلک میں بغیر کسی مشاورت کے اس تنطیم پر پابندی لگا دیتی ہے حالانکہ ایسے فیصلے بہت سوچ و بچار کے بعد ہوتے ہیں۔ پھر یوں ہوتا ہے کہ ایک طرف کالعدم قرار دینے کو نوٹیفیکیشن ہوتا ہے تو دوسری طرف وفاقی حکومت کی سطح پر اس سے مذاکرات شروع کر دئیے جاتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر تنظیم کالعدم ہے تو اس کی مجلس شوریٰ سے مذاکرات کیوں اور اگر مذاکرات ہیں جو وہ کالعدم کیسے ہے۔ ایسے میں مذاکرات کا پہلا راونڈ ناکام ہوتا ہے تو بنانا ری پبلک کا چیف ایگزیکٹو ٹی وی پر نمودار ہوتا ہے اور اس تنظیم کے موقف اور مطالبات کے خلاف ایک دھواں دار تقریر کرتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ تنظیم کا راستہ غلط اور اس کا راستہ درست ہے۔ ابھی وہ یہ بڑی بڑی باتیں کر کے سوتا ہی ہے کہ اس بنانا ری پبلک کے حکومتی لوگ کالعدم تنظیم سے مذاکرات شروع کرتے اور ایک ویڈیو میسج میں ان کی کامیابی کا بھی اعلان کر دیتے ہیں۔ ملک کا چیف ایگزیکٹوجب سو کر اٹھتا ہے تو اپنے گذشتہ روز کہے ہوئے الفاظ کی پرواہ کئے بغیر معاملات طے کرنے پر مبارکباد دیتا ہے ااور بتایا جاتا ہے کہ اس بنانا ری پبلک کی قومی اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کر کے سب اچھا کا نعرہ لگایاجارہا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ لوگ جو کالعدم تنظیم کے تھے یا پولیس کے تھے اور دعویٰ ہے کہ بے دردی سے مار دئیے گئے توکیا وہ بنانا ری پبلک میں اس موت مارے گئے جس کا کوئی حساب کتاب ہی نہیں اور مک مکا کے بعد کوئی سزا نہیں پائے گا۔ اطلاع آتی ہے کہ اس تنظیم کے سربراہ کو بھی اس معاہدے کی روشنی میں رہا کیا جا رہا ہے یعنی بنانا ری پبلک میں یہ تسلیم کر لیا جاتا ہے کہ گرفتاریاں اور رہائیاں کسی آئین اور قانون کے تحت نہیں بلکہ حکمرانوں کی مرضی اور منشا پر ہوتی ہیں چاہے ایف آئی آرزقتل اور دہشت گردی کی ہی کیوں نہ ہوں۔
ملک کے سب سے بڑے ادارے میں مشاورت کا فقدان، یہ بھی بنانا ری پبلک میں ہی ہوتا ہے۔ ایک معاملہ جس پر پوری قوم متحد و متفق ہے اس پرقرارداد لانے کے لئے بھی آپس میں بات تک کرنے کی زحمت تک نہیں کی جاتی او ربات یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ ملک کا سابق وزیراعظم، سپیکر کی کرسی کے سامنے جا کے کہتا ہے کہ میں تمہیں جوتااتار کے ماروں گا۔ بنانا ری پبلک میں نئی صورتحال یہ بنتی ہے کہ وعدہ سفیر کوقومی اسمبلی کے ذریعے نکالنے کا ہوتا ہے اور ایوان میں حکومت ایک آزاد رکن سے قرارداد پیش کروا دیتی ہے کہ اس قرارداد کو پیش کرنے پر بحث کی جائے یعنی ایک اور یوٹرن لے لیا جاتا ہے۔ یہ بنانا ری پبلک نظریاتی ہونے کے دعوے کرتی ہے مگر جس کا کلمہ پڑھتی ہے اسی کی توہین کرنے والے ملک کے سفیر کوملک سے نکالنے کی جرات نہیں رکھتی حالانکہ آزاد، خودمختاراور غیرت مند ملک چھوٹی چھوٹی باتوں پر دوسرے ملکوں کے سفیر کوپرسانا نان گراٹا، قرار دے دیتے ہیں۔ دوسرے ملک کے سفیر کو نہ نکالنے کے لئے معاشی مجبوریاں پیش کی جاتی ہیں جس سے اس ملک کے بنانا ری پبلک ہونے کے تصور پر مہر تصدیق ثبت ہوجاتی ہے۔ یہ بنانا ری پبلک اس سے پہلے بھی اپنی ہی نصف سے زائد آبادی سے لڑ کر اس سے آزادی حاصل کر چکی ہے اور اب بھی اس کا چیف ایگزیکٹو اپنے ہی شہریوں اور ووٹروں کے شدید مجروع جذبات کے مقابلے میں توہین کرنے والے ملک کے سفیر کا وکیل ہے۔ بنانا ری پبلک کا دلچسپ کھیل ابھی جاری ہے اور تماشائیوں کی بھرپور دلچسپی لئے ہوئے ہے۔