محمودخا ن اچکزئی، مینار پاکستان پر پی ڈی ایم کے جلسے کے سٹیج پر موجود تھا جب اس نے وہی حرکت کی جو اس نے کراچی میں اردو کے ساتھ کی، یہ درست ہے کہ حکومتی وزیرمشیر بھی اس پر تاولے ہو رہے ہیں مگر ریکارڈ کی بات ہے کہ اس کی بنیاد پنجاب کی محبت نہیں بلکہ پی ڈی ایم کی دشمنی ہے ورنہ پی ٹی آئی تو خود پنجاب کو قتل کرنے نکلی ہے، وہ پنجاب جو پاکستان کے قیام کے عظیم خواب میں اپنا وجود پہلے ہی کٹوا چکا ہے۔ اچکزئی نے تعلیم اور تہذیب دونوں سے عاری ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے لاہور میں کھڑے ہو کر لاہوریوں پراپنے کسی افغان وطن پر قبضے کے لئے انگریزوں کا ساتھ دینے کا الزام لگایا، آئین سازی میں تاخیر کی ذمے داری عائد کی اور خودآزادی اور حریت کا مجاہد بن بیٹھا اور یہ بھول گیا کہ اس کے افغان وطن، پر اس وقت بھی بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کے ایجنٹ دھڑلے سے حکمرانی کر رہے ہیں۔
میں پہلے تہذیب کی بات کروں گا اور کہوں گاکہ تمام پختو ن تہذیب اورمروت سے عاری نہیں ہوتے۔ وہ تو اس دشمن کا بھی لحاظ رکھتے ہیں جو ان کے گھر مہمان ہو یا وہ جس کے گھر خودمہمان ہوں۔ کسی کے گھر میں بیٹھ کے اسے گالی دینا کسی پختون کا وطیرہ نہیں ہوسکتا جب تک وہ پاگل نہ ہوچکا ہو۔ مجھے یہاں پی ٹی آئی، بالخصوص مسلم لیگ نون کی قیادت سے بھی شکوہ کرنا ہے جومنہ پر ٹیپ لگائے بیٹھی رہی۔ مریم نوازاس وقت بھی نہیں بولیں جب جاتی امرا میں اچکزئی نے اپنی تردید کی تردید کی اور الزام دہرایا۔ اگرنواز لیگ والے اپنی دھرتی ماں کو گالی دلوا کر اپنی سیاست کامیاب کرنا چاہتے ہیں تویہ ان کی چوائس ہے ورنہ اپنی ماں کے بارے ہرزہ سرائی کون سنتا ہے۔ اچکزئی نے کہا، ہندو سکھ اور دوسر ے رہنے والوں کے ساتھ لاہوریوں نے بھی ساتھ دیا انگریز کا، آپ سب نے مل کر افغان وطن پرقبضہ کرنے کے لئے انگریزوں کا ساتھ دیا، بس اتناکافی ہے،۔ جامعہ پنجاب شعبہ تاریخ کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر محبوب حسین کہتے ہیں، اس الزام کی تصدیق کے لئے ایسا کوئی ایک مخصوص واقعہ بھی تاریخ میں موجود نہیں ہے، ، یعنی یہ صر ف پروپیگنڈہ ہے، الزام ہے جس کی بنیاد پر سود خور ہوں یا رائلٹی خور، وہ پختونخوا میں ہوں یا بلوچستان میں، اپنے عوام پر کاٹھی ڈالے رکھنے کے لئے پنجاب کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔
محمو د خان اچکزئی نے جہالت کی انتہاکی کہ ایک سویپنگ سٹیٹمنٹ دی، یہ درست ہے کہ اچھے برے ہر قوم میں ہوتے ہیں مگر افسوس یہ ہے کہ پنجاب کی صدیوں کی مزاحمت کو تاریخ اور پروپیگنڈے میں جگہ نہیں ملتی۔ اچکزئی اپنے جس افغان وطن کی بات کرتا ہے وہاں آج بھی غداروں ( اور امریکا کے یاروں ) کی بہتات ہے جبکہ دوسری طرف اسی افغان وطن کو آزاد کروانے کے لئے میں نے پنجاب کے نوجوانوں کو اپنی جانوں کی قربانیاں دیتے ہوئے دیکھا ہے۔ یہ برسوں پرانی بات ہے جب ہم نے طالبان کے دورمیں اسامہ بن لادن کے ایک انٹرویو کے سلسلے میں افغانستان کا دورہ کیا تھا۔ میں صوبہ کنُر کے اس کیمپ سے فجر کے بعد باہر نکل گیا تھا جہاں ہمیں طالبان کی طرف سے ٹھہرایا گیا تھا۔ میں نے چھوٹی بڑی پہاڑیوں میں جگہ جگہ نوجوانوں کے گروہوں کو جنگی مشقیں کرتے ہوئے دیکھا اور وہ تمام کے تمام پنجابی تھے۔ پنجابیوں کا حال تو خنجر کسی کے دل پر چلے تڑپتے ہیں ہم میر، سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے، والا ہے۔
اچکزئی اگر رنجیت سنگھ کے ذکر پر ہائی پرٹینشن کا شکار ہوتا ہے تو اسے رائے عبدالرشید بھٹی یعنی دُلا بھٹی کے بارے بتاو جس کے دادا ساندل بھٹی کے علاوہ والد فرید بھٹی کو بھی اکبر بادشاہ نے مزاحمت پر پھانسی دی تھی اوراس کی کھال میں بھس بھر کر لاہور میں لٹکا دیا تھا۔ دُلا بھٹی پنجاب کا رابن ہُڈ کہلاتا ہے جس نے مغلوں کے خلاف بغاوت کی تھی۔ اسے رائے احمد کھرل کے بارے بتاو جو برطانوی راج کے خلاف گوگیرہ بغاوت کاسالار تھا۔ اسے بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں شیو راج گرو اور سکھ دیو کے بارے بتاو، بھگت سنگھ نے تئیس برس عمر میں پھانسی کے پھندے کو چوم لیا تھا۔ اچکزئی کو بتاوکہ جلیانوالہ باغ کا سانحہ1919 میں پنجاب میں ہی برپا ہوا تھا اور جس جنرل ڈائر نے ایک ہزار پنجابیوں کو شہید کر دیا تھا اور پھر ادُھم سنگھ نے اسی جنرل مائیکل ڈائر کو لندن میں قتل کردیا تھا اوراپنانام رام محمد سنگھ آزاد رکھ لیا تھا۔ اچکزئی سے پوچھو کہ پانی پت کہاں واقع ہے جس کے میدان میں جنگوں کا ذکر تاریخ میں عام ہے۔ یہ پنجاب ہی تھا جس نے سکندر اعظم کونتھ ڈالی تھی جب وہ علاقو ں پر علاقے فتح کرتا ہوا چلا آ رہا تھا۔
اچکزئی نے اگر مینارپاکستان پر کھڑے ہو کر ایک پنڈورا باکس کھول ہی دیا ہے تو پھر اس سے سوال پوچھا جانا چاہئے کہ افغانستان تو سنگلاخ چٹانوں کی سرزمین ہے اور وہ کبھی انگریزوں کامطمح نظر نہیں رہا مگر برصغیر پر بھی زیادہ ترحملے افغانستان سے آنے والوں نے کئے جیسے نادر شاہ درانی نے لاہور اور دلی فتح کیا، بیس ہزار کو جان سے مار دیا، دس دس برس کی بچیاں تک ریپ کر دی گئیں، جگہ جگہ لوٹ مار کی اور تخت طاوس اور کوہ نور ہیرا تک نہ چھوڑا۔ کیا پنجاب پر انگریزوں کے ساتھ جانے کا الزام لگانے والے اس سے پہلے کی تاریخ بتائیں گے۔ پنجاب کو مجبور نہ کیا جائے کہ وہ مذہب کی بنیادپر لکھے گئے مطالعہ پاکستان سے باہر نکلے اور سوال پوچھے کہ احمد شاہ ابدالی اور محمود غزنوی کے حملوں میں مذہب کے علاوہ کون سے عناصر شامل تھے، ایک نو باراور دوسرا سترہ بار یہاں کیا کرنے آیا تھا۔ اچکزئی اور اس جیسے دوسرے لوگوں کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ اقتدارمیں ہوں تو محب وطن اور وفاق پرست ہوتے ہیں اور جب اقتدار میں نہ ہوں توحریت پسند اور قوم پرست بن جاتے ہیں اور پھر سمندرکی لہروں سے بھی پیسہ اور رائلٹی کشید کرلیتے ہیں۔ چھوٹے صوبوں سے پنجاب کی زیادتی کابیانیہ ون یونٹ کے دوران تراشا گیا اور پھر اس پر کالاباغ ڈیم جیسے ایشوز کے ذریعے تیل چھڑکا گیا۔ ملک کو بجلی کی پیداوار اور پانی کے ذخیرے کے حق سے صرف پنجاب کی نفرت میں محروم رکھ کر تاریخی اور قومی جرم کا ارتکاب کیا گیامگر ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں کیونکہ پی ڈی ایم کو اپنی سٹیج کی رونق بڑھانی ہے اور دوسری طر ف مقتدرحلقوں کی ہرکارہ پی ٹی آئی ہے جس نے سی پیک کے ایشو پر خیبرپختونخوا میں پنجاب کے خلاف نفرت کی مہم چلائی اورا س کی قیادت خود اس وقت کے وزیراعلیٰ نے کی اور پھر اسی تعصب پر دوبارہ الیکشن جیت لئے۔
پنجاب کا المیہ یہ ہے کہ اس سے سیاسی اور حکومتی طاقت لینے والے بھی اس کا مقدمہ لڑنے کے لئے تیار نہیں ورنہ نواز شریف اور شہباز شریف کہاں کے نان پنجابی، ہیں، کشمیری خاندان بیگم کلثوم نواز کا تھا جبکہ میاں شریف امرتسر سے ہجرت کر کے لاہور آئے تھے۔ سندھ میں اگر سندھی ثقافت کا دن منایا جائے تو پنجابی بھی اجرک اوڑھ لیتاہے، وہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کی ثقافتوں سے بھی محبت کرتا ہے لیکن اگر جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگ جائے تویہ گالیاں کھاناشروع کر دیتا ہے۔ آج لاہور کی سڑکوں، بازاروں میں چند ہزار نہیں بلکہ لاکھوں پٹھان روزگار کماتے ہیں، لاہوریوں کا حق روزگار لینے کے باوجود عزت اور محبت پاتے ہیں مگر جب اچکزئی جیسے کانگریسی عہدیدار کے فرزند لاہور آتے ہیں تو یہ جھوٹ اور پروپیگنڈے کے ذریعے نفرت کی آگ لگاتے ہیں۔ اگر اچکزئی میں ہمت ہے تو وہ مقتدر حلقوں سے لڑے، اس پنجاب کو گالی نہ دے جس میں اکثریت اس وقت بھی دو وقت کی روٹی کے لئے بھی مجبور ہے اور کسی مسیحا کی راہ دیکھ رہی ہے۔ یہ جلسہ عمران خان اور اس کے سرپرستوں کے خلاف تھا مگر اچکزئی کے بے موقع خطاب نے اسے لاہوراور پنجاب کے خلاف بنا دیا جو نہ صرف غیر ضروری اور احمقانہ تھا بلکہ جاری سیاسی تحریک اور قومی یکجہتی کے خلاف بھی سازش تھا۔
نوٹ:راقم کے والد پٹھان اور والدہ پنجابی تھیں، ساری عمر لاہور میں گزری، ملک کے کونے کونے میں جا کر صحافتی ذمہ داریاں سرانجام دیں تو اندازہ ہوا کہ کچھ لوگ کس طرح نفرت کا بیوپار کر کے نفع کما رہے ہیں۔ پاکستان کو امن، محبت اور یکجہتی کی ضرورت ہے اور اس کے لئے وطن سے محبت کرنے والوں کی طرف سے اچکزئی جیسے علاقائیت اور مفاد پرستوں کی حوصلہ شکنی از حد ضروری ہے۔ ہر صوبے کی یکساں ترقی اور شہریوں کے حقوق کا تحفظ آئین کے عین مطابق ہونے لازم مگر اپنے حقوق کے لئے دوسروں کو الزام اورگالی دینا نامناسب ہی نہیں بلکہ گھٹیا پن بھی ہے۔