Saturday, 23 November 2024
  1. Home/
  2. Najam Wali Khan/
  3. Ewaan e Bala Ka Mun Kala

Ewaan e Bala Ka Mun Kala

سینیٹ کے دھاندلی زدہ انتخابات اسی گندے کھیل کا تسلسل ہے جو پاکستان میں ستر برس سے کھیلا جا رہا ہے۔ یہ عوام کی بدقسمتی ہے کہ ان کی حکومتوں کے فیصلے ان کے ووٹوں سے نہیں ہوتے۔ ہمارے انتخابات عملی صورت ہیں کہ خود نہیں بدلتے قرآن بدل دیتے ہیں، ، یہ کہنے میں عارنہیں کہ سینیٹ انتخابات میں اس مرتبہ گندے کھیل کا آغاز پیپلزپارٹی نے کیا اور پی ٹی آئی اسے انتہا پر لے گئی۔ یوسف رضا گیلانی کا حفیظ شیخ کے مقابلے میں سینیٹر منتخب ہوجانا صاف ظاہر کر رہاتھا کہ ایوان زیریں میں حکومتی ارکان خریدے گئے ہیں۔ عمران خان کو پہلے سے علم تھا کہ ان کے ارکان کردارنہیں رکھتے لہٰذا ان کی چیخ وپکار انتخابات میں شفافیت جیسے اعلیٰ مقصد کے لئے نہیں بلکہ محض اپنے ووٹ بچانے کے لئے تھی کہ اگر وہ واقعی اپنی دعووں اور اقدامات میں سچے ہوتے تواپنے ڈپٹی چیئرمین کے لئے ایوان بالا میں ضمیر فروشوں کی ویسی خریداری نہ کرتے جیسی آصف علی زرداری نے ایوان زیریں میں کی تھی۔

ایک زرداری سب پر بھاری کا نعرہ پھر لگا جب موصوف نے قومی اسمبلی میں یوسف رضا گیلانی کو غیر متوقع طور پرکامیاب کروالیامگرکیا واقعی زرداری بھاری رہے۔ میری رائے یہ ہے کہ زرداری صاحب اپنی پارٹی پر ہی بھاری پڑے ہیں۔ مجھے یاد آجاتا ہے کہ سینیٹ کے اس کھیل کاآغاز آصف علی زرداری نے ہی تین برس پہلے بلوچستان میں منتخب حکومت کو ختم کروانے کے لئے کٹھ پتلی کردارادا کرتے ہوئے کیا تھا اور مولانا فضل الرحمان ان کے حلیف بنے تھے۔ وہ وقت گزر چکا جب آصف زرداری نے اپنے ڈپٹی چیئرمین کے لئے جناب صادق سنجرانی کو چیئرمین منتخب کروایا تھا، آج وہ ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرکے پھینک دئیے گئے ہیں۔ آج سینیٹ میں نہ چیئرمین پیپلزپارٹی کا ہے اور نہ ہی ڈپٹی چیئرمین۔ آصف علی زداری تمام تر ہتھکنڈوں اوربریف کیسوں کے باوجود سینیٹ میں خالی ہاتھ کھڑے ہیں۔ ان کی پھرتیاں دیکھ کر مجھے وہ شخص یاد آ گیا جو کچہری پہنچا اور ایک وکیل سے پوچھا، ہمارا قتل کا مقدمہ ہے کتنی فیس لوگے، وکیل نے کہا پانچ ہزار روپے۔ وہ شخص ڈیڑھ ہُشیار تھا، بولا، اتنی فیس میں کیا مقدمہ لڑو گے۔ ایک دوسرے وکیل نے پانچ لاکھ لئے اور اس کے باوجود قتل کے ملزم کو پھانسی کی سزا ہو گئی۔ زرداری صاحب کو کم و بیش اتنی ہی سیٹیں بریف کیس چلائے بغیر مل جانی تھیں جو انہوں نے بریف کیس چلا کے لیں۔ وہ اس سے پہلے سب سے بھاری ہونے کے چکر میں بھٹو خاندان کی پارٹی کو ملک کے تین صوبوں سے فارغ کرواکے سندھ تک محدود کروا چکے ہیں۔

اس کھیل میں دوسرے کھلاڑی عمران خان تھے جو دعووں کے مطابق خفیہ ووٹنگ کے بجائے اوپن بیلٹ چاہتے تھے تاکہ ضمیر فروشی نہ ہو مگر ڈپٹی چئیرمین کے انتخاب میں حکومت نے بھی ارکان کی اسی طرح خریداری کی جس طرح پیپلزپارٹی نے اس سے پہلے کی تھی۔ یہ بھی پی ٹی آئی کے نظریاتی لوگوں کے لئے ایک المیہ ہوسکتا ہے اگر کوئی نظریاتی باقی بچا ہو کہ انہیں جس طرح پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لئے بائیس برس جدوجہد کرنے والا کوئی ساتھی نہیں ملا، جس طرح بہت ساری وفاقی وزارتوں میں پارٹی کے لئے اجنبی یا ماضی کے مخالف چہروں کو جگہ دی گئی اسی طرح سینیٹ میں چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے لئے جو امیدوار تھے ان کا پی ٹی آئی سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا محترمہ فردوس عاشق اعوان ہوسکتا ہے یا محترم فواد چوہدری کا بلکہ یہ وونوں نام اپنا ایک پولیٹیکل بیک گراونڈ رکھتے ہیں مگرصادق سنجرانی اور مرزا آفریدی کون ہیں، ان کا سیاسی پس منظر اور جدوجہد کیا ہے، کوئی نہیں جانتا۔ پی ٹی آئی کو تاریخ کی ایک انوکھی ترین دھاندلی کر کے انہیں جتوانا پڑا ہے۔ سینیٹ میں سات ایسے ووٹ مسترد کئے گئے کہ ٹھپہ امیدوار کے نام کے سامنے کے بجائے نام کے اوپر لگایا گیا ہے اور یوں انچاس ووٹ لینے والا امیدوار ہار گیا اور اڑتالیس ووٹ لینے والا جیت گیا ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ جناب زرداری کو انہی کے سکوں میں ادائیگی کر دی گئی ہے۔

اصل افسوس یوں ہے کہ یہ سب کچھ اس ایوان میں ہوا ہے جو پاکستان کی سالمیت کا ضامن ہے۔ پارلیمانی نظام میں سینیٹ ہی وہ ادارہ ہوتا ہے جو تمام اکائیوں کی یکساں نمائندگی کے ذریعے ان کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے۔ اسے سیاسی امور کے ماہرین کثیر القومی ریاست میں اسے ایک سیفٹی والو قرار دیتے ہیں، آہ، وہ سیفٹی والواپنی اہمیت اور حیثیت کھو بیٹھا ہے۔ سینیٹ کی اصل اور بنیاد میں ہی خرابی پیدا ہو گئی ہے۔ میرے ایک رجائیت پسند دوست نے کہا کہ ایسی بات نہیں۔ ہمیں مثبت پہلودیکھنا چاہئے کہ قومی اسمبلی میں بھی ایک سو چونسٹھ ارکان نے پارٹی ڈسپلن کی پابندی کی اور حفیظ شیخ کو ووٹ دیا جبکہ ضمیر فروشی کرنے والے صرف نو، دس تھے جو کل ارکا ن کا چار سے پانچ فیصد بھی نہیں بنتے۔ اسی طرح سینیٹ کے اٹھانوے ووٹ دینے والے ارکان میں سے سات ارکان نے غداری کی تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ نوے فیصد سے زیادہ ارکان باضمیرہیں، نظریاتی ہیں، قابل فروخت نہیں ہیں مگر میرا کہنا ہے کہ مسئلہ انہی دس فیصدضمیر فروشوں کا ہے جو ترازو کو غلط سمت میں جھکا کے سب تلپٹ کر دیتے ہیں۔

سینیٹ کے انتخاب میں جو کچھ ہوا اس میں نہ پیپلزپارٹی نے کوئی عزت کمائی اورنہ ہی پی ٹی آئی نے۔ افسوس، ان کے حامیوں کے ضمیر بھی مردہ ہوچکے، حکومت کے جو حامی یوسف رضا گیلانی کے انتخاب میں پیپلزپارٹی کو گالیاں نکال رہے تھے وہی چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں کیمرے لگانے سے ووٹ مستردکروانے کے شرمناک عمل میں دانت نکال رہے تھے، اسے کپتان کی حکمت عملی، چالاکی اور ہوشیاری گردان رہے تھے مگرسن لیجئے یہ تمام چالاکیاں اور ہوشیاریاں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں جب اللہ کی لاٹھی چلتی ہے، ہاں، باقی رہ جانے والی شے اصول ہیں، نظریات ہیں، کردار ہیں۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran