کالموں کی ایک ڈیڑھ ہفتے کی چھٹی کے بعد واپس آیا ہوں تو بہت کچھ بدل چکا ہے۔ یہ درست ہے کہ حکومت قاضی فائز عیسیٰ کو برقرار رکھنا چاہتی تھی مگر جہاں وہ خود ایسے حالات پیدا نہیں کر سکی کہ قاضی فائز عیسیٰ کسی طاقتور آئینی عدالت کے سربراہ کے طور پر سسٹم میں موجود رہتے وہاں بہت دن پہلے خود قاضی فائز عیسیٰ نے ایسے سسٹم میں رہنے سے معذرت کر لی تھی۔
حکومت اپنی دوسری کوشش میں کامیاب رہی کہ جسٹس منصور علی شاہ کا چیف جسٹس بننے کا راستہ روک لیا گیا بلکہ ان کا ہی نہیں بلکہ جسٹس منصور علی شاہ کی سوچ کے حامل، ان سمیت پانچ میں سے چار جج صاحبان کے نام سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جاری پورے عشرے کے لئے چیف جسٹس کے طورجگمگا رہے تھے، اب وہ نیون سائن بجھ چکے ہیں۔ جسٹس منیر کے فیصلوں سے شروع ہونے والے جمہوریت خور جوڈیشل ایکٹوازم پر پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی حکومت نے کاری ضرب لگائی ہے۔
میں اس کا پہلا کریڈٹ شہباز شریف کو دیتا ہوں مگر اس کے ساتھ یہ بات بھی درست ہے کہ اگر قاضی فائز عیسیٰ جیسا ایماندارچیف جسٹس اور آئین کا پابند آرمی چیف نہ ہوتا تو یہ تاریخی آئینی ترمیم کبھی ممکن نہ ہوتی۔ ایک وقت آ گیا تھا جب یہ بات کہی جا رہی تھی کہ وزیراعظم کھانے والے جج موجودہ وزیراعظم کو بھی ہڑپ کر جائیں گے اور ڈکار تک نہیں لیں گے لیکن اس مرتبہ انہیں شہباز شریف اور آصف زرداری کی سیاسی فراست کا سامنا تھا سو وہ سب کے سب خود ویب سائٹ پر لکھی"یقینی چیف جسٹسیوں " سے محروم ہو گئے۔
جیسے ہی آئینی ترمیم ہوئی بشریٰ بی بی رہا ہوگئیں پھر علیمہ اور عظمیٰ کی رہائی کے احکامات بھی جاری ہو گئے۔ بانی پی ٹی آئی کی توشہ خانہ ون میں بھی اپیل سماعت کے لئے مقرر ہوگئی، یہ سماعت انتیس اکتوبر کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہوگی اور اگراس میں بانی پی ٹی آئی کو کوئی ریلیف مل جاتا ہے تو مجھے کوئی حیرت نہیں ہوگی تاہم مجھے گذشتہ روز اپنے ایک معروف یوٹیوبر دوست کا فون آیا۔ وہ اس تمام پیشرفت کو تشویش کی نظر سے دیکھ رہا تھا۔ اس کی رائے تھی کہ جس طرح معیشت ترقی کر رہی ہے ایسے میں عمران خان، اس کی اہلیہ اور بہنوں کو ملنے والا ریلیف، ملک کے لئے، غیر معمولی خطرہ ہے۔
مجھے اس کی رائے میں حکومت کے لئے بھی خطرہ نظر آیا مگر میری رائے بہت مختلف ہے۔ میں نے بتایا، یہ بات پہلے سے طے شدہ تھی کہ آئی ایم ایف سے پیکج کی منظوری اور معیشت پر منڈلاتے خطرات کے خاتمے کے ساتھ ہی بانی پی ٹی آئی کو ریلیف ملے گا۔ کوئی مانے یا نہ مانے مگر میں مانتا ہوں کہ بانی پی ٹی آئی کے بیرون ملک سپانسرز بہت تگڑے ہیں۔ انہوں نے امریکی ایوان نمائندگان سے اس کے لئے قرارداد ہی منظور نہیں کروائی بلکہ اس کے بعد ساٹھ سینٹروں سے اس کی رہائی کے لئے خط بھی لکھوا لیا ہے۔
ایسی صورتحال میں اگر پاکستان کی حکومت آئی ایم ایف سے ایک اکنامک پیکج لینے میں کامیاب ہوگئی ہے تو اس پر داد بنتی ہے۔ مجھے یہ کہنے میں بھی عار نہیں کہ عمران خان ہرگز ہرگز نواز شریف نہیں ہے۔ نواز شریف کو جیل میں ڈالنے سے جلاوطن کرنے تک بہت کچھ کیا گیا مگر اس مرد مجاہد کے منہ سے پاکستان کے خلاف ایک لفظ نہیں نکلا۔ نواز شریف نے صرف اور صرف جمہوریت پر شب خون مارنے والے ججوں اور جرنیلوں کا نام لے کر ان پر تنقید کی مگر نومئی برپا کرنے والوں سے کچھ بعید نہیں لہٰذا جمہوریت کے تسلسل اور معیشت کی بہتری کی خاطر سیاست اور معاشرت کے بڑے فتنے کو پابند ہونا ہی ملکی مفاد میں تھا۔
میری رائے یہ بھی ہے کہ بشریٰ بی بی کو کوئی بھی جیل میں نہیں رکھنا چاہتا تھا مگر ان کی مجرمانہ سرگرمیوں کے ثبوت ہی ایسے مضبوط تھے کہ انہیں گرفتار کرنا پڑا مگر اس کے بعد بھی یہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کا ظرف تھا کہ اس نے بشریٰ بی بی کو مریم نواز جیسی جیل دینے کی بجائے بنی گالہ میں ان کی پرتعیش رہائش گاہ کو ہی سب جیل قرار دے دیاتاہم وہ اپنے شوہر کے دباو ئپر، سیاسی مفادات کے لئے، جیل منتقل ہوئیں۔
دوسری طرف یہ طے شدہ ہے کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ عظمیٰ اور علیمہ کو بھی جیل میں نہیں رکھنا چاہتی۔ ہوا یوں کہ آئی ایم ایف کی ڈیل کے ساتھ ہی اعلیٰ عدلیہ والا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا ورنہ بشریٰ بی بی آج سے دو، تین ماہ پہلے بھی رہا ہو سکتی تھیں۔ جب پی ٹی آئی والے کہتے ہیں کہ بشریٰ بی بی پر کوئی ڈیل نہیں ہوئی اور وہ میرٹ پر رہا ہوئی ہیں تو وہ ایک بات کی ڈنڈی مار جاتے ہیں کہ وہ گرفتار بھی میرٹ پر ہی ہوئی تھیں۔
میرے کالم میں اس وقت گنجائش نہیں کہ میں ملک ریاض سمیت دیگر جگہوں پر ان کے معاملا ت کی پٹاری کھول سکوں۔ بہرحال کہنے کامقصد یہ ہے کہ حکومت اور فوج سوچ بھی نہیں سکتے کہ وہ کسی سیاستدان کو جیل سے بھٹو بنا کے باہر نکالیں۔ سویہ ریلیف تو ملنا ہی ملنا تھا اور آگے بھی ملنا ہی ہے۔ میری انفارمیشن کے مطابق یہ ٹائم لائن اگلے برس مارچ تک کی ہے تاہم اس میں کچھ عرصہ آگے پیچھے ہو سکتا ہے۔
میرے دوست نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی جیل سے نکل کر زیادہ خطرناک ہو جائے گا، اس پر میں نے قہقہہ لگایا اور کھل کر اس خیال کی نفی کی۔ یہ طے شدہ بات ہے کہ جیل میں بیٹھا ہوا ذوالفقار علی بھٹو بھی خطرناک تھا اور نواز شریف بھی۔ پی ٹی آئی کی سپورٹ کی بڑی وجہ اس کے بانی کا جیل میں ہونا ہے ورنہ انہوں نے عوام کو جو خدمت کی ہے اس بارے سب کو علم ہی ہے۔ میں ڈرائنگ روم کا نہیں بلکہ پریکٹیکل جرنلسٹ ہوں اور اچھی طرح جانتا ہوں کہ عمران خان نے ایوان وزیراعظم سے نکلنے کے بعد جتنی بھی پولیٹیکل ایکٹویٹیز کیں ان میں لانگ مارچ سمیت ہر جگہ تین سے دس ہزار کے درمیان ہی گیدرنگ رہی۔
ان کی اصل طاقت سیاست اور عوام نہیں بلکہ کے ان کے ہینڈلرز ہیں جو ان کے لئے امریکا سمیت دیگر ممالک میں کام کر رہے ہیں۔ اگر آپ مجھے یہ دلیل دیتے ہیں کہ سوشل میڈیا کے ذریعے وہ کوئی انقلاب برپا کر سکتے ہیں تو وہ اس طاقت کے ذریعے حکومت سے نکلنے سے جیل میں تنہا قید ہونے تک ایک تنکے کافرق بھی نہیں ڈال سکے۔ نہ وہ شہباز شریف کا راستہ روک سکے نہ جنرل عاصم منیر کا اور نہ ہی قاضی فائز عیسیٰ کا۔
کہنے کا صاف اور سیدھا مطلب یہ ہے کہ تقدیروں کا علم اللہ ہی بہتر جانتا ہے ہم تو تدبیروں پر بات کرتے ہیں۔ اقتدار کی ٹرائیکا میں تدبیریں مکمل کر لی گئی ہیں۔ جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ عمران خان نے جیل سے کوئی بڑی گیم کردی ہے انہیں شائد علم نہیں کہ سانپ اور سیڑھی کے کھیل میں وہ زیرو پر پہنچ چکے ہیں۔