ہائیں، کیا اب میاں نواز شریف کے نواسے کا نکاح بھی سیاسی ہے، کالم کا موضوع ہے۔ اگر آپ یہ سوال کرتے ہیں تو اس کا جواب ہے کہ میں ذاتی طور پر سیاسی رہنماؤں کی ایسی تقاریب کو ان کی ذاتی اور خاندانی ہی سمجھتا ہوں مگرجس شخصیت کو ان کے سیاسی مخالفین زیر بحث لے آئیں، جیسے وزیراعظم عمران خان نے مریم نواز کے صاحبزادے کے آکسفورڈ یونیورسٹی کی پولو ٹیم کے کپتان بننے پر تنقید کی اور جس تقریب کو سیاسی احتجاج کا مرکز بنادیا جائے جیسے تحریک انصاف کے ظفر بھائی اپنی بہنوں کے ساتھ وہاں پہنچے اور شہباز گل سے لے کر رحیق عباسی تک نے اس پر تنقید کی تو یہ سراسر سیاسی موضوع ہے۔ ہم اس تہذیب کا مظاہرہ نہیں کر پا رہے کہ سیاستدانوں کی ذاتی اور سیاسی زندگیوں میں فرق رکھ سکیں۔ ہم نے سیاسی اختلافات کو ذاتی، خاندانی اور قبائلی دشمنیاں بنا رکھا ہے۔ شریف فیملی اپنی خاندانی تقریبات کو محدود رکھتی ہے مگر بہرحال ہماری روایات کے مطابق سیاستدانوں کی ہر بات اور ہر قدم سیاسی ہے۔ مجھے کہنے دیجئے کہ تحریک انصاف اور اس کے ہم نواؤں نے شریف فیملی کی تیسری نسل کو بھی پولیٹیکل لیڈر بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے اور میں اس فیصلے یعنی سیاسی جماعتوں کی نسل در نسل کسی وراثت کی طرح منتقلی کے خلاف ہوں۔
اب آپ کہیں گے کہ یہ فیصلہ تو شریف فیملی کا ہے کہ نواز شریف کے بعد مریم نواز پارٹی کی غیرعلانیہ اور ڈی فیکٹو سربراہ ہوں، نواز شریف کے بھائی اس کے ڈی جیرو یعنی قانونی صدر ہوں، وہی قومی اسمبلی میں لیڈر آف دی اپوزیشن ہوں اور بھتیجا پاکستان کی سب سے بڑی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف۔ میرا اس پر جواب ہے کہ آپ جب بھی معمول کے سیاسی عمل کو روکیں گے تو اس کا ردعمل یہی ہو گا۔ مجھے بہت افسوس ہے کہ ملک میں جمہوریت مانگنے والی ہماری سیاسی جماعتوں میں بھی جمہوریت نہیں ہے۔ یہ سب خاندانی جاگیریں ہیں اور مجھے یہ کہنے میں بھی عار نہیں کہ اگر جناب عمران خان کے صاحبزادے پاکستان میں رہنا پسند کرتے تو وہ بھی یہاں لیڈر ہوتے۔ میں چاہتا ہوں کہ جمہوری جماعتوں کو خاندانی جائیدادیں بنانے کے خلاف بات کروں مگر مجھے جواب ملتا ہے کہ اگر گھر پر حملہ ہو رہا ہو تو اس وقت ڈرائنگ روم کی آرائش نہیں دیکھی اور پوچھی جاتی، آپ معمول کا سیاسی جمہوری عمل ملک میں لے آئیں اور معمول کی سیاسی جمہوری روایات پراحتساب کر لیں۔
نکاح کی اس تقریب پر سب سے پہلا سیاسی سوال خود مریم نواز نے اٹھایا جب انہوں نے لندن میں ہونے والی تقریب میں شرکت نہ کر پانے کی ذمہ داری اس کا کارڈ شیئر کرتے ہوئے حکومت پر عائد کی۔ حکومت کے اس پر دو جواب ہیں، پہلا جواب مقدمات اور سزاؤں کا ہے جسے زیادہ سنجیدہ اس لئے نہیں لیا جا سکتا کہ ان مقدمات اور سزاوں پر خود قانونی ماہرین شکوک و شبہات کا اظہار کر چکے ہیں مگر دوسرا جواب منطقی ہے کہ لڑکے ماں، باپ سمیت تمام قریبی رشتے دار پاکستان میں ہیں مگر اس کے باوجود صاحب حیثیت نانا کو اہمیت دیتے ہوئے اگرتقریب لندن میں کی جار ہی ہے تو یہ شریف فیملی کا اپنا فیصلہ ہے، وہ لاہور میں تقریب کرتے تو لڑکے کے ماں، باپ ہی نہیں بلکہ ننھیال اور ددھیال سے بے شمار رشتے دار شرکت کر سکتے تھے جن کی تعدادبہت محدود ہو گئی۔ یہ بات درست ہے کہ ہمارے تارکین وطن بھی اپنے بچوں کی شادیاں پاکستان آ کر ہی کرتے ہیں تاکہ رشتے داریوں سے خاندانی رسم و رواج سب سے لطف اندوز ہوا جا سکے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ فیصلہ میاں نواز شریف کے لئے تھا جو لندن میں بوجوہ مقیم ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ جس خاندان میں ننھیال والے زیادہ دولت مند او ر بااثر ہوں وہاں بچے پدرسری معاشرہ ہونے کے باوجود اپنے ننھیال سے ہی وابستہ ہوتے ہیں۔
نکاح کی اس تقریب کو سیاسی بنانے کا دوسرا کام پی ٹی آئی کے ایکٹی ویسٹس نے کیا جو وہاں مظاہرہ کرنے کے پہنچ گئے جو غیر ضروری بھی تھا اور غیر اخلاقی بھی۔ مسلم لیگ نون کے کارکنوں کی طرف سے اس کا بھرپور جواب دیا گیا بلکہ سلک لودھی اور ان کی والدہ کی طرف سے جواب کچھ زیادہ ہی تھا۔ پی ٹی آئی کی طرف سے خیر یہ رہی ہے کہ اس کے عہدیدار کارکنوں کو راہ دکھانے کے باوجود خود موقعے سے غائب رہے۔ اب ظفر بھائی جیسے لوگوں کو بھی سوچنا ہو گا کہ ہر جگہ اپنی بہنوں کو لے کر پہنچ بہت نامناسب بات ہے، اس سے بہت ساروں کو بہت ساری باتیں کرنے کا موقع ملتا ہے۔ نکاح، ولیمے، عقیقے وغیرہ غیر سیاسی تقاریب ہوتی ہیں اور وہاں سیاسی احتجاج کی کوئی تک نہیں بنتی اور اسی طرح جنازے، قل اور چالیسیویں وغیرہ۔ ایک سوال یہ کیا جا رہا ہے کہ شریف فیملی نے بارہ محرم الحرام کو تقریب رکھی تو کیا وہ غیر شرعی عمل ہے تو اس کا جواب شریعت کے ٹھوس اصولوں میں ہے کہ نہیں مگر بہت ساری باتیں ٹھوس اصولوں اور احکام سے ہٹ کر بھی ہوتی ہیں۔ میں میاں محمد شریف کے وارثوں کو اچھے مسلمان سمجھتا ہوں اور مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اللہ، رسولؐ، صحابہ کرامؓ اور اہل بیتؓ سے منسوبات کا احترام کرے۔ نواسہ رسولؐ کی الم ناک شہادت کے واقعے کے تیسرے ہی دن نکاح کی تقریب نہ منعقد کی جاتی تو بہت بہتر تھا۔ کیا یہ ہوسکتا تھا کہ شریف فیملی کوئی خوشی کی تقریب میاں محمد شریف یا بیگم کلثوم نواز کی رسم قل کے موقعے پر رکھ لیتی، میں اس بارے سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہ محبت اور عقیدت کی باتیں ہیں ورنہ اس کی نفی کرنے والے بہت ہی محترم مفسر قرآن نے اپنی بیٹی کی شادی عین دس محرم کو کی اور پھر میرا گمان ہے کہ اس کا جو نتیجہ تھا وہ اچھا نہیں تھا۔
ایک اور وائرل ٹوئیٹ ہوا جس میں کہا گیا کہ شریف فیملی نے لندن کے مہنگے ترین علاقے کے مہنگے ترین ہوٹل میں شادی کی تقریب کی جس کے ایک مہمان کا فی کس خرچ تین لاکھ پاکستانی روپوں کے برابر رہا۔ اس کا پہلا جواب یہ ہے کہ شریف فیملی نسل در نسل ارب پتی ہے اور ہر کسی کو اپنی دولت اپنی مرتبے اور سہولت کے مطابق خرچ کرنے کی اجازت ہے مگر تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ وہ مسلمان ہیں اور پاکستانی ہیں، بطور مسلمان ان پر لازم ہے کہ وہ اصراف سے گریز کریں اور بطور سیاستدان ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اچھی مثالیں قائم کریں۔ یقینی طور پر وہ سادگی سے کام لیتے تو وہ اچھی مثال ہوتی اوراس کے ساتھ ساتھ وہ بہت سارے لوگ جو یہ یقین رکھتے ہیں کہ شریف فیملی نے ملک کی بے پناہ دولت لوٹی ہے، انہیں نفرت اور تعصب بھرے ردعمل ظاہر کرنے کا موقع کم ملتا۔ جو لوگ میاں نواز شریف اور مریم نواز کو اس نکاح پر مبارکباد دے رہے ہیں وہ اس لئے درست ہے کہ جہاں ذرا سی بھی وابستگی اور تعلق ہو وہاں خوشی کی مبارکباد اور غم پر افسوس کا اظہار سماجی اور اخلاقی طور فرض ہے، سو مشکلات اور پریشانیوں میں گھری شریف فیملی کو خوشی کی یہ ساعتیں مبارک ہوں۔