پہلے ہمیں ایک بنیادی بات کا فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا ہم میں سے کوئی کسی گارڈ یا چوکیدار کی طرف سے کسی کالج میں پڑھتی طالبہ سے ریپ کی حمایت کر سکتاہے توجواب ہے ہرگز نہیں اور یہ بھی کہ کیا کسی اچھے تعلیمی ادارے کی انتظامیہ کسی اہلکار کی طرف سے ریپ کی کوشش پر اس کی حمایت کرسکتی ہے تواس کا جواب بھی واضح اور دوٹوک نفی میں ہے۔
ہمیں کوئی بتائے کہ ہمارا کان کتا لے گیا ہے تو ہم کان کو پہلے ٹٹولیں گے یا کتے کے پیچھے بھاگ کھڑے ہوں گے۔ جب ہم سب کسی ریپ کا کسی پر الزام لگا رہے ہیں تو کیا ہمیں اس سوال کا جواب پہلے نہیں معلوم کرنا چاہئے کہ ریپ ہوا بھی ہے یا نہیں۔ اس سوال کا جواب سب کومعلوم ہے مگر المیہ یہ ہے کہ جب کوئی الزام لگتا ہے چاہے وہ ریپ کا ہو یا توہین مذہب کا، ہم کان نہیں ٹٹولتے۔
میں قرآن پاک کو مکمل ضابطہ حیات سمجھتا ہوں۔ قرآن مجھے حکم دیتا ہے کہ جب کوئی فاسق میرے پاس خبر لے کر آئے تو میں پہلے اس کی تصدیق کروں۔ میرے نبی ﷺ نے فر مایا کہ آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ ہر سنی سنائی بات(بغیر تحقیق کے) آگے بیان کر دے۔ ریپ ہو یا قتل، ایسے تمام جرائم میں ایک متاثرہ فریق ہوتا ہے، شکایت کنندہ ہوتا ہے۔ دوسراکوئی گواہ ہوتاہے اور تیسرے کچھ ثبوت۔
میں اگر قرآن پاک کے زنا کے حوالے سے ثبوتوں پر جاؤں تو وہ واضح ہیں مگر میں تو اس حد تک جاتا ہی نہیں، بہت نرم اور بہت سادہ سا سوال رکھتا ہوں کہ جس کے ساتھ زیادتی ہوئی، وہ کون ہے، کہاں ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ آپ قتل کا ایک الزام لگا رہے ہوں مگر آپ کے پاس نہ ڈیڈ باڈی ہو اور نہ ہی قتل ہونے والے کانام پتہ۔ مجھے یہ مت کہیے گا کہ موٹروے ریپ کیس میں بھی مظلوم خاتون پس پر دہ تھی کیونکہ اصل سیچویشن یہ ہے کہ پس پردہ تھی مگر موجود تھی۔ جن لوگوں نے بھی انسٹا گرام کی ایک پوسٹ سے یہ سب کام شروع کیا، ان سے میرا سوال ہے کہ جس مرد پر آپ نے الزام لگایا کیا وہ غریب گارڈ ہونے کی وجہ سے اس بات کا حقدار نہیں کہ اس پر الزام کا ثبوت دیا جائے؟
میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ وہ لڑکی چاہے پس پردہ ہو، اسے چھپائے رکھنا ہی مقصود ہو مگر اس کی کوئی سہیلی کوئی کلاس فیلو یا کوئی ٹیچر ہوگی جو اس کے بارے جانتی ہوگی، گواہی دیتی ہوگی۔ مان لیتے ہیں وہ کالج کے پریشر میں آ گئیں تو پھر وہ ہسپتال ہے جس کے آئی سی یو میں اس لڑکی کو لے کر گئے۔ اخلاقی طورپر میری بات چاہے درست نہ ہو مگر بائیولوجیکلی اور میڈیکلی آپ ہی بتائیے کہ ایک کالج کی سولہ سترہ برس کی ایک لڑکی ایک انٹرکورس سے کیسے آئی سی یو میں پہنچ سکتی ہے یا مر سکتی ہے، یہ تب ہی ممکن ہے کہ ریپسٹ نے کلکتہ واقعے کی طرح اس کی تمام ہڈیاں بھی توڑ دی ہوں۔
مجھے بتائیں، کسی ڈاکٹرنے اس کا علاج کیا ہوگا، کسی نرس نے ڈرپ لگائی ہوگی، کسی پیرامیڈکس نے خون صاف کیا ہوگا، وہ سب کہاں گئے؟ اس کو بھی چھوڑیں، پولیس پر آجاتے ہیں کہ پولیس نے سی سی ٹی وی فوٹیج قبضے میں لی اور مبینہ ملزم گرفتار کیا تو وہ اسے کیوں بچائے گی بلکہ میر اسوال تو اس سے بھی آگے کا ہے کہ اگر ایسا معاملہ ہو تو میاں عامر اورسہیل افضل جیسے لوگ اپنی عزت اور اپنے ادارے کی ساکھ کی بجائے ایک گارڈ کو کیوں بچائیں گے بلکہ گارڈ تو ایک طرف رہا کوئی پرنسپل یا ڈائریکٹر بھی یہ حرکت کرے تو اس کی سپورٹ کیوں کریں گے۔
کسی پولیس افسر نے کچھ بتایا ہو یا کسی کرائم رپورٹر نے کوئی خبر دی ہو یا یہ سب بھی بے ضمیر ہیں اور ضمیر والے صرف وہ ہیں جو سڑکوں پر ہاو ہو کر رہے تھے، کیا کہا، انتظامیہ نے سی سی ٹی وی فوٹیج غائب کر دی، تو وزیر تعلیم اسے ری ٹریو، کروا لے۔ ان سب کو چھوڑیں، جب وہ لڑکی مر گئی تواس کا کوئی ڈیتھ سرٹیفکیٹ بنا ہوگا، کسی ماں نے ماتم کیا ہوگا، کسی جگہ جنازہ ہوا ہوگا، کسی جگہ دفن ہوئی ہوگی تو وہ سب بھی غائب ہیں، خاموش ہیں، کیوں، مان لیجئے کہ آپ نے ڈرامہ کیا ہے، جھوٹ بولا ہے۔ ایک کامیاب ادارے کے خلاف ایک سازش کی گئی ہے اوراس میں ایک مخصوص سیاسی گروہ شامل ہے۔
آپ تمام حقائق اور سوالات نظرانداز کرتے ہوئے فیک نیوز پر اس لئے جم گئے کیونکہ آپ جنونی اور انتہا پسند ہیں۔ آپ ہی وہ لوگ ہیں جو توہین مذہب کے جھوٹے الزام پر ایک بے گناہ کومار دیتے ہیں اور اس پر فخر بھی محسوس کرتے ہیں۔ آپ کی تربیت زومبیز کے طورپر ہوچکی، فطرت میں شاہ دولہ کے چوہے بن چکے۔ یہ سب کچھ واٹس ایپ گروپوں اور سوشل میڈیا ایپس سے پھیلا۔
گرلز کالجز میں پچیس چھبیس سال کے مرد بھی پہنچے کیونکہ انہیں بلایا گیا تھا، ان میں وہ بھی تھے جو ڈی چوک نہیں پہنچ سکتے تھے اور انہوں نے اسلام آباد والا تماشا لاہور میں لگانے کی کوشش کی۔ آؤٹ سائیڈرزنے فائرنگ کی، میل ہی نہیں فیمیل ٹیچرزکو بری طرح زخمی بھی کیا۔ ایک مبینہ ریپ پر احتجاج کرنے والے جانور کہہ رہے تھے، نکالو فیمیل ٹیچرز کو، ہم انہیں ریپ کریں گے۔ مجھے افسوس تو جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبا پر بھی ہے جنہیں میں کردار میں سب سے بہتر سمجھتا ہوں مگر اب کوئی ان کا زوال بھی دیکھے۔
میرا دل چاہتا ہے کہ میں وزیر تعلیم پنجاب سے مکالمہ کروں کہ ان کے ٹک ٹاک بنانے کے شوق نے جنونیوں کو دلیل دے دی۔ جب پنجاب کی وزیر اطلاعات رات گئے تک مصدقہ اطلاعات مانگ رہی تھی اور پولیس اس واقعے کی تردید کر رہی تھی تو وزیر تعلیم نے کالج کی رجسٹریشن کس جرم اور کس اختیار میں معطل کی۔ میرااحتجاج یہ بھی ہے کہ جب نہ کوئی مدعی ہے اور نہ ہی کوئی مدعا تو وہ غریب گارڈ کس قانون اور کس ایف آئی آر میں پکڑا گیا۔
مجھے کہنے دیجئے کہ ادارے عشروں میں بنتے ہیں اور ان کی تباہی اس طرح کی دوچار سازشوں سے ہوجاتی ہے۔ اس واقعے نے ثابت کردیا ہے کہ ہم جنگل میں رہتے ہیں جہاں نہ اخلاقیات ہے نہ قانون، نہ منطق ہے نہ ثبوت، بس الزام چلتے ہیں۔ اس سے پہلے یہی جنونی اور ریپیئے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپورکو پورن حب قرار دے چکے، ہزاروں ویڈیوز کا الزام لگا چکے اور میرا تب سے اب تک یہی سوال ہے کہ کہاں ہیں وہ ویڈیوز، اب ٹاپرز کی پہلی چوائس ادارہ ٹارگٹ ہے۔ اگر میں کسی اسلامی ریاست کا سربراہ ہوتا تو میں جھوٹا الزام لگانے والوں کو وہی سزا دیتا جو اس الزام کی میں ہوتی۔
سازشیوں کے گھٹیا پن کی انتہا دیکھئے کہ ایک بچی جو پاؤں پر چوٹ سے ہسپتال میں تھی، اس کا نام اس غلیظ مہم میں استعمال کر لیا گیا اور پھر اس کے والد اور چچا کو پولیس اور میڈیا کو وضاحت دینی پڑی۔ میرا سوال برقرار ہے کہ میں بھی ریپ کے خلاف احتجاج کے لئے تیار ہوں مگر کہاں ہوا ہے ریپ؟ کس کا ہوا ہے ریپ؟ کس نے دیکھا ہے ریپ؟