Sunday, 24 November 2024
  1. Home/
  2. Najam Wali Khan/
  3. Shahbaz Sharif Ko Kya Mila?

Shahbaz Sharif Ko Kya Mila?

شہباز شریف بتا رہے تھے کہ جب وہ کینسر کے علاج کے بعد لندن سے جدہ پہنچے تو انہوں نے شوکت خانم کو کچھ پیسے ڈونیٹ کئے تھے اور انہیں لینے کے لئے عمران خان خود سرور پیلس جدہ آئے تھے۔ سوال اس وائرل ویڈیو بارے تھا جس میں عمران خان ایک جگہ خطاب کرتے ہوئے اعتراف کر رہے ہیں کہ شریف فیملی نے انہیں شوکت خانم ہسپتال بنانے کے لئے پچاس کروڑ روپے کی خطیر رقم دی۔ یہ سوال ہمیشہ سے میرے ذہن میں موجود رہا کہ آج سے عشروں پہلے اتنی بڑی رقم کیسے عطیہ کی گئی جبکہ ان کے اسی دور میں خریدے، سب سے زیادہ متنازع بن جانے والے، لندن فلیٹس کی قیمت بھی پاکستانی روپوں میں ا س سے ایک چوتھائی بیان کی جاتی ہے۔ ہمارے ایک ساتھی نے پوچھا کہ وہ کتنی رقم تھی مگر نواز لیگ کے صدر نے وہ رقم بتانے سے گریز کیا۔ مجھے اس پوری بات میں جناب عمران خان کی کہی ہوئی بات کی تصدیق نہیں ملی، باقی اللہ بہتر جانتا ہے کہ عمران خان نے یہ بات کس پیرائے اور سیاق و سباق میں کہی تھی۔

شہباز شریف نے ماڈل ٹاون میں بجلی کے بحران اور لوڈشیڈنگ کے اضافے پر ماڈ ل ٹاون میں دھواں دار پریس کانفرنس کی تو اس موقعے پر چھوٹی سی غیر رسمی گپ شپ کے لئے کچھ سینئر صحافیوں کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ میں سمجھتاہوں کہ بہت ساری باتیں تاریخ اور عوام کا قرض ہوتی ہیں اگر وہ کسی کے مفاد کو متاثر نہ کر رہی ہوں تو وہ قوم کے لئے امانت کا درجہ رکھتی ہیں۔ شہباز شریف ہمیشہ سے قومی سیاست میں اپنے بڑے بھائی نواز شریف سے ایک مختلف حکمت عملی کے حوالے سے ڈسکس ہوتے ہیں اور وہ اپنی ہی پارٹی کے سوشل میڈیا مجاہدین کے ہاتھوں، شائد، پی ٹی آئی والوں سے بھی زیادہ چاند ماری کا شکار ہوتے ہیں۔ وہ لوگ جو ان کی ہی پارٹی کے ایک دوسرے میڈیا سیل سے تعلق رکھتے ہیں، اور پارٹی کو ماردو اور مرجاو کی سیاست کی دھکیلتے ہیں، ان کے منہ سے شہباز شریف کے لئے کلمہ خیر کم ہی نکلتا ہے مگر کوئی غیر جانبدار شخص شہبازشریف کی خدمات اور کارکردگی سے انکار نہیں کرسکتا۔ وہ پریس کانفرنس میں بتا رہے تھے کہ انہوں نے کس طرح جان مارتے ہوئے بجلی کی پیداوار کے کارخانے مکمل کئے حالانکہ ایک وقت آیا تھا کہ تمام بیوروکریٹ ہی نہیں بلکہ پارٹی کے ساتھی سیاستدان بھی ان کے منصوبوں کی مخالفت کر رہے تھے اور بیان کر رہے تھے کہ تربیلا کی توسیع اور نیلم جہلم سمیت متعدد منصوبے ایک دو یا تین برسوں میں مکمل ہونے والے ہیں لہٰذا نئے منصوبوں کی کوئی ضرورت نہیں مگر شہباز شریف نے ان کے لئے چینیوں کے گھٹنوں کو بھی ہاتھ لگایا اور نواز شریف کے بھی۔

شہباز شریف کے گھٹنوں کو ہاتھ لگانے کا بیان بھی دلچسپ ہے اور اسے مزے دار پیرائے میں ہی بیان کیا جاتا ہے۔ یوں بھی ہوتا ہے کہ وہ کہتے کچھ ہیں اور اس کا مطلب کچھ اور نکال لیا جاتا ہے مگر یہ بات بہرحال واضح ہے کہ و ہ اپنے دھن کے پکے ایک بہترین ایڈمنسٹریٹر ہیں اور ملک کو اس وقت ایک ایڈمنسٹریٹر کی ہی ضرورت ہے۔ ہم جنوں کی طرح کام کرنے والے اس شخص کو ضائع کر رہے ہیں جس نے بجلی کا وہ کارخانہ پنجاب میں بائیس ماہ میں لگا کر چلا دیا جس کو خود چائنیز چھتیس ماہ میں لگانے کا وقت دیتے ہیں اور اپنے ہی ملک میں ایسا ہی کارخانہ کو ساحل سمندر پر لگاتو اس نے مزید آٹھ ماہ لے لئے، وہ بتا رہے تھے کہ بجلی کے تین بڑے منصوبے ا نہوں نے مکمل کئے اور چوتھے منصوبے کی بنیاد رکھی، اس کی کچھ مشینری تک آ چکی تھی جب ان کی حکومت ختم ہوئی اور اب تک اس منصوبے میں تاخیر کی وجہ سے پینتیس ارب روپوں کانقصان ہوچکا ہے۔ وہ یہ بھی بتا رہے تھے کہ ان کے لگائے ہوئے منصوبوں کی فی میگا واٹ کاسٹ نیپرا کی منظور کی ہوئی کاسٹ سے ایک منصوبے میں پچاس فیصد اور دوسرے میں پچاس فیصد سے بھی کم تھی۔ یہ بات ریکارڈ کا حصہ ہے کہ بجلی کے ان کارخانوں سمیت دیگر حکومتی معاملات میں کرپشن کا کوئی ٹھوس کیس موجود نہیں، جو کچھ کاروباری معاملات پر ہے وہ عدالتوں میں ثابت نہیں ہو رہا۔

بات شہباز شریف کی حکمت عملی کی ہورہی ہے جس کے بارے سوال تھا کہ کیا انہیں کوئی ٹھنڈی ہوا مل رہی ہے اوراس کے لئے واقعاتی دلیل یہ بھی ہے کہ ان کی پارٹی کے تمام رہنما اس وقت نیب کے چنگل سے باہرنکل آ ئے ہیں تو اس کا ایک جواب یہ تھا کہ کیا پی ٹی آئی کا کوئی رہنما نیب کے شکنجے میں آیا ہے سوائے سبطین خان اور عبدالعلیم خان کے، ایک طرف سے آوازآئی کہ یہ دونوں وزارت اعلیٰ کے امیدوار بن رہے تھے۔ دوسرا جواب زیادہ تفصیلی اور منطقی تھا اور ایک سوال کے ساتھ ہے کہ انہیں اس حکمت عملی کا ذاتی طور پر کیا فائدہ ہوا۔ وہ خود اس دور میں دو مرتبہ جیل ہو آئے، ان کے بیٹے کو طویل ترین جیل برداشت کرنا پڑی اور اب بھی وہ نیب سے ایف آئی اے تک ہر ادارے کا سامنا کر رہے ہیں۔ کارکردگی اور خدمات پرخراج تحسین کے بجائے اپنے اور پرایوں کی طرف سے کردارکشی کاسامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مفاہمت کا مطلب کمپرومائز نہیں مگر ایک ری کنسی لی ایشن، ضرور ہے جس کے بغیر ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔ جہاں تک اس سوچ کے بعد پیشکشوں کا سوال ہے تو وہ غلام اسحق خان کے دور سے ہو رہی ہیں اور پرویز مشرف کی پیش کش بھی ریکارڈ کا حصہ ہے مگر وہ نواز شریف کو اپنا بھائی ہی نہیں بلکہ لیڈر بھی مانتے ہیں، اور یہ کہ، ان کی یہ سوچ قبر تک ان کے ساتھ ہی جائے گی۔

میری ملاقات میاں نواز شریف کے بااعتماد دوست، بزرگ صحافی سے ہوئی، انہوں نے کہا، شہباز شریف ایک بہترین ایڈمنسٹریٹر ہے مگر وہ ایڈمنسٹریٹر شپ بھی اپنے بھائی کی قیادت کے نیچے ہے۔ شہباز شریف، سیاستدان نہیں ہے۔ انہوں نے دلیل دی کہ مریم نواز خیبرپختونخوا کے جلسے میں نہیں گئی تو وہاں میلہ مولانا فضل الرحمان نے لوٹ لیا۔ میں نے بصد احترام ان سے کہا کہ اگر شہباز شریف اتنا ہی فضول سیاستدان ہے تو آپ کے دوست نے اسے پارٹی صدر کیوں بنا رکھا ہے، آپ پالیسی سے کھلم کھلا اختلاف پر اسے پارٹی سے نکال باہر کیوں نہیں کرتے۔ وہ مسکرا کر بولے، یہ ممکن نہیں ہے۔ میں بھی جانتا ہوں کہ یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ نواز لیگ کے پاس عوام کے سامنے سب سے بڑی دلیل ہی شہباز شریف کی محنت ہے۔ نواز لیگ یہ بھی جانتی ہے کہ وطن کی اس مٹی سے کل کلاں اس کے لئے کوئی چشمہ نکلے گا تو وہ شہبازشریف کے ایڑیاں رگڑنے سے ہی نکلے گا، جیسے جیلوں سے راستے نکلے اورجاتی امرا سے لندن تک چلے گئے۔ یہ بات پارٹی کا ہی ایک میڈیا سیل چاہے نہ سمجھے مگر اقتدار میں بیٹھے ہوئے عمران خان ضرور سمجھتے ہیں لہٰذا ان کا ٹارگٹ نواز اور مریم نہیں بلکہ شہباز شریف ہے جس کے بارے بلاخوف ارادے ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ اسے کسی نہ کسی کیس میں سزا سنوا کے نااہل کروایا جائے، عندیہ بہت ساروں کے سامنے دیا جا چکا ہے مگر مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے، وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran