جسٹس منصور علی شاہ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اعزاز میں الوداعی ریفرنس میں شرکت نہ کرنے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے لکھا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ شتر مرغ کی طرح سر ریت میں رکھے عدلیہ پر بیرونی دباو اور اثرات سے لاتعلق رہے، انہوں نے عدلیہ میں مداخلت کے راستے کھول دئیے بلکہ اس پر ملی بھگت کے مرتکب رہے۔ عدلیہ کا چیک اینڈ بیلنس نہیں رکھا۔ عدلیہ کو کمزور کرنے والوں کو گراؤنڈ دی۔ عدلیہ کا دفاع کرنے کی ہمت نہیں دکھائی۔ ان کی نظر میں عدلیہ کے فیصلوں کی کوئی قدر اور اہمیت نہیں، انہوں نے شرمناک انداز میں کہا کہ عدلیہ کے فیصلوں پر عمل نہ کیا جائے۔ قاضی فائز عیسیٰ نے ساتھی ججز میں تفریق پیدا کی۔ میں ایسے چیف جسٹس کے ریفرنس میں شرکت نہیں کر سکتا۔
میں نے اس خبر کو بار، بار پڑھا اور سوچتا رہا کہ جسٹس منصور علی شاہ کس عدلیہ کی بات کر رہے ہیں، وہ عدلیہ جس کے چہرے پر ایک وزیراعظم کو قتل کرنے، بہت ساروں کو گھراور جیل بھیجنے کی کالک ملی ہوئی ہے اور اس کالک کو بہت حد تک قاضی فائز عیسیٰ نے ہی صاف کرنے کی کوشش کی۔ میں نے بھٹو شہید کے نواسے کو قاضی فائز کی تعریف کرتے دیکھا تو بطور پاکستانی اطمینان ہوا اور کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ ہم سب ذوالفقار علی بھٹو کو شہید کیوں کہتے ہیں۔ ظاہر ہے وہ کوئیجنگ لڑتے ہوئے نہیں مارے گئے تھے۔
میں یہ بھی سوچتا رہا کہ وہ کس بیرونی دبائو کی بات کر رہے ہیں، اس بیرونی دبائو جس کی بنیاد پر جسٹس منیر سے لے کر ارشاد حسن خان تک آمریتوں کو جواز دیتے رہے یا وہ دباو جس کے تحت جج رات گئے تک بیٹھ کے ملزم کا انتظار کرتے رہے، ملزم کے لئے ججز گیٹ کھولے جاتے رہے، انہیں دیکھ کے گڈ ٹو سی یو کہا جاتا رہا۔ وہ کن فیصلوں کی قدرا ور اہمیت کی بات کر رہے ہیں جو آئین اور قانون سے ماورا تھے۔ جج، آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرنے کا حلف اٹھاتے ہیں۔ وہ کسی طور پر بھی پارلیمنٹ پر نہ تھانے دار ہوتے ہیں اور نہ ہی وزرائے اعظموں کیلئے جلاد۔
قاضی فائز عیسیٰ نے متنازع اور متضاد عدالتی فیصلوں پر کہا تھا کہ ہمیں آئین اور قانون کی اتباع کرنی ہے ان فیصلوں کی نہیں۔ مجھے افسوس ہوا کہ ان ججوں کو تو عزت اور احترام دے سکتے ہیں جن کمپیوٹرائزڈ بیلیٹنگ میں بھی سب سے قیمتی پلاٹ نکل آتے ہیں مگر اس چیف جسٹس کو عزت نہیں دے سکتے جو اپنا وراثتی قیمتی پلاٹ ریاست کو دے دیتا ہے۔ وہ جج قابل احترام ہیں جن کے بھانجے اور بھتیجے جوڈیشری میں ڈن بیسز، پر کیسز لینے کی بدترین رسم لاہور سے ہی شروع کرتے ہیں مگر وہ نہیں جو دھڑے بندی پر نہیں جاتا، جو اپنے ٹاوٹ وکیل نہیں رکھتا جو اس کے مفادات کے لئے رٹیں دائر کرتے ہیں۔
چلیں، پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے ججوں کی تعیناتی اگر غلط ہے تو کیا ججوں کے ذریعے ججوں کی تعیناتی درست تھی۔ کیا اس کے ذریعے وکلا کے کچھ دھڑوں اورکچھ چیمبروں سے ججوں کی بھرمار نہیں ہوتی رہی۔ میں پھر بات کروں گا کہ کون سی مداخلت، مداخلت تو پارلیمنٹ میں ہوتی رہی، اس کے قانون سازی اور آئین سازی کے حق تک کو چند جج سبوتاژکرتے رہے اور اب اگر پارلیمنٹ نے اپنے آئینی اور قانونی اختیارات میں مداخلت کو روکنے کے لئے ایک دیوار بنائی ہے تو یہ مداخلت نہیں ہے، عشروں کی زیادتیوں سے کشید کی گئی دانائی ہے۔
قاضی فائز عیسیٰ کے رخصت ہونے پر سوشل میڈیا میں جس قسم کی مہم چلائی گئی۔ ایک سابق سپیکرقومی اسمبلی کسی یوٹیوبر کی طرح اس بیکری میں جاپہنچے جس کے ایک ملازم نے چیف جسٹس کے ساتھ بدتمیزی کی تھی۔ جسٹس منصور علی شاہ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو شتر مرغ کہنے پر جس قسم کی سوشل میڈیا پوسٹس بنائی گئیں۔ ان سب کے تانے بانے ایک ہی طرف جا رہے ہیں کہ اس کے پیچھے ایک ہی سیاسی سوچ اور ایک ہی گروہی مفاد ہے۔ افسوس، اس پوری مہم میں معیار نہیں، وقار نہیں، ظرف نہیں۔
ہمارے پورے معاشرے کی طرح ہماری عدلیہ بھی تقسیم ہوچکی ہے۔ بُری طرح سیاست زدہ ہوچکی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ہمارے جج تقسیم نہ ہوں۔ میں نے ایک سے زائد پروگرام کئے اور کئی کالم لکھے جن میں جسٹس منصور علی شاہ کے لاہور ہائیکورٹ میں کمپیوٹرائزیشن سے سپریم کورٹ کے جج کے طور پر فیصلوں تک کی تعریف کی مگر میری ان سے قلبی وابستگی تب تک ہی تھی جب تک وہ پروفیشنل ازم اور ماڈرن ازم کے نقیب رہے۔
میں کسی ایسے فیصلے کی کیسے حمایت کرسکتا ہوں جو آئین اور قانون سے باہر ہو۔ مجھے بہت احترام سے کہنا ہے کہ اگر وہ سمجھتے تھے کہ پی ٹی آئی کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اور یہ کہ پی ٹی آئی کو ریلیف دیا جائے تو انہیں کم از کم اپنی فیس سیونگ کے لئے پی ٹی آئی کو فریق ضرور بناناچاہئے تھا۔ آپ کی نظر میں قانون اور ضوابط اہم نہیں ہوں گے لیکن ان دو کے بغیر ریاست جنگل بن کے رہ جائے گی۔
مجھے اس کی مثال یوں دینی ہے کہ اگرکسی الیکشن میں ہفتے کی شام پانچ بجے تک کاغذات جمع کروانے کا وقت ہے تواتوار کو کاغذات نامزدگی لانے والا اپنی اور ججوں کی نظر میں کتنا ہی مقبول کیوں نہ ہو، الیکشن کے لئے نااہل ہے۔ اگر ہم نے ججوں کے پرسپیشن، اور کانشئیس، پر ہی فیصلے کرنے ہیں تو پھر نہ کسی آئین کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی قانون کی۔ پھر ہمارے ان محترم ججوں کی طرح وہ تمام فوجی آمر بھی بالکل درست تھے جو اپنے تصور اور ضمیر کے مطابق ملک کو بچانے کے لئے مارشل لا لگا دیتے ہیں۔ آئین معطل کر دیتے تھے اور پارلیمنٹ توڑ دیتے تھے۔
جب میں یہ الفاظ لکھ رہا ہوں تو سپریم کورٹ کی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی میں ایک بار پھر جسٹس منیب شامل ہوچکے ہیں اور اس پر تحریک انصا ف والے بھنگڑے ڈال رہے ہیں۔ کیسز کو مقرر کرنے والی کمیٹی میں اب پھر اس سوچ کی اکثریت ہے جس نے مخصوص نشستوں کے کیس کے تفصیلی فیصلے اوراس پر نظرثانی کی اپیل کو لٹکائے رکھا۔ مجھے لگتا ہے کہ عدلیہ جس سیاسی محاذ آرائی سے ابھی نکلی ہے وہ ابھی جاری رہے گی۔ ایک دریا عبور ہوا ہے، کئی دریا ابھی سامنے ہیں۔ ہماری اعلیٰ عدالتوں سے انصاف کی فراہمی کی خبروں بجائے پولیٹیکل بریکنگ نیوز نکلتی رہیں گی۔
عدلیہ، مقننہ کو زیر کرنے کی کوشش کرے گی۔ یہ ان لوگوں کے لئے خوشخبری ہے جو پاکستان میں مسلسل عدم استحکام چاہتے ہیں، اداروں کو تباہ کرنا چاہتے ہیں چاہے وہ تباہی نو مئی کے حملوں کی صورت ہی کیوں نہ ہو، وہ چاہتے ہیں کہ اگر وہ اقتدار میں نہیں ہیں تو پاکستان پرایٹم بم گرا دیاجائے۔
عدلیہ جیسے محترم اور معزز ادارے میں ڈسپلن پاک فوج میں لیفٹیننٹ جنرلز کے طریقہ کار پر عمل کرنے سے ہی قائم ہوسکتا ہے۔ وہاں کی روایت ہے کہ اگر جونئیر کو سربراہ مقرر کر دیا جائے تو سینئرز مستعفی ہوجاتے ہیں۔ جس بھی ادارے میں یہ روایت نہیں ہوگی وہ تضادات کا شکار رہے گا۔ اس میں گروپ بندی رہے گی۔