اگر آپ ٹک ٹاک کے حق میں بات کرنے پر فحاشی سے کفر تک کا کوئی فتویٰ دینا چاہتے ہیں ضرور دیجئے مگر یہ ضرور دیکھ لیجئے کہ ٹی وی، کمپیوٹر، فون اور اس طرح کی دوسری بہت ساری ایجادات کے خلاف دئیے گئے فتوے آج کہاں ہیں۔ میں انکار نہیں کرتا کہ ٹک ٹاک پر ایسا مواد موجود ہے جو ہمارے مذہبی احکامات اور معاشرتی روایات کے خلاف ثابت کیا جا سکتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب مواد اس سے پہلے ٹیلی ویژن کی سکرینوں، سینما گھروں، یوٹیوب اور فیس بک کی ویڈیوز پر نہیں ہے تو پھر ٹک ٹاک پر الگ سے کیا اعتراض ہے۔ اگر آپ نے اعتراض کرنا ہے تو اس ٹیکنالوجی پر کیجئے جو تیزی سے ہم سب کے گھروں کو لپیٹ میں لیتی جا رہی ہے بلکہ علم سیاسیات کا طالب علم ہونے کی حیثیت سے میں چاہوں گا کہ ہم سب ریاست کی آزادی کی اکیسویں صدی کے باقی آٹھ عشروں کے لئے کوئی نئی تعریف وضع کریں کیونکہ ٹیکنالوجی نے جغرافیائی حدود کو پامال کر کے رکھ دیا ہے، یہ درست ہے کہ اس وقت بھی دوسری ریاستوں کی حدود میں جسمانی مداخلت نہیں ہوسکتی مگر یہ پابندی بھی کتنی دیر تک ہے اور دوسرے جب آپ دلوں اورذہنوں کو مسخر کر لیتے ہیں تو پھر جسموں کو تسخیرکرنے کی کیا ضرورت ہے؟
مجھے جذباتیت سے ہٹ کر، موضوع بتاتی ہوئی کالم کی سرخی کے باوجود ایک اصول پر بات کرنی ہے۔ دنیا گلوبل ویلج بن چکی، بیسویں صدی میں ٹیکنالوجی کا سورج طلوع ہو چکا، اب اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اپنی آنکھیں بند کر کے سورج کے ہونے سے انکار کر دیں گے، اس کی روشنی اپنے صحن میں نہیں آنے دیں گے تو آپ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ آپ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیجئے یااپنا سر ہی ریت میں چھپا لیجئے سورج نے طلوع ہونا ہے تو پھر کیوں نہ یہ سوچا جائے کہ اس روشنی سے فائدہ کیسے اٹھا یا جا سکتا ہے اور اس کے مضر اثرات سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔ ہم اپنے صحن سایہ دار کر لیں اور اپنے بچوں کو بتائیں کہ سورج کی روشنی انہیں جھلسا سکتی ہے تو یہ کامن سینس ہے لیکن اگر ہم یہ حکم صادر کر دیں کہ اے سورج تو نے نکلنا ہی نہیں ہے تو لوگ ہمیں پاگل سمجھیں گے۔ بات صرف ٹک ٹاک کی نہیں ہے بلکہ یہ اپنے ساتھ ماضی کے بہت سارے تجربات اور احکامات جوڑے ہوئے ہے۔ کیا آپ نے ٹی وی کے بعد وی سی آر کا راستہ روک لیا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ جب ہمارے پاس وی سی آر نہیں تھا تو ہم چار فلموں کے ساتھ اسے کرائے پر لایا کرتے تھے اور وہ دن ایسا خوشی بھرا ہوتا تھا جیسے عید ہو۔ وی سی آر کو ہمارے مولوی اور بزرگ ہمارے گھروں سے نہیں نکال سکے مگر اسے اس سے بھی جدید ٹیکنالوجی نے نکال دیا۔ اب کوئی ایسا گھر نہیں جہاں وی سی آر ہو بلکہ وی سی آر کی جگہ لینے والی ڈی وی ڈی بھی متروک ہوچکی، اب وہ سب کچھ ایک یوایس بی میں آتا اور پلے ہوجاتا ہے اور مجھے نہیں علم کہ اس کی زندگی کتنی ہے۔
میں عدالتوں کا احترام کرتا ہوں مگر حیران بھی ہوتا ہوں کہ سندھ ہائی کورٹ سے پہلے لاہور اور پشاور کی ہائی کورٹس اس پر پابندی لگا چکیں اور پھر اٹھا چکی ہیں یعنی ایک ہی کام ہر ہائی کورٹ سے الگ الگ ہو گا اور اس کا اطلاق پورے ملک پر ہو گا۔ میں قانون کے ماہرین سے جاننا چاہتا ہوں کہ ایک صو بے کی ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار باقی صوبوں تک کیسے ہو سکتا ہے اور اگر ہو سکتا ہے تو ایک ایسا حکم بار بار کیسے جاری ہوسکتا ہے جو پہلے ریورس ہو چکا ہو۔ ایک دوسرا سوال اس سے بھی اہم ہے کہ اس وقت ایسی تمام تفریحی ایپیس اپنے شائقین کو آفرز کر رہی ہیں کہ وہ اس ایپ کی مارکیٹنگ کریں اور اسی روپوں سے چار ہزار روپوں تک کما لیں یوں ذہن سوچتا ہے کہ اگر ایک ایپ اپنی مارکیٹنگ کے لئے اتنا بجٹ خرچ کر سکتی ہے تو دل بدگمان ہوتا ہے کہ وہ اپنی مخالف ایپ کو بین کروانے کے لئے کتنا پیسہ خرچ کر سکتی ہے۔ یہ ایک مشکوک معاملہ ہے جو بار بار اخلاقیات اور سماجیات کے نام پر ہو رہا ہے۔ میں پھر کہتا ہوں کہ اگر ٹک ٹاک اخلاقیات اور سماجیات کے لئے اتنی ہی بری ایپ ہے تو پھر سنیک ویڈیوزیا یوٹیوب اور فیس بک کی شارٹ ویڈیوز کیوں نہیں ہیں۔ میں نے خود اسے ٹک ٹاک بین ہونے کے احکامات کی خبریں سننے کے بعدسنیک ویڈیوز کو انسٹال کیا ہے یوں یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک تفریحی ایپ کو بین کرنے کا منطقی مطلب اس طرح کی دوسری تمام ایپس کی مارکیٹنگ ہے۔
ایک سوال یہ بھی کیا جاتا ہے کہ ٹک ٹاک اتنی اہم کیوں، کیا زندگی اس کے بغیر نہیں گزر سکتی تو میرا جواب ہے کہ بالکل گزر سکتی ہے بلکہ آپ چاہیں تو زندگی کسی غار میں اصحاب کہف کی طرح سوتے ہوئے بھی گزار سکتے ہیں، ہوسکتا ہے کہ جب آپ کئی سو برس بعد سو کر اٹھیں تو یہ دنیا کسی ایٹمی جنگ کے نتیجے میں تباہ ہوچکی ہو اور وہاں ٹک ٹاک کیا بجلی تک نہ ہو۔ یہ تمام تر دلچسپی اور ٹیلنٹ کا معاملہ ہے کہ اگر آپ کی دلچسپی نہیں تو پھر یہ سب بے کار ہے لیکن اگر آپ کی دلچسپی ہے تو یہ بہت اہم ہے۔ ٹک ٹاک نے ان لوگوں کو اپنا ٹیلنٹ منوانے کا موقع دیا ہے جو اس سے پہلے پروڈیوسروں اور ڈائریکٹروں کے تلوے چاٹا کرتے تھے مگر کسی ڈرامے میں ایک انٹری بھی نہیں ملتی تھی۔ ٹک ٹاک نے ٹیلنٹڈ عوام کو سٹار بنایا ہے اور بغیر کسی پرچی کے بنایا ہے۔ چھوٹی چھوٹی ویڈیوز میں ہنسے کھیلتے میاں بیوی، باپوں کے ساتھ بیٹے اور بیٹیاں، کچھ دوست آپ کو کیا کہتے ہیں، ہاں، جو مٹھی بھر لوگ قابل اعتراض کانٹینٹ جنریٹ کرتے ہیں ان کو رپورٹ کرنے اور انہیں بین کرنے کا آپشن ہونا چاہئے مگر خد ا کے لئے ٹیکنالوجی کی مزاحمت کی روش کو ختم کیا جائے بلکہ اس سے فائدہ اٹھانے کے راستے اور طریقے سوچے جائیں۔ کیا یہ دلچسپ نہیں کہ وہ تمام مولوی جو یوٹیوب کے بھی خلاف تھے اب ان کے فرمودات اسی یوٹیوب کے ذریعے اس سے ایک لاکھ گنا عوام تک پہنچ رہے ہیں۔ میں نے ہزار، ہزار کے اجتماع کو بڑی کامیابی قرار دینے والے مولویوں کے ویڈیوز کے دس، دس لاکھ سے بھی زیادہ ویوز دیکھے ہیں۔
اگر آپ میرے دلائل سے متفق نہیں تو براہ مہربانی ہائیکورٹ جائیے اور وہاں چھری پر بھی پابندی لگوا دیجئے کہ اس کے ذریعے سینکڑوں قتل ہوچکے، سڑکو ں پر حادثات کو بنیاد بنوا کر گاڑیاں ہی بند کروا دیجئے، مدرسوں کی ویڈیوز کے بعد مدرسوں کو تالے لگوا دیجئے، میاں بیوی پورے ملک میں لڑتے ہیں اور طلاقیں لے لیتے ہیں جن کا بچوں پر برا اثر پڑتا ہے تو نکاح ہی بند کروادیجئے۔ شہباز شریف کی تقریر کے دوران ہونے والے ہنگامے کی بنیادپر قومی اسمبلی کو تالے لگوا دیجئے۔ آپ کہیں گے کہ یہ سب ضروریات ہیں تو میں کہوں گا تفریح بھی ضرورت ہے اور ٹیکنالوجی بھی ناگزیر ہے۔ بسنت جو سکہ بندقاتل بن چکی، اس کے سوا، اپنی معاشرتی اور اخلاقی حدود پر عمل کو قانون کے ذریعے ممکن بناتے ہوئے سب کچھ بند کردو، کی سوچ سے باہر نکلیں۔