میں جانتا ہوں کہ یوسف رضا گیلانی کی فتح کے سامنے سوالیہ نشان ہیں کہ اضافی حکومتی ووٹ کہاں سے آئے مگرمیں یہ بھی جانتا ہوں کہ لوہے کو لوہا ہی کاٹتا ہے، لوہے کے مقابلے میں ریشم بنو گے تو تمہارا ریشہ ریشہ ادھیڑ کے رکھ دیا جائے گا۔ جب آپ ڈنڈا برداروں کے سامنے مار کھانے والوں کو صبر، تحمل، شرافت اور برداشت کا مشورہ دیتے ہیں تو آپ مزید ڈنڈے پڑوا رہے ہوتے ہیں، دانت اور ہڈیاں تڑوا رہے ہوتے ہیں۔ جوڈو کراٹے کے مقابلے میں آپ کیکلی ڈال کر اور ٹپے گا کر کامیاب نہیں ہوسکتے وہاں آپ کو بھی جوڈو کراٹے ہی کرنے پڑتے ہیں۔ جنگل میں صرف ایک قانون ہوتا ہے اور وہ طاقت کا قانون ہوتا ہے یعنی جس کے پاس جو کرنے کی طاقت ہے وہ کرگزرے۔
میں نے اپنے پچھلے کالم میں بھی لکھا کہ اقتدار کے ایوانوں میں زلزلہ طاری تھا، وہ خوف سے کانپ رہے تھے، ہار کے ڈر سے لرز رہے تھے۔ وہ کبھی اِدھر ہاتھ مارتے تھے اور کبھی اُدھر ہاتھ مارتے تھے۔ ہم صحافتی اور سیاسی تجزیہ نگاروں کو علم نہیں تھا مگر انہیں علم تھا کہ وہ اپنے ہی ارکان اسمبلی کا اعتماد کھو چکے ہیں۔ جناب عمران خان کو نظر آ رہا تھا کہ ان کی اڑھائی برس کی رعونت بھری ناقص حکمرانی کا نتیجہ نکلنے کو ہے۔ جناب حفیظ شیخ بھی وزیر خزانہ کب تھے وہ آئی ایم ایف کے وائسرائے تھے۔ ان کے دربار میں پہنچنا اور ان سے اپنے حلقے کے لئے کچھ حاصل کر لینا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی تھا۔ جب وزیراعظم بھی ہوا کے گھوڑے پر سوار ہوں اور وزیرخزانہ سمیت باقی وزراءبھی مختلف آسمانوں پر براجمان، جب ارکان اسمبلی خود کو کمی کمین سمجھنے لگیں تو ردعمل آنا لازمی ہوجاتا ہے کیونکہ یہی ارکان اسمبلی جب حلقوں میں جاتے ہیں تو مہنگائی، بدانتظامی اور کرپشن پر عوامی ردعمل کا سامنا کرتے ہیں۔ میں پی ٹی آئی کے سو سے زائد ان ارکان اسمبلی کو سراہتا ہوں جنہوں نے مجموعی طور پر حکومت کی ناقص ترین کارکردگی اور انفرادی طور پر تمام اہم وزرا کے توہین بلکہ تذلیل آمیز رویوں کے باوجود حفیظ شیخ کو ووٹ ڈالا اور پارٹی ڈسپلن کی پابندی کی ورنہ ابھی تک پی ٹی آئی کو ایک سیاسی پارٹی کہنا، سیاسی پارٹیوں کی توہین ہے کہ سیاسی پارٹیوں میں کم از کم دو اجزا ضروری ہوتے ہیں، ایک قیادت اور دوسرا نظریہ، چلیں مان لیتے ہیں کہ عمران خان کی صورت میں ان کے پاس قیادت موجود ہے مگر نظریہ کیا ہے، کہاں ہے، یاد رکھئے، نفرت اور گالی کو ئی نظریہ نہیں ہوتا اور پی ٹی آئی کی سیاست اب تک صرف اور صرف انہیں دوٹانگوں پر چل رہی ہے۔
جناب عمران خان کو علم تھا کہ ان کے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے لہذا بے اصولی کی سیاست کی ایک لمبی تاریخ رکھنے کے باوجود انہوں نے ووٹ کی حرمت اور پارٹی سے وفاداری کی اصولی باتیں کیں۔ وہ سپریم کورٹ بھی گئے جہاں چار معزز ججوں نے پوری کوشش کی کہ کسی طرح پی ٹی آئی کے ووٹ پی ٹی آئی کو ہی ملیں۔ یہا ں تک کہا گیا کہ اگر کسی پارٹی کے سینیٹر اس کی سیٹوں کے مطابق نہ ہوئے تو الیکشن کمیشن ذمے دار ہو گا یعنی اب الیکشن کمیشن اس امر کو یقینی بناتا کہ پی ٹی آئی کا رکن اسمبلی پی ٹی آئی کے امیدوار کو ہی ووٹ دے۔ الیکشن کمیشن یہ تو کر سکتا تھا کہ وہ ووٹ ڈالنے کے لئے فئیر اینڈ فری ماحول دے مگر وہ یہ کیسے کرسکتا تھا کہ ہر رکن اسمبلی کے سر پر بندوق لے کر کھڑا ہوجائے اور اسے حکم دے کہ وہ مخصوص نام کے علاوہ کسی کو ووٹ نہ دے، جہاں وہ اپنے ضمیر کے مطابق کسی امپورٹڈمغرور امیدوار پرمہر لگائے وہاں جدید ٹیکنالوجی کی مددکی سر پر لگی ہوئی بندوق سے ایک گولی نکلے اور رکن اسمبلی کو موقعے پر سزا دے دے۔ اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جناب عمران خان نے آئینی و غیر آئینی ہر طریقے سے ہر ممکن کوشش کی کہ ہونی کو ٹال دیں، انہوں نے ارکان اسمبلی کو پچاس، پچاس کروڑروپے کی رشوت کی بھی پیش کش کی۔ آخری دودنوں میں ارکان اسمبلی کے باقاعدہ لوٹ سیل لگا دی گئی۔ یہ بات الیکشن سے پہلے ہی واضح ہوچکی تھی کہ بکاو مال صرف پی ٹی آئی میں موجود ہے اور بہت بڑی تعداد میں موجود ہے۔ جب آپ لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانک کر سیاسی جماعتوں میں شامل کرتے ہیں تو ان کے دل اس کے ساتھ نہیں ہوتے صرف مفادات ہوتے ہیں۔ عبدالقادر ٹھیکیدار ہو یا عبدالحفیظ شیخ، ان سب کا پی ٹی آئی کے ساتھ کیا تعلق ہے اور یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کے ایک ناراض رکن کا فقرہ سپر ہٹ ہو گیا کہ ہم چاہتے ہیں کہ عمران خان چاہتے ہیں کہ وہ ہماراسینیٹ کی سیٹ کی صورت میں ہمارا ووٹ بیچیں اور پیسے کھرے کر لیں اور ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ووٹ بکے تو پیسے ہمیں ہی ملیں۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ جیسے پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ نون کو واقعی معنوں میں سیاسی جماعتیں بننے کے لئے ایک ایک مارشل لا برداشت کرناپڑا اسی طرح پی ٹی آئی سیاسی جماعت اسی وقت بنے گی جب وہ ایک مارشل لا کی مار کھائے گی۔ اس میں سے چوری کرنے والے مجنوں بے نقاب ہوں گے اورلہو دینے والے باقی رہ جائیں گے۔ ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں اسی چکی سے پس کرنکلی ہیں۔ یہ بات بھی ثابت ہو گئی کہ ٹیسٹ ٹیوب سیاستدان پچیس برس کی لیبارٹری نشوونما کے بعدبھی حقیقی سیاستدانوں کامقابلہ نہیں کرسکتے۔ دیسی مرغی اور برائلر کا آپس میں مقابلہ ہو ہی نہیں سکتا اورجہاں ہوتا ہے وہاں ایسے ہی نتائج آتے ہیں۔
ویسے ذرا غور کیجئے آئی ایم ایف کے امیدوار حفیظ شیخ کو ایک سیاستدان یوسف رضا گیلانی کے ہاتھوں شکست ہونے کے بعددھاندلی اور چمک کا شور مچانے والے کون ہیں۔ جو اس وقت سیاسی جماعتوں میں ڈسپلن اور سیاسی نظریوں کی حرمت کی بات کر رہے ہیں ان کا اپنا ماضی کیا ہے۔ پارلیمنٹ کی حرمت اور تقدس کی دہائیاں دینے والے آئے کہاں سے ہیں۔ یوں لگ رہا ہے جیسے سنی لیون اور میا خلیفہ دوپٹے کی اہمیت اور ضرورت پر بھاشن دے رہی ہوں۔ دھرنے دے کرایمپائر ایمپائرکی تسبیح کرنے والے اب قومی اسمبلی اور سینٹ کے محافظ بنے ہوئے ہیں۔ یہ اب پارٹیوں سے وفاداری اورڈسپلن کی بات کرتے ہیں مگر جب انہی لوگوں کو غول درغول پی ٹی آئی میں لایا جا رہا تھا کیا تب کوئی نظریہ اور کوئی ڈسپلن فرض نہیں تھا، قومی اسمبلی کے بعد کنگز پارٹی کی پنجاب اسمبلی میں بھی اکثریت تیار کی جا رہی تھی۔ فردوس عاشق اعوان اب چمک کا نام لے رہی ہیں تو جب جہانگیر ترین کا جہاز ارکان الیکٹ ایبلز، امیدواروں اور ارکان اسمبلی کو گھیر گھیر کے لاتا تھا، جہاز میں بیٹھے ہووں کی تصویریں جاری ہوتی تھیں توکیا وہ اس جہازمیں ضمیر کی قیمت لینے کے لئے بیٹھتے تھے یا اس میں وہ تبلیغی جماعت کا چلہ کاٹنے جا رہے ہوتے تھے۔ سینیٹ کے انتخابات اور اس کے بعد چئیرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتمادمیں جب اپوزیشن کے ارکان کو غائب کروایا گیا تھا توتب ووٹ اورمینڈیٹ کی کوئی حرمت نہیں تھی۔ پی ٹی آئی محاورے والا وہ روایتی بابا ہے جس نے اپنی باری فل مزے لئے ہیں مگر جب دوسروں کو مزے لیتے ہوئے دیکھ رہا ہے اور خود سے کچھ ہونہیں پا رہا تو شکایتیں لگا رہا ہے، جی ہاں، جب پی ٹی آئی پر بات آئی ہے تو اس نے پنجابی کے مشہور محاورے والی حالت ہونے پر نیاز بانٹنی شروع کردی ہے۔