ماڈل ٹاون، پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کے باہر پولیس کی سیدھی گولیوں سے مرنے والوں کو سات برس گزر گئے مگر اڑھائی ہزار سے زائد دنوں میں ان کے اصل قاتلوں کی نشاندہی نہیں ہوسکی، بات اپنے وقت کے آرمی چیف تک بھی پہنچی اور چیف جسٹس تک بھی، یہ بھی ہوا کہ طاہر القادری کے سیاسی کزن عمران خان کی طاقتور حکومت قائم ہوئے بھی ایک ہزار سے زائد دن گزر گئے مگر سانحہ ماڈل ٹاون کا معاملہ جہاں ان کی حکومت سے پہلے تھا، آج بھی وہیں کھڑا ہے یا شائد اس سے بھی کچھ پیچھے۔ میں قانونی موشگافیوں کو نہیں جانتا، مجھے نہیں علم کہ کتنی جے آئی ٹی بنیں اور کتنے عدالتی کمیشن، مجھے یہ بھی ذکر نہیں کرنا کہ کس کس نے کیا کیا وعدے کئے کیونکہ میں جانتا ہوں کہ اس ملک میں اگر آپ نے وزیراعظم کو بھی نکالنا ہے اور آپ اس پر کوئی ابہام نہیں رکھتے تو آپ اسے سات ہفتوں میں نکال سکتے ہیں اور جہاں آپ نے حقائق تک نہیں پہنچنا وہاں آپ سات برسوں میں بھی نہیں پہنچیں گے۔
میں ذاتی طورپر پاکستان عوامی تحریک کی سیاسی حرکیات سے اتفاق نہیں رکھتا اور مجھے اس کے سربراہ جناب طاہر القادری کے حوالے سے بھی بہت سارے تحفظات ہیں۔ میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ انہیں اپنے گھر کے باہر لگے ہوئے بیرئیرز کو بچانے کے لئے اپنے کارکنوں کو بلانا اوردرندہ صفت پولیس کے آگے نہیں پھینکنا چاہئے تھا مگر انہوں نے یہ سب کچھ کیامگر ان کے یہ سب کچھ کرنے کے باوجود حکومت اور پولیس کے پاس یہ اختیار ہرگز نہیں تھا کہ وہ کارکنوں پر سیدھی گولیاں چلادیتی۔ میں گذشتہ برس بھی منہ پر گولیاں کھا کر شہید ہونے والی تیزیلہ کی بیٹی بسمہ اور وارثوں سے ملا۔ تنزیلہ اب بڑی ہوچکی ہے، پہلے سے بھی بہتر بولتی ہے، وہ پاکستان عوامی تحریک کا ایک بہت بڑا اثاثہ بن چکی ہے۔ دوسری طرف مسلم لیگ نون کے کارکن ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ سانحہ ماڈل ٹاون ان کی حکومت کے خلاف ایک سوچی سمجھی سازش تھی۔ و ہ اس بارے بات کرتے ہوئے بعض اوقات بہت زیادہ پرجوش بھی ہوجاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب رات دو بجے آپریشن شروع ہوا اور صبح گیارہ بجے تک ایک بھی گولی نہیں چلی تو پھر گیارہ بجے کیا ہوا کہ اچانک گولیاں چل گئیں۔ میں ان سے پوچھتا ہوں کہ جس پنجاب اور لاہور پولیس نے گولیاں چلائیں کیا وہ تمہارے وزیر قانون اور وزیراعلیٰ کی ماتحت نہیں تھی۔ وہ جواب دیتے ہیں کہ وزیراعلیٰ نے صبح اس بارے علم ہوتے ہی پولیس کوواپس آنے کا حکم دے دیا تھا مگر پولیس واپس نہیں آئی۔ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ طاہر القادری نے اپنے سیاسی حلیفوں کی مشاورت سے اس واقعے کی جو ایف آئی آر کٹوائی اس کے پیش نظر صرف اور صرف سیاسی فائدہ تھا، انصاف کا حصول اور قاتلوں تک پہنچنا نہیں تھا۔ میر ی دلی خواہش ہے کہ ہمارے تحقیقاتی ادارے اور عدالتیں اصل قاتلوں تک پہنچیں جنہوں نے یہ سب کیا او ر پھر انہیں کتے کی موت مارا جائے۔
میں نے اس سے پہلے کہا کہ اگر آپ نے کسی وزیراعظم کو اقتدار سے نکالنے کے بعد جیل بھیجنا ہے تواس کے لئے ایک چھوٹی موٹی عدالت ہی کافی ہے مگر یہاں تو معاملہ بہت بڑی بڑی عدالتوں تک پہنچا ہے اورایسے چیف جسٹسوں تک پہنچا ہے جن کا سیاسی ملزمان کے حوالے سے بغض اور تعصب کوئی ڈھکا چھپا نہیں رہا۔ اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ اگرا س کیس میں نواز یا شہباز شریف کو سزا دی جا سکتی تو پھر انہیں اپنے بیٹے سے غیر وصول شدہ تنخواہ پر نااہل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی کہ ہماری عدلیہ اس سے پہلے بھی ایک سابق وزیراعظم کو محض قتل کے مشورے کے شبے میں پھانسی پر لٹکا چکی ہے۔ میں نے جناب طاہر القادری کی گذشتہ روز کی آڈیو پریس کانفرنس بھی سنی ہے، اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ اچھی تقریر کرتے ہیں، انہوں نے جناب عمرا ن خان کو مخاطب کر کے کہا ہے کہ وہ وہ اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ آپ کی کرسی میں شہدا کا خون بھی شامل ہے۔ مجھے یاد ہے، گذشتہ برس سترہ جون کو میں نے جناب طاہر القادری سے پوچھا تھا کہ آپ نواز شریف دور میں تو احتجاج کرتے رہے مگر اب احتجاج نہیں کرتے توجواب تھا انہیں سپریم کورٹ نے ہدایت کر رکھی ہے کہ احتجاج نہیں کرنا اور یہی ان کے پاوں کی رکاوٹ ہے مگر اب انہوں نے ایک مرتبہ پھر کل سترہ جون کو احتجاج کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ میں ان کے احتجاج کا حامی ہوں، اس قتل عام کا فیصلہ ہونا چاہئے۔
مجھے سب سے بڑی حیرت ہی یہ ہے کہ ہم اس مقدمے میں کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پا رہے اور ان پولیس اہلکاروں کو بار بار سامنے پیش کر دیتے ہیں جو محض گولیاں چلانے کے ملزم تھے، حکم کسی اور کا تھا۔ طاہر القادری کہتے ہیں کہ ملک کے ہزار ہا وکلا ان کے شاگرد ہیں، چیف جسٹس سپریم کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ بھی ان کے شاگرد رہے ہیں، ان کی وکلا کی ٹیم خواجہ طارق رحیم، ڈاکٹر خالد رانجھا، مجید قریشی، چودھری نعیم الدین سمیت دیگر ناموں پر مشتمل رہی ہے۔ ا نہیں اعتزازاحسن سمیت ایسے دیگر وکلا کی معاونت بھی حاصل رہی ہے جو بغض معاویہ کسی بھی انتہا کو جانے کے لئے تیار ہیں تو پھر اس کیس میں مجرموں کو کیفرکردار تک کیوں نہیں پہنچاپا رہے۔ میں نے پاکستان عوامی تحریک کے رہنماوں سے پوچھا کہ اس موقعے پر ٹیلی فون کالز کا ریکارڈ کہاں ہے، بتایا گیا کہ وہ ریکارڈ جمع کروایا جا چکا ہے اوران کے بقول اس میں حکومتی شخصیات کی طرف سے گولیاں چلانے کے احکامات ہیں مگر سچی بات یہ ہے کہ میں نے آج تک ایسی کوئی ریکارڈنگ نہیں سنی اگر ایسی ریکارڈنگز سچ میں موجود ہیں تو انہیں پبلک کیا جانا چاہئے۔ مجھے یہ بھی سمجھ نہیں آتی کہ سانحہ ماڈل ٹاون کے شہیدوں کی تعدادکو بڑھا چڑھا کر چودہ کیوں بیان کیا جاتا ہے، وہ سچ کیوں نہیں بولتے؟
سانحہ ماڈل ٹاون ہوں یا سانحہ ساہیوال، یہ دونوں ہماری تاریخ کے سیاہ ابواب ہیں۔ یہاں ان سیکورٹی اہلکاروں نے ان عوام پرگولیاں چلائیں اور انہیں بے گناہ مارا ہے جو انہیں تحفظ دینے کی تنخواہیں لیتے ہیں۔ سانحہ ساہیوال کا فیصلہ بھی تاریخ کا ایک ایسا باب ہے جس پر میں بطور پاکستانی شرم سے پانی پانی ہوجاتا ہوں۔ ایک سیدھا سادا مقدمہ جس کی ویڈیوز موجود ہیں، جس کے ڈیوٹی پر موجود اہلکاروں کا مکمل ڈیٹاموجود ہے یعنی جو گولیاں چلا رہے تھے، جو گولیاں چل رہی تھیں اور جو حکم دے رہے تھے کچھ بھی خفیہ نہیں ہے مگر قاتلوں کو عدم شناخت کی بنیاد پر رہا کیا جا چکا ہے۔ یہی دو واقعات ہی کافی ہیں جن کی بنیاد پر اگر کوئی اس ملک کو چھوڑ کر جانا چاہتا ہے، درسی کتب کے ذریعے ذہن میں راسخ ہوجانے والے نعرے پاکستان زندہ باد کے بجائے تلخ حقائق سے سیکھے جانے والا نعرہ پاکستان سے زندہ بھاگ لگانا چاہتا ہے تو میرے پاس کوئی جواب نہیں، کوئی دلیل نہیں کہ اسے روکوں۔