بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ بشریٰ بیگم 9 ماہ کی جیل کاٹ کروزیرِاعلیٰ ہاؤس خیبرپختونخواہ کی انیکسی میں پہنچ چکیں۔ یہ تجزیہ آگے چل کرکہ بشریٰ بی بی کی رہائی کسی ڈیل کانتیجہ ہے یاڈھیل کا، پہلے میزانِ عدل کومضبوطی سے تھامنے والے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے بارے میں حروفِ چند۔ قاضی صاحب اپنی مدت ملازمت مکمل کرکے گھر سدھار چکے۔ حکمرانوں نے زورتو بہت ماراکہ قاضی صاحب توسیع لے لیں لیکن وہ اِس کے لیے تیار نہیں ہوئے۔
25اکتوبر کواُن کے الوداعی ریفرنس میں سپریم کورٹ کے 21میں سے 16ججز نے شرکت کی جبکہ جسٹس منیب اختر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس اطہرمِن اللہ اور جسٹس ملک شہزاداحمد نے شرکت نہیں کی۔ سینئرترین جسٹس منصورعلی شاہ ریفرنس میں شرکت کرنے کی بجائے 25اکتوبر کوہی عمرے پر تشریف لے گئے البتہ اُنہوں نے ایک خط کی صورت میں ریفرنس میں شرکت نہ کرنے کی وجوہات بیان کیں جن میں قاضی صاحب پر الزامات کی بوچھاڑ کے سواکچھ نہیں تھا۔ شاہ صاحب چیف جسٹس سپریم کورٹ بننے کے لیے تیار بیٹھے تھے لیکن 26ویں آئینی ترمیم اُن کی راہ میں سدِسکندری بن گئی۔ یہی غصہ اُنہوں نے اپنے خط میں نکالا۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے یوں تو قاضی صاحب پرکئی الزامات عائد کیے لیکن اُن کالُبِ لباب اُنہی کے الفاظ میں "چیف جسٹس فائزعیسیٰ نے شُترمرغ کی طرح ریت میں سَررکھ کر عدلیہ میں مداخلت کے دروازے کھول دیئے"۔ عرض ہے کہ قاضی فائزعیسیٰ دَورِ حاضر میں پاکستان کے واحد شخص ہیں جوآئین وقانون کی عملداری کے لیے ڈَٹ کرکھڑے رہے۔ اُن کانقطہ، نظر ہمیشہ یہی رہاکہ وہ عدالتی فیصلوں یا اخلاقیات کومدِنظر رکھنے کی بجائے صرف وہی فیصلہ کریں گے جو آئین میں لکھا ہے۔
قاضی صاحب کے نزدیک سپریم ہمیشہ پارلیمنٹ رہی جوآئین ساز اور اداروں کی ماں ہے اِسی لیے اُنہوں نے پارلیمنٹ کے منظور کردہ پریکٹس اینڈپروسیجر آرڈیننس کودرست قراردیا حالانکہ اِس آرڈیننس کی منظوری سے پہلے ہی "بندیالی کورٹ" اِس پرحکمِ امتناعی جاری کرکے "پھُر" ہوچکا تھا۔ معروف وکیل اور سپریم کورٹ بارکے سابق صدرعلی احمدکرد نے "ایکس" پرلکھا "قاضی فائزعیسیٰ کاایک بڑا احسان قوم کو مظاہرعلی اکبرنقوی اور اعجازالاحسن سے دائمی نجات دلانا ہے"۔
قاضی فائزعیسیٰ پاکستان کی 77سالہ تاریخ کے واحدجج ہیں جنہوں نے سرکاری پروٹوکول لیا نہ بُلٹ پروف بی ایم ڈبلیو گاڑی۔ وہ واحدجج ہیں جنہوں نے نہ صرف سرکاری پلاٹ لینے سے انکارکیا بلکہ بلوچستان میں قائدِاعظم ریزیڈنسی سے ملحقہ ذاتی زمین بھی حکومت کے نام کردی۔ اُنہوں نے چیف جسٹس پاکستان کے اختیارات کم کرکے پارلیمنٹ کے قانون کوتسلیم کرتے ہوئے بنچوں کی تشکیل میں چیف جسٹس کی مناپلی کوختم کیا۔ اُنہوں نے پاکستان کی تاریخِ عدل میں غالباََ پہلی دفعہ سپریم کورٹ کی کارروائی براہِ راست دکھانے کاحکم دیا۔
بندیالی کورٹ آرٹیکل 63-A کی تشریح کرتے ہوئے آئین کو ری رائیٹ کرچکی تھی، وہ قاضی فائزعیسیٰ ہی تھے جنہوں نے اِس فیصلے کو کالعدم قراردیا۔ اُنہوں نے پانامہ میں میاں نوازشریف اور دیگر سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی کے فیصلے کوکالعدم قرار دیا۔ اِس کے علاوہ قاضی صاحب کاکوئی فیصلہ بھی اُٹھاکر دیکھ لیں آپ کوآئینی وقانونی حوالے سے کوئی سقم نظرنہیں آئے گا۔ یہ بات الگ کہ ہم بابارحمتے اور بندیالی کورٹ کے غیرآئینی فیصلوں کے عادی ہوچکے۔
اب پلٹتے ہیں اپنے اصل موضوع یعنی ڈیل یاڈھیل کی طرف۔ کچھ لوگوں کاخیال ہے کہ بشریٰ بی بی کی رہائی ڈیل کانتیجہ ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ یہ رہائی ڈیل نہیں، ڈھیل کانتیجہ ہے۔ وجہ اِس کی ٹکڑوں میں بَٹی تحریکِ انصاف ہے جس میں ایک مضبوط گروپ نَووارد وکلاء کاہے، ایک گروپ کی سربراہی بشریٰ بی بی کے پاس ہے اور ایک گروپ کی قیادت عمران خاں کی بہنوں علیمہ اور عظمیٰ کے پاس ہے۔ یہ تمام گروپس ہمہ وقت آپس میں ہی گھتم گتھا رہتے ہیں۔
تحریکِ انصاف کے سیاستدانوں کووکلاء کے گروپس سے چِڑہے جبکہ بشریٰ بیوی ہونے کے ناطے اور علیمہ خاں بہن ہونے کے لحاظ سے اپنے آپ کو عمران خاں کا سیاسی وارث قرار دیتی ہیں۔ عمران خاں کی رہائی کے لیے تویہ سبھی لوگ بلندبانگ دعوے بھی کرتے ہیں اور احتجاجوں کی دھمکیاں بھی دیتے ہیں لیکن اِس باہمی کشمکش کی وجہ سے عملی طورپر کوئی ریلی کامیاب ہوتی ہے نہ جلسہ۔
لاہور، اسلام آباد اور راولپنڈی کے احتجاج سب کے سامنے۔ بڑھک باز وزیرِاعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور سنگجانی مویشی منڈی جلسے کے بعد 10گھنٹوں تک غائب رہنے کے بعدجب نمودار ہوئے توکہا کہ وہ جہاں تھے وہاں جیمرز لگے ہوئے تھے اِس لیے فون پررابطہ ممکن نہیں تھا۔ کاہنہ مویشی منڈی کے جلسے میں علی امین بَروقت پہنچ ہی نہیں سکااور 4اکتوبر کوڈی چوک اسلام آباد پہنچنے کی بجائے خیبرپختونخوا ہاؤس پہنچ گیا۔ وہاں سے وہ ایسے غائب ہوا جیسے گدھے کے سَرسے سینگ۔ بیس، بائیس گھنٹوں کے بعدوہ اچانک خیبرپختونخوا اسمبلی میں نمودار ہوا جہاں اُس نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ وہ چھپتا چھپاتا بارہ اضلاع سے ہوتاہوا پشاور پہنچا ہے۔
ہم نے توسُن رکھاتھا اور تاریخ بھی یہی بتاتی ہے کہ جیل سیاستدانوں کادوسرا گھر ہوتی ہے لیکن یہ کیسا سیاستدان ہے جوبڑھکیں توبہت مارتا ہے لیکن گرفتاری کے ڈَرسے ہمیشہ پھُر ہوجاتا ہے۔ قصور اُس بیچارے کابھی نہیں کہ اُس کے لیڈر بانی پی ٹی آئی نے خود بتایاتھا کہ مشرف کے خلاف عدلیہ تحریک میں جب اُس کے گھر چھاپا پڑاتو وہ اپنی بہنوں کوگھر میں چھوڑکر 10فُٹ کی دیوار پھلانگ کر پھُر ہوگیا۔ شنیدہے کہ جب زمان پارک میں اُسے گرفتار کرنے کے لیے اُس کے گھرپر چھاپا ماراگیا تووہ باتھ روم میں چھُپ گیا جس کا دروازہ توڑکر اُسے گرفتار کیاگیا۔ اِس کے باوجود بھی "ڈَٹ کے کھڑاہے کپتان"۔
بات ڈیل یاڈھیل سے شروع ہوئی لیکن نکل دوسری طرف گئی تو عرض ہے کہ ہم اِس رہائی کو ڈھیل اِس لیے کہتے ہیں کہ بشریٰ کی رہائی کے اگلے ہی دن علیمہ خاں اور عظمیٰ خاں کو بھی رہا کردیا گیا۔ شنید ہے کہ پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمودقریشی بھی رہاکیے جارہے ہیں تاکہ وہ پی ٹی آئی کے ایک مضبوط فارورڈ بلاک کی قیادت کرسکیں۔ مزیدار بات یہ کہ وکلاء میں بھی 2واضح دھڑے ہیں۔
جمعرات کو ہائیکورٹ کے حکم پرسلمان اکرم راجہ، علی ظفراور فیصل چودھری نے عمران خاں سے ملاقات کی جس میں فیصل چودھری نے عمران خاں کو ڈی چوک احتجاج کے متعلق سب کچھ بتادیا اِس پر تحریکِ انصاف کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے فیصل چودھری کونہ صرف اپنی لیگل ٹیم سے الگ کردیا بلکہ وکلاء کے واٹس ایپ گروپ سے بھی نکال دیا۔ اب شاید زورآوروں کایہ خیال ہوکہ یہ انتشاری ٹولہ باہم جوتم پیزار رہے اور حکمران آرام سے ملک وقوم کی ترقی کے لیے روبہ عمل رہیں۔ اِسی لیے ہم اِن رہائیوں کوکسی ڈیل کی بجائے ڈھیل کانتیجہ قرار دیتے ہیں۔