آج 25 دسمبر ہے، بابائے قوم کا 145 واں یومِ پیدائش۔ یہ دن ہم ہر سال مِلّی جوش و جذبے سے مناتے ہیں، صبح کا آغاز توپوں کی سلامی سے ہوتا ہے۔ اِس دن کی مناسبت سے ہم سیمینارز اور تقاریب منعقد کرتے ہیں۔ مزارِ قائد پر ملٹری اکیڈمی کاکول کا چاک و چوبند دستہ گارڈز کے فرائض سنبھالتا ہے اور سلامی دی جاتی ہے۔ پورا ملک "اے قائدِاعظم تیرا احسان ہے، احسان" جیسے مِلّی نغموں سے گونجتا رہتا ہے۔
سوال مگر یہ ہے کہ کیا گزشتہ 75 سال میں ہم نے کبھی قائد کے فرمودات پر عمل بھی کیا؟ کیا ہمیں قائد کا ایمان، اتحاد اور تنظیم کا سبق یاد ہے؟ انسان ٹھوکریں کھا کر سیکھتا ہے لیکن ہم نے پاکستان کو دولخت کر کے بھی کچھ نہیں سیکھا۔ نہیں معلوم قائدؒ نے یہ کہا تھا یا نہیں کہ اُن کی جیب کے سارے سِکّے کھوٹے ہیں لیکن وقت نے یہ ثابت کیا کہ اُنہوں نے واقعی ایسا کہا ہوگا۔ ہم یہ دن قائد کے فرمودات پر عمل کرنے کے لیے نہیں مناتے بلکہ حقیقت یہی کہ یہ قوم میلوں ٹھیلوں کی شوقین ہے اِسی لیے یہ دن تو پورے تزک و احتشام سے منایا جاتا ہے لیکن اگلے ہی دن "وہی ہے چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی، سو اب بھی ہے"۔
کڑوا سچ یہی کہ قوم کے اندر سیاسی شعور پیدا ہونے ہی نہیں دیا گیا۔ پاکستان کی غالب اکثریت آج بھی دیہاتوں میں بستی ہے جہاں عوام نوابوں، وڈیروں اور جاگیرداروں کے اشارہئ ابرو کے منتظر رہتے ہیں۔ یہ اشرافیہ کا وہی ٹولہ ہے جسے الیکٹیبلز یا جیتنے والے گھوڑے کہا جاتا ہے۔ آپ تینوں بڑی سیاسی جماعتوں (نوازلیگ، پیپلزپارٹی، تحریکِ انصاف) کے قومی و صوبائی اسمبلی کے ارکان کو اکٹھا کر کے دیکھ لیں، آپ کو شاید ہی کوئی ایسا شخص نظر آئے گا جس نے اپنی سیاسی جماعت تبدیل نہ کی ہو۔
ڈال ڈال پھدکنے والے یہ لوگ ہر سیاسی جماعت کو بہت مرغوب ہیں اور ان کے دَر ایسے الیکٹیبلز کے لیے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ جب کوئی "لوٹا" اپنی سیاسی جماعت بدلتا ہے تو اُسے قبول کرنے والی جماعت بڑے فخر سے اُس کا استقبال کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شرم و حیا سے عاری یہ لوگ پارٹی بدلنے میں ذرا بھی جھجک محسوس نہیں کرتے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت اِس "سیاسی گند" سے محفوظ نہیں۔ اِس لحاظ سے "اِس حمام میں سب ننگے ہیں"۔
گھٹنوں کے بَل رینگتی جمہوریت تو پھر بھی قابلِ قبول تھی لیکن پارلیمانی سیاست میں کپتان کی آمد کے بعد غیر پارلیمانی الفاظ کی بھرمار نے سیاست کو ایسا گٹر بنا دیا ہے جس میں سوائے تعفن کے اور کچھ باقی نہیں بچا۔ کپتان کی غیر پارلیمانی زبان کی اثر پذیری کا عالم یہ ہے کہ پارلیمانی اور غیر پارلیمانی الفاظ کی تفریق ہی ختم ہو کے رہ گئی ہے۔ سیاسی اپروچ سے قطع نظر چودھری خاندان کے بارے میں سنا تو یہی تھا کہ وہ اخلاقیات کا دامن کبھی نہیں چھوڑتے۔
چودھری ظہور الٰہی مرحوم کے فرزند چودھری شجاعت حسین کے "مٹی پاؤ" اور "روٹی شوٹی کھا کے جانا" جیسے جملے تو محاوروں کا درجہ اختیار کر چکے ہیں لیکن مونس الٰہی کو پتہ نہیں کس کی "گھُٹی" ہے کہ وہ اپنی عام گفتگو میں بھی آگ اُگلتے اور کپتان کی پیروی میں غیر پارلیمانی الفاظ بولتے رہتے ہیں۔ اُنہیں سیاسی نکتہ نظر رکھنے کا پورا حق ہے لیکن مخالفین کے لیے غیر پارلیمانی الفاظ اور بُرے القاب چودھریوں کا وتیرہ تو کبھی نہیں رہا پھر پتہ نہیں مونس الٰہی کس کی پیروی کر رہے ہیں۔ نہیں سنا کہ حمزہ شہباز نے کبھی مونس الٰہی کو بُرے القاب سے نوازا ہو لیکن مونس الٰہی کبھی اُنہیں"کُکڑی" کہہ کر مخاطب کرتے ہیں تو کبھی کہتے ہیں کہ وہ تو میک اَپ کے بغیر باہر ہی نہیں نکلتا۔
پنجاب کے سیاسی مد و جزر پر بات کرتے ہوئے مونس الٰہی نے کہا "کل رات کو کمال کر دیا ہے کمال کرنے والوں نے۔ گورنر پنجاب نے سی ایم کو کہا تھا کہ اعتماد کا ووٹ لو۔ اعتماد کا ووٹ سپیکر پنجاب اسمبلی نے کرانا تھا۔ اپنی گھبراہٹ میں نون لیگ اور پی ڈی ایم احمقانہ حرکت کر بیٹھے ہیں، اب دوبارہ فلیٹیز ہوٹل میں کُکڑی کو منتخب کرائیں گے"۔
اِس سے پہلے مونس الٰہی غریدہ فاروقی کو "پھپھے کُٹنی" کا لقب بھی دے چکے ہیں۔ رَدِعمل کے طور پر نوازلیگ کے کچھ لوگ اب مونس الٰہی کو "مونث الٰہی" کہہ کر پکارنے لگے ہیں جو کسی بھی صورت میں مناسب نہیں۔ پتہ نہیں یہ سلسلہ کہاں جا کر رُکے گا۔ بہرحال یہ طے کہ ایسے الفاظ کپتان کی دَین ہیں۔
جب سے کپتان "مسترد" ہوئے ہیں، اُنہیں کسی کروٹ چَین نصیب نہیں۔ 8 ماہ سے لَگ بھَگ 80 جلسے کرتے ہوئے اُن کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ اُنہیں دوبارہ وزیرِاعظم بنایا جائے۔ لاہور میں لبرٹی چوک گلبرگ میں احتجاجی اجتماع سے وڈیولنک پر خطاب کرتے ہوئے اُنہوں نے اعلان کیا کہ 23 دسمبر کو پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کر دی جائیں گی۔ اُنہیں غالباً چودھری پرویز الٰہی پر شک تھا اِس لیے اُنہوں نے حفظِ ماتقدم کے طور پر چودھری صاحب سے اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس پہلے ہی لکھوا لی۔
لبرٹی چوک میں وڈیولنک پر خطاب کرتے ہوئے عمران خاں نے اپنے دائیں بائیں پنجاب اور خیبر پختونخوا کے وزرائے اعلیٰ کو بھی بٹھایا ہوا تھا۔ اپنے خطاب میں عمران خاں حسبِ سابق ریٹائرڈ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے خلاف کھُل کر بولے۔
چودھری پرویز الٰہی وہاں تو کچھ نہیں بولے لیکن اگلے ہی دن اُنہوں نے اے آر وائی کے اینکرز کے پینل کو انٹرویو دیتے ہوئے "کھڑاک" کر دیا۔ اُنہوں نے کہا کہ اُس وقت وہ کچھ نہیں کہہ سکے کیونکہ بہت لوگ موجود تھے۔ حقیقت یہ کہ سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کے اُن پر، عمران خاں پر اور پی ٹی آئی پر بہت احسانات ہیں۔ باجوہ صاحب نے پی ٹی آئی کو اُس وقت اُٹھایا جب یہ کچھ بھی نہیں تھی اور بعد میں اُن کی حکومت کی بھی مدد کرتے رہے۔ چودھری صاحب نے کہا "اُنہوں (پی ٹی آئی) نے مذاق بنا لیا ہے۔ کوئی اتنا احسان فراموش ہو سکتا ہے؟
میں نے خود عمران خاں کو بتایا تھا کہ باجوہ صاحب میرے، آپ کے اور پی ٹی آئی کے محسن ہیں۔ پی ٹی آئی کے لوگوں کو حد میں رہنا چاہیے، وہ کوئی اوتار نہیں ہیں۔ اُنہیں اپنی اوقات میں رہنا چاہیے۔ اب اگر پی ٹی آئی نے سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ پر تنقید کی تو میں خود سب سے پہلے اُس پر بات کروں گا اور میری جماعت بھی کرے گی"۔
چودھری پرویز الٰہی نے یہ انکشاف بھی کیا کہ عمران خاں اُن کے بیٹے مونس الٰہی کو وفاقی وزیر نہیں بنانا چاہتے تھے۔ اُنہیں اور اُن کے بیٹے مونس الٰہی کو سابق سربراہ آئی ایس آئی جنرل (ر) فیض حمید کے کہنے پر نیب کے ذریعے گرفتار کرایا گیا۔ جب جنرل قمر جاوید باجوہ نے جنرل فیض حمید سے استفسار کیا تو اُنہوں نے بتایا کہ یہ عمران خاں کا حکم تھا۔ اے آر وائی کے انٹرویو کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہر کہ ومہ کا خیال تھا کہ اب پرویز الٰہی اور عمران خاں کی راہیں جُدا ہو چکیں۔
اتحادی جماعتوں نے تو اس انٹرویو کو مدِنظر رکھتے ہوئے سَر بھی جوڑ لیے لیکن حیرت اُس وقت ہوئی جب عمران خاں نے کہا کہ قاف لیگ الگ سیاسی جماعت ہے اور اُس کا اپنا نکتہ نظر ہے۔ اگلے دن چودھری پرویز الٰہی نے بھی کہہ دیا کہ عمران خاں کے لیے جان بھی حاضر ہے۔ 22 دسمبر کو رات گئے گورنر پنجاب نے وزیرِاعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کر دیا اور اُن کی کابینہ بھی ختم کر دی۔
23 دسمبر کو چودھری پرویز الٰہی نے لاہور ہائیکورٹ میں گورنر کے آرڈر کے خلاف درخواست دی جس پر پانچ رُکنی لارجر بنچ تشکیل دیا گیا۔ لارجر بنچ نے کہا کہ اگر چودھری پرویز الٰہی لکھ کر دیں کہ وہ بحالی کے بعد پنجاب اسمبلی نہیں توڑیں گے تو گورنر کا حکم معطل کیا جا سکتا ہے۔ شام 6 بجے کے بعد جب دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو پرویز الٰہی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے وہ حلف نامہ جمع کرایا جس میں اسمبلی کی تحلیل نہ کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ یوں چودھری پرویز الٰہی اور کابینہ بحال ہوئے اور گورنر کا حکم معطل کر دیا گیا۔
طُرفہ تماشہ یہ کہ ایک طرف تو چودھری پرویز الٰہی 23 دسمبر کو پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس لکھ کر دے چکے جبکہ دوسری طرف لارجر بنچ کو یہ حلف نامہ کہ وہ اسمبلیاں تحلیل نہیں کریں گے۔ اِس کے علاوہ چودھری پرویز الٰہی اے آر وائی کے انٹرویو میں اپنی اتحادی جماعت تحریکِ انصاف کے بارے میں جو کچھ کہہ چکے، اُسے سُن کر کہے بنا نہیں رہ سکتے کہ سیاست کے سینے میں صرف دل ہی نہیں، غیرت بھی نہیں ہوتی۔