کالج یونیورسٹی لیول کی دوستیاں زیادہ دیرپا ہوتی ہیں۔ میں چار سال لیہ کالج تو پھر دو سال ملتان یونیورسٹی ہوسٹلز میں رہا۔ بڑی دوستیاں بھگتائیں۔ اس دور کے دوست ہمیشہ پکے ہوتے ہیں اگرچہ ہائی سکول کے کچھ دوست بھی اس کیگڑی میں آتے ہیں۔ آج بھی میرے لیہ کالج ہوسٹل کا روم میٹ کلاس فیلو ذوالفقار سرگانی 33 سال بعد بھی مجھے ہر موسم دیسی آم اور کھجور بھیجتا ہے کہ اسے علم ہے کہ مجھے پسند ہیں۔
ایک اور روم میٹ کبریا سرگانی کے در دیوار کو ہلا دینے والے قہقے یاد آتے ہیں۔ کبریا سرگانی قہقہ لگاتا تھا تو لگتا پورا ہوسٹل قہقے لگا رہا ہے۔ دسویں جماعت کروڑ سکول کا کلاس فیلو شفیق غزالی آج بھی میرے لیے مٹھائیوں کی اس دکان سے بوندی اور نمک پارے لاتا ہے 37 سال بعد بھی۔ جب کروڑ سکول پڑھتا تھا تو سلیم بھائی روز دس روپے دیتے تھے۔ آٹھ روپے ویگن پر آنے جانے کا کرایہ اور دو روپے بچ جاتے تو میں سکول بعد ویگن اسٹاپ سامنے حلوائی کی دکان سے بوندی اور نمک پارے خریدتا اور ویگن میں کھاتا جاتا۔
یہ سب باتیں مجھے اس وقت یاد آئیں جب آج اٹھا تو میسج آیا ہوا تھا کہ آپ کے نیٹ کا بل ادا نہیں ہوا آج کٹ جائے گا۔ خود کو بستر پر لیٹے لیٹے کوسا۔ ساری عمر یہی سستی کھا گئی کہ ہر کام آخری دن کیا اور اکثر جرمانے بھر کر کیا چاہے وہ کالج یونیورسٹی فیس ہو یا امتحان داخلے فارم کی فیسیں۔
خیر جم جانا تھا تو سوچا دفتر بل دیتا جائوں گا۔ آج کل فائر وال کی وجہ سے آن لائن ادائیگی نہیں ہو رہی۔ دفتر میں ٹکٹ لے کر باری کے انتظار بعد ڈیسک پر گیا تو نوجوان لڑکے نے ID پوچھی تو اس کی آنکھوں میں چمک ابھری۔ وہ بولا آپ جہانگیر بھٹہ کے دوست ہیں؟ میں پانچ سال ان کا فوجی فاونڈیشن سکول میں طالبعلم رہا۔ وہ کلاس میں اکثر آپ کا ذکر کرتے تھے۔ آپ واقعی وہی ہیں؟
جہانگیر بھٹہ کا نام سن کر میرے چہرے پر پہلے مسکراہٹ ابھری پھر اداسی۔ وہی اماں کی سنائی شہزادی کی کہانی یاد آئی جو ایک جن کی قید میں تھی اور بڑے عرصے بعد کسی آدم زاد کو دیکھا تو پہلے ہنسی تو پھر روئی۔ وجہ پوچھی تو بولی تھی عرصے بعد کسی آدم ذاد کو دیکھا تو خوش ہوئی لیکن روئی اس لیے ہوں کہ ابھی جن آکر تمہیں کھا جائے گا۔
مجھے بھی بھٹہ کے نام پر وہی احساس ہوا۔ نام سنا۔ تو مسکراہٹ ابھری لیکن فورا احساس پوا وقت کا جن ہم سب کو روند کر نکل گیا تھا۔ سب دوستوں کو ایک ایک کرکے کھا گیا تھا۔ جہانگیر بھٹہ ہمارا جگر جان تھا یونیورسٹی میں۔ دو سال ہوسٹل اکھٹے گزارے۔ صرف سونے کے لیے ہم سب دوست اپنے کمروں میں جاتے تھے اور کلاس کے بعد باقی وقت کمروں یا کینٹین پر مسلسل بکواس بازی چلتی تھی۔
ایک دفعہ ہماری کسی سے پھڈا ہوا تو جہانگیر بھٹہ نے ایسا ڈائیلاگ بولا یا اسے دھمکی دی کہ ہم کئی دن ہنستے رہے۔۔ اوئے چ۔۔ تمہیں ماچس کی ڈبی میں بند کرکے دریا میں پھینک دوں گا۔
بھٹہ کا نام سن کر ایک لحمے میں وہ دو سال آنکھوں کے سامنے سے گزرے اور وہ تمام دوست جو اب بچھڑ گئے ہیں، شفیق لغاری، اعجاز نیازی، ناصر تھیم، ناصر جعفری، سجاد بری، شعیب بٹھل، بلال سندیلہ، خالد ہاشمی، محمد خالد۔۔ ایک کے بعد ایک نام اور چہرہ آنکھوں سامنے آتا رہا۔ وہ دوپہریں اور وہ شامیں اور ٹھنڈی راتیں اور ہم سب۔
شفیق لغاری نے میرا نک نیم نام استاد رکھا تھا کہ جہاں سب پھنس گئے وہیں کوئی نہ کوئی حل نکال لیتا تھا۔
میں گم سم چپ چاپ بیٹھا ایک خاموش تماشائی کی طرح۔۔ یوں لگا جیسے سامری جادوگر ایک چٹکی بجا کر یہ 33 برس کا سارا وقت اور میرے سارے دوست لے اڑا تھا اور میں خالی ہاتھ بیٹھا اس نوجوان کی پرجوش چمکیلی لیکن تجسس بھری آنکھوں کو دیکھ رہا تھا جو جہانگیر بھٹہ سے میری 33 سال پرانی دوستی کا مجھ سے اعتراف چاہتا تھا۔