سلمان اکرام راجہ صاحب ایک ڈیسنٹ اور سمجھدار انسان ہیں اور سمجھداری والی بات کی ہے۔ اگرچہ پی ٹی آئی کی ٹاپ لیڈرشپ میں عقل کا استعمال ممنوع ہے لیکن پھر راجہ صاحب جیسے بندے بھی ہیں جو ان برے حالات میں بھی عقل اور سمجھ سے کام لیتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے یہ سمجھداری عمران خان کے اندر کیوں نہیں ہے جنہوں نے اپنے ہزاروں ورکرز خیبرپختون خواہ سے منگوا کر انہیں ڈی چوک بھیجا اور اب بہت سارے گرفتار اور تھانوں میں لاوارث پڑے ہیں۔ دو دن کا شو ہوا اور وہ سب پورا سال تھانے جیل کچہریوں کو بھگتیں گے۔ وہ ورکرز ریاستی تشدد کی وجہ سے زخمی بھی ہیں۔
کیا یہ "سمجھداری" صرف سلمان اکرام راجہ اور دیگر پی ٹی آئی لیڈروں کے لیے ہے جنہوں نے اپنے فالورز کو چارج کرکے انہیں ریاستی جبر کے سامنے ڈی چوک میں ڈال دیا کہ مارو یا مر جائو؟ اب ان سینکڑوں ورکرز کا کیا بنے گا جو گرفتار یا ریاستی جبر کی وجہ سے زخمی ہیں۔ کیا پی ٹی آئی کا ہر ورکر اتنا سیانا اور سمجھدار ہوسکتا ہے جتتنے سلمان اکرام راجہ صاحب ہیں؟
یہ حد درجے کی خود غرضی اور ظلم ہے جو پی ٹی آئی لیڈرشپ، ایم این ایز، ایم پی ایز اور دیگر عہدے داروں نے دکھائی ہے۔ خود گھروں میں بیٹھ کر ورکرز کو اکیلے لڑنے بھیج دیا کہ چڑھ جا سولی بیٹا، رام بھلی کرے گا۔ ویسے تو سیاست کا نام ہی اپنے بچوں کو بچانا اور دوسروں کے بچوں کو استعمال کرکے ان کی لاشوں پر حکمران بننا ہے۔ ماریں ورکرز نے کھائیں کل وزیر، ایم این ایز اور عہدے وہ لوگ لیں گے جو کہہ رہے ہیں کہ سمجھداری اس میں تھی کہ کچھ دیر کی نمائی کرکے گرفتار ہو کر جیل میں خاموش بیٹھنے کا فائدہ نہیں ہے لہذا ڈی چوک سے دور رہا جائے۔
سلمان اکرام راجہ اگر ایسی سمجھدارانہ گفتگو کرتے رہے تو ان کا پی ٹی آئی میں زیادہ دیر رہنا مشکل لگ رہا ہے کیونکہ یہاں عقل کا استعمال ممنوع ہے۔ یہاں تو جو جتنی بڑی بھڑک مار سکتا ہے، اپنے بچوں کو اپنے گھر محفوظ رکھ کر دوسرے کے بچوں کو مروا سکتا ہے وہی سکندر ٹھہرتا ہے۔ اپنے جیسے انسانوں پر حکمران بننے کے جنون میں مبتلا لیڈرشپ کے لیے بے رحم ہونا ضروری ہے۔ اقتدار کی اس ہزاروں سال پرانی جنگ میں جہاں اپنی گردن سولی پر قربان کی جاسکتی ہے وہیں تخت کے لیے مخالفوں کا سر لیا بھی جاسکتا ہے۔
کسی بھی پارٹی کے ورکرز اور سپورٹرز، عام لوگ کیسے اپنے لیڈروں کی حاکم بننے کی جنونی خواہشات کا ایندھن کیسے بنتے ہیں وہ راجہ صاحب کی یہ سمجھدارانہ گفتگو پڑھ لیں۔