Ghiza Ki Miqdar
Riayatullah Farooqui92 News712
انسانی فطرت بھی عجیب ہی ہے۔ کہنے کو اس کے نزدیک اس کی صحت ہی اس کا سب سے بیش قیمت اثاثہ ہے لیکن دھیان یہ ان آلات کا زیادہ رکھتا ہے جو اس نے اپنی مختلف ضرورتوں کے لئے خرید رکھے ہیں۔ ان آلات میں چونکہ اس کی گاڑی کو امتیازی حیثیت حاصل ہے سو چلئے گاڑی کو سامنے رکھ کر ہی بات بڑھاتے ہیں۔ جب یہ گاڑی کے لئے ڈرائیور رکھتا ہے تو اسے اس بات کی خصوصی تاکید کرتا ہے کہ اس کا تیل پانی روز چیک کرنا ہوگا۔ تیل پانی چیک کرنے کا مطلب یہ کہ روز صبح باقاعدگی کے ساتھ اس بات کا مشاہدہ کرنا ہے کہ ریڈی ایٹر میں پانی اور انجن آئل، بریک آئل، پریشر آئل کی مقدار پوری ہے یا نہیں؟ اگر پوری ہے تو صد شکر لیکن اگر ان میں سے کسی چیز کی مقدار کم ہے تو اسے پورا کرلیا جائے۔ جانتے ہیں یہ سارا تکلف پوری پابندی کے ساتھ روز کیوں اٹھایا جاتا ہے؟ صرف اور صرف اس لئے کہ گاڑی کی "صحت" ٹھیک رہے۔ گویا اس ضمن میں حضرت انسان اس بات کا انتظار نہیں کرتا کہ گاڑی کھانسی، بخار، پیٹ میں مروڑ یا سر درد کا شکار ہوگی تو وہ اسے اس کے معالج یعنی مکینک کے پاس لے کر جائے گا بلکہ وہ پیشگی گاڑی کی جملہ خوراک پر نظر رکھتا ہے۔ وہ اسے پانی اور ہر طرح کے تیل مطلوبہ مقدار کے عین مطابق دیتا ہے۔ نہ مطلوبہ مقدار سے زیادہ اور نہ ہی کم۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ مقدار کی یہ کمی بیشی اس کی گاڑی کی صحت کے لئے خطرناک ہے۔ پانی کی کمی سے انجن گرم ہوکر کمزور ہوسکتا ہے۔ انجن آئل کی کمی سے انجن سیز ہوسکتا ہے۔ بریک آئل کی کمی سے بریک نہ لگنے کے نتیجے میں کوئی حادثہ ہوسکتا ہے۔ چنانچہ مذکورہ جملہ آفات سے گاڑی کو بچائے رکھنے کے لئے وہ یہ بنیادی کام ہرحال میں انجام دیتا ہے کہ روز صبح اٹھ کر خود یا ڈرائیور کی مدد سے گاڑی کی خوراک کی مقدار پر نظر رکھتا ہے۔ یہ ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ جتنی دیکھ بھال ہم گاڑی کی کرتے ہیں اور جتنی گہری نظر ہم اس کی خوراک کی مقدار پر رکھتے ہیں۔ پیمانوں کے ذریعے باقاعدہ ناپ ناپ کر دیکھتے ہیں کہ مقدار مقررہ حد سے کم یا زیادہ تو نہیں؟ یہی سب ہم اپنی صحت کے معاملے میں بالکل نہیں کرتے۔ ہم نے کبھی اس بات پر سنجیدگی سے غور ہی نہیں کیا کہ ہمارے اپنے وجود کے لئے بھی خوراک کی کوئی مقدار متعین ہے یا نہیں؟ کیا ہم اپنی خوراک کی مقدار کا حساب بھی اتنی پابندی سے رکھتے ہیں جس پابندی کا مظاہرہ ہم اپنی گاڑی کے معاملے میں کرتے ہیں؟ ہمارے جسم کو پروٹین، کیلشیم، وٹامنز، فولاد اور نہ جانے کن کن غذائی اجزاء کی ضروت ہوتی ہے جن کا ایک متوازن مقدار کے ساتھ اسے ملنا ضروری ہے۔ کیا یہ اجزاء ہم اپنے جسم کو مطلوبہ مقدار میں مہیا کر رہے ہیں؟ غذائی اجزاء کا حساب کتاب پھر بھی اس لحاظ سے ایک تفصیلی کام ہے کہ مختلف سبزیوں، دالوں اور پھلوں کی خواص یاد رکھنا اور مطلوبہ غذائی اجزاء کے لئے اپنی خوراک میں ان کا توازن قائم کرنا بہرحال ایک غور طلب کام ہے سو اس میں کمی کوتاہی ایک حد تک قابل قبول ہوسکتی ہے لیکن یہاں تو مسئلہ یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ ناشتے میں انڈہ پراٹھا، دن کے کھانے میں سالن کے ساتھ دو روٹیاں اور دو ہی روٹیاں رات کے کھانے میں یہ سوچے بغیر اپنے پیٹ میں اتار رہے ہیں کہ یہ اتنی ساری خوراک ہمارے جسم کی ضرورت ہے بھی یا نہیں؟ نتیجہ یہ کہ پینتیس سال سے زائد عمر کے اکثر افراد پندرہ سے تیس کلو چربی اپنے جسم پر اٹھائے ہانپ رہے ہیں۔ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو بیس کلو چربی کا وزن سالہا سال سے ڈھو رہے ہیں۔ دس بارہ سال قبل وزن کم کرنے والے ایک ادارے سے رابطہ کیا جس نے اپنی مہنگی دوائیاں اور ایک بیہودہ سال ڈائٹ پلان پکڑا دیا۔ نہ وہ ڈائٹ کام کی تھی اور نہ ہی ادویات، نتیجہ یہ کہ مسئلہ حل نہ ہوا۔ سب سے مقبول ٹوٹکا جو بار بار ملتا رہا، یہ رہا کہ واک کیجئے! واک بھی کرکے دیکھ لی مگر بات بنی نہیں۔ حالیہ عرصے میں دو ممتاز ڈاکٹرز سے اس سلسلے میں مشاورت کی اور اس پر عمل شروع کیا تو انکشاف ہوا کہ وزن کم کرنے کے حوالے سب سے زیادہ گمراہ کن پروپیگنڈہ تو وہ ہے جو ہم خود سنی سنائی بات آگے بڑھا کر کر رہے ہوتے ہیں اور جس کے نتیجے میں وزن کم کرنا دنیا کے چند مشکل ترین کاموں سے ایک بن کر رہ گیا ہے ورنہ فی الحقیقت تو یہ آسان ترین کام ہے۔ نہ اس کے لئے ادویات لینے کی ضرورت ہے اور نہ ہی خود کو بھوکا مارنے کی حاجت۔ اور تو اور ابلی ہوئی سبزیاں اور پھیکے پکوان کھانے کی بھی ہرگز ضرورت نہیں۔ مسئلہ بس اتنا سا ہے کہ ہم نے اپنے جسم کو ناشتے میں انڈہ پراٹھا، دن اور رات میں دو دو روٹیوں کی جو عادت ڈالی ہے یہ غلط ہے۔ اس میں اہم کردار ماں باپ کا ہے۔ جوں ہی بچہ دس بارہ سال کی عمر کو پہنچتا ہے ماں دو دو روٹیاں ٹھونسنی شروع کردیتی ہے۔ بچے سے دو دو روٹیاں نہ کھائی جائیں تو ڈاکٹر کے پاس لے گئے کہ بچہ ٹھیک سے کھاتا نہیں۔ اب اگر ڈاکٹر یہ کہے کہ بھئی ایک وقت میں دو دو روٹیاں تو ایک بڑی عمر کے آدمی کی بھی ضرورت نہیں تو آپ اپنے بچے کو کیوں اس پر مجبور فرما رہی ہیں؟ تو اس صورت میں قبلہ ڈاکٹر صاحب فیس نہیں لے سکتے کیونکہ بچے کو کوئی طبی مسئلہ ہی نہیں تو فیس کس بات کی؟ ۔ چنانچہ ڈاکٹر صاحب سیرپ لکھ کر بچے کی بھوک کو غیر ضروری حد تک بیدار کر دیتے ہیں تاکہ فیس لی جا سکے۔ اور یوں ہم میں سے ہر شخص لگ بھگ اسی طریقہ واردات کے نتیجے میں دو دو روٹیوں اور نہ جانے کتنی کتنی بوٹیوں کا عادی ہوتا چلا گیا ہے۔ اب چونکہ اس خوراک میں خاص طور پر گندم، چاول اور میٹھا ہم اپنی ضرورت سے بہت زیادہ لے رہے ہیں تو نتیجہ یہ کہ یہ اضافی خوراک چربی بن کر ہمیں بھوت کی طرح چمٹ جاتی ہے اور ہمیں لاغر ہی نہیں مستقل امراض کا بھی شکار بھی کردیتی ہے۔ اور امراض بھی چھوٹے موٹے نہیں بلکہ دل، گردے، جگر، لبلبے اور پھیپڑوں کے۔ خوراک میں چار چیزوں کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ میٹھا، گندم، چاول اور وہ مرغن کھانے جو دعوتوں میں سرو ہوتے ہیں۔ میں اپنے معالج کے مشورے کے مطابق ناشتے میں دو ابلے ہوئے انڈے زردی سمیت لے رہا ہوں اور چائے بھی نارمل میٹھی ہی لے رہا ہوں۔ ابلے ہوئے انڈوں سے جی بھرنے لگے تو براؤن بریڈ کے چار سلائس یا جو کا دلیہ لے لیتا ہوں۔ دن میں کھانے کے بجائے سلاد میں کالے چنے مکس کرکے لیتا ہوں اور خوب رج کر کھاتا ہوں۔ رات کے کھانے میں ایک روٹی یا ایک پیالہ چاول لیتا ہوں لیکن سالن ڈبل لیتا ہوں تاکہ بھوک بھی نہ رہے اور گندم یا چاول کی غیر ضروری مقدار بھی پیٹ میں نہ جائے۔ سمجھنے کی بات یہی ہے کہ سالن نہیں گندم، چاول اور میٹھا خطرناک ہے۔ میٹھے سے مراد وہ غذائی اشیا ہیں جن کا مرکزی عنصر ہی چینی ہے۔ مثلا کولڈ ڈرنک، مٹھائیاں، کسٹرڈ اور کھیر وغیرہ۔ اس ڈائٹ پلان میں نہ تو ادویات کی مدد شامل ہے اور نہ ہی بھوکا رہنا پڑتا ہے۔ بس تین چیزوں کو کنٹرول کرکے ان کی جگہ غیر مضر چیزیں بڑھا دی ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ایک ماہ میں چار کلو وزن کم کرچکا اور امید ہے کہ انشاء اللہ تین ماہ بعد باقی ماندہ سولہ کلوچربی سے بھی جان چھوٹ چکی ہوگی۔ جاتے جاتے ایک مزے کی بات سن لیجئے۔ مذکورہ ڈائٹ پلان کی کامل پابندی ہو تو پھر ہفتے میں ایک دن رج کر بدپرہیزی بھی کی جا سکتی ہے۔ میں ہفتے میں ایک دن یہ بدپرہیزی پوری ایمانداری کے ساتھ کرتا ہوں اور اس کا کوئی نقصان بھی نہیں ہوتا۔ مسلمان کو رمضان میں غذا کی مقدار کا پابند کرنا عجیب سی بات ہی ہے مگر سیاست سے زیادہ عجیب پھر بھی نہیں !