Thursday, 21 November 2024
  1. Home/
  2. Aaghar Nadeem Sahar/
  3. Jang Aur Udasi Ki Nazmein

Jang Aur Udasi Ki Nazmein

پہلے تین نظمیں ملاحظہ فرمائیں: نظم "ایک خواب کے تعاقب میں": رات آندھی چلی/رات بلیوں کے رونے کی آوازیں آتی رہیں /رات ایک شخص مر گیا/صبح اس کی لاش/شہر کے مصروف چوک میں /دیر تک/گرین بیلٹ پر پڑی رہی/لوگوں کو اس وقت پتا چلا/جب لاش پر چیلیں ماتم کرنے آئیں /یہ شخص پیدائشی طور پر /دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے محروم تھا/(اس کی شناخت نہیں ہو سکی)/پولیس کو جائے وقوعہ سے زمین کا ایک ٹکڑا ملا ہے/اس کی پیمائش ممکن نہیں /اس کی جیب سے ایک خواب ملا ہے/یہ خواب جس زبان میں دیکھا گیا/اس کو پڑھنے والا آخری آدمی/کل رات مر گیا ہے/قتل کی ایف آئی آر درج نہیں ہو سکتی۔

دوسری نظم پڑھیے"خدا نارض ہوا": ہجرت یہ بھی خوش نہیں آئے گی/جو لکھا گیا/وہ ہماری تقدیر نہیں تھی/جو کہا گیا/وہ ہمارا جرم نہیں تھا/خدا ناراض ہوا تو/آسمانوں سے اتری کالی بارشیں /اور اپنے خدوخال گنوا دیے سب نے/ان آنکھوں نے گھوم گھوم کر دیکھا/کوئی نہیں تھا بستی میں /خدا کا دوست/سب نے اپنے قہقہے منڈیر پر رکھے/اور پہاڑوں میں جذب ہو گئے/صدائے کن کے منتظر/چار ہزار برس بھی بیت جائیں گے/مگر زمین پر کوئی نبی نہیں آنے والا۔

اب ایک تیسری نظم "جب تمہارے بارے میں سوچا جاتا ہے": ۔ لفظوں کو پر لگ جاتے ہیں /اور وہ تتلیوں کے ساتھ/ریگستانی کھیتوں تک سفر کرتے ہیں /جہاں تارا میرا پھولوں کی زردی/کسی دہقانی دوشیزہ کی بے ترتیب دھڑکنوں /مدور اٹھانوں سے پھوٹتی روشنی/اور ہتھیلی سے اٹھتی حنائی خوشبوکے ساتھ آمیز ہوتی ہے/لفظوں کو پر لگ جاتے ہیں / اورسفید پروں والے مہاجر پرندوں کے ساتھ /سبز پانیوں /اور نیلی جھیلوں کے اوپر سے گزرتے ہیں /جب تمہارے بارے میں سوچاجاتا ہے/دنیا کی تمام زبانوں کے لفظوں کو پر لگ جاتے ہیں /اور وہ نظمیں بن جاتی ہیں۔

یہ نظمیں حال ہی میں شائع ہونے والی نثری نظموں کی ایک اہم کتاب "جنگ اور اداسی کی نظمیں" سے لی گئی ہیں، ان نظموں کی قرات مجھے روس کے مزاحمتی ادیب رسول حمزہ توف کا ایک جملہ بار بار یاد آتا رہا، "ادیب اور شاعر، اندر کی آتش کے محافظ ہوتے ہیں یعنی انسان کی اندر کی آگ کے نگہبان ہوتے ہیں"۔

ادیب اور شاعر کا کام اندر کی آگ کو زندہ رکھنا ہے، اپنے اندر کی آگ ہو یا سماجی شکست و ریخت کی تکلیف اور دکھ، تیزی سے بدلتے سماجی رجحانات ہوں یا پھر ففتھ جنریشن وار سے پیدا ہونے والی خوفناک صورت حال، ایک سچا اور بڑا تخلیق کار اپنے سماج اور لوگوں کو اپنے وجود کا حصہ سمجھتا ہے، وہ سرحد، مذہب اور قومیت کی قید سے آزاد ہو کر انسانیت کے لیے سوچتا ہے۔ ایک سچا آرٹسٹ، اپناشاہ کار پینٹ کرتے ہوئے ان تمام رنگوں اور رویوں کو اپنی پینٹنگ کا حصہ بناتا ہے جس سے اس کے احساسات اور جذبات وابستہ ہوتے ہیں، نظمیں بھی تو پینٹنگ ہوتی ہیں، ایک قلم کار کی پینٹنگ، اس کے اندر اور باہر کے رنگوں کا حسین امتزاج، اس کے خوابوں کااظہار۔

"جنگ اور اداسی کی نظمیں"بھی بنیادی طور پر تصویریں ہیں، اس سماج اور یہاں کے باسیوں کی تصویریں جنھیں بولنے، دیکھنے اور سننے کی پاداش میں گونگا، اندھا اور بہرہ کر دیا گیا۔ ڈاکٹر اورنگ زیب نیازی کی یہ نظمیں"شہر آشوب" ہیں، ایسے شہر کا جس کی روشنیاں اور لوگ، بیک وقت خون میں نہلا دیے گئے، یہ نظمیں اور تصویریں خواب اور محبت کے جرم میں تہہ تیغ کیے جانے والے ایسے معصوموں کا مرثیہ ہیں، جن پر کوئی رونے والا نہیں، اورنگ زیب نیازی ان پر روئے، جن پر کوئی لکھنے والا نہیں تھا، ان پر لکھا، راشد کے ہر اس اندھے کباڑی کے خوابوں پر بات کی جن کا کوئی خریدار نہیں تھا، یہی ایک سچے اور حساس قلم کار کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ عہدے، شہرت اور دولت کی ہوس میں اس قدر بہرہ نہ ہو کہ اسے اپنے لوگوں کی ہی چیخیں سنائی نہ دیں۔

ڈاکٹر اورنگ زیب نیازی عصر جدید کے ایک اہم نقاد اور افسانہ نگار ہیں، ان کا شمار ایسے قلم کاروں میں ہوتا ہے جو سماج سے لاتعلق نہیں ہوتے، کسی مصلحت یا عہدے اور شہرت کی خاطر اپنے کانوں میں روئی ڈال کر سماج میں اٹھتی چیخوں پر خاموش رہنے والے ادیب وقت کی گرد ہو جاتے ہیں، وہی زندہ رہتا ہے جو بولتا ہے، دیکھتا اور لکھتا ہے، اورنگ زیب نیازی نے پہلے راستے کا انتخاب کیا اور اپنے قلم کو زنگ آلود نہیں ہونے دیا۔

کتاب کا عنوان "جنگ اور اداسی کی نظمیں" ہیں، یہ اداسی اور جنگ شاعر کی ذاتی نہیں ہے بلکہ اس جنگ کا بیانیہ ہے جو ہم پر مسلط کی گئی۔ یہ نظمیں اس جنگ کا بیان ہیں جو چھہتر برس سے جاری ہے بلکہ ہندوستان کی اڑھائی تین سو سال کی تاریخ میں یہ سماج جس شکست و ریخت سے گزرا، یہ نظمیں اس کا انتہائی عمدہ اظہار ہیں۔ لسانی جنگ ہو یا پھر تہذیبی و ثقافتی، مذہبی ٹھیکیداروں کی اجارہ داری ہو یا پھر ملاؤں کادوغلا پن، یہ نظمیں ان سب کا پردہ چاک کرتی ہیں۔

یہ نظمیں ایک مسمار ہوتے شہر کے لوگوں کی اداسی کا بیان ہیں، وہ شہر جسے بنانے والوں نے بہت عمدگی سے سجایا تھا، آج وہ شہر روز بروز اجڑ رہا ہے، اس کے لوگ ختم ہو رہے ہیں، خواب مر رہے ہیں، آنکھیں بنجر ہو رہی ہیں، فصلیں اور کھیت کھلیان پراپرٹی ڈیلرز کے ہاتھوں تباہ ہو گئے، اس شہر کی اداسی کو اورنگ زیب نیازی جیسا حساس قلم کار ہی محسوس کر سکتا تھا۔ یہ نظمیں حال اور مستقبل کے علاوہ اپنے ماضی سے بھی جڑی ہوئی ہیں جیسے "جنریشن ایکس کی خود کلامی": انٹینا، وی سی آر اور واک مین/تختی سلیٹ اور عید کارڈ/اب بازار میں نہیں بکتے/میں روز گھنٹوں انتظار کرتا ہوں /مگر مال روڈ پر کوئی تانگا نہیں چلتا/سڑک پر کوئی پی سی او نہیں ہے/جہاں سے میں تمہیں فون کر سکوں /اس لیے مجھے اب زیادہ جھوٹ بولنا پڑتا ہے/جب بجلی جاتی ہے/تو لالٹین روشن کرنے کے لیے ماچس نہیں ڈھونڈنی پڑتی/ابا ٹی وی پر ڈرامہ دیکھتے ہیں /اور اماں مصلے پر سو جاتی ہیں /کیوں کہ اس وقت گھر کے سارے افراد گھر پر موجود نہیں ہوتے/ریل سیٹی بجاتی ہوئی آتی ہے/اور میرے گاؤں کے ریلوے اسٹیشن پر رکے بغیر آگے بڑھ جاتی ہے/آج بھی ایک دن چوبیس گھنٹے کا تھا/لیکن وقت ہم سب کو یکساں نہیں ملتا/ایک زندگی ہم بسر کرتے ہیں /اور ایک زندگی ہمیں بسر کرتی ہے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran