محمد ضیغم مغیرہ کا نعتیہ مجموعہ"شفاعت"پڑھ رہاہوں، اس مجموعے کا حرف حرف پیغمبر اسلام ﷺکی محبت میں لکھا گیا ہے، ایک ایک مصرع کئی کئی مضامین پر بھاری ہے، ایسی نعتیں صرف ان قلم کاروں کو عطا ہوتی ہیں جو سر سے پائوں تک عشق میں ڈوبے ہوئے ہوں، ضیغم صاحب بھی ایسے ہی ہیں، ان کی محفل اور ان کی گفتگو کا مرکز و محور رسول کریمﷺ کی محبت ہوتی ہے، وہ اپنی صحبت میں بیٹھنے والوں کو بھی اپنے رنگ میں رنگ دیتے ہیں، یہ ان پر خدا کی خاص عنایت ہے۔ اس مجموعے کی نعتیں جہالت اور تاریکی میں گھری امت مسلمہ کو پیغام دیتی ہیں کہ اگر آپ روشنی چاہتے ہیں، منزل چاہتے ہیں تو اس کا ایک ہی راستہ اور طریقہ ہے اور وہ ہے اسوہ حسنہﷺ۔ بقول شاعر:
ہر سو ظلمت تاریکی ہے، ظلم نے ڈیرے ڈالے ہیں
لیکن سیرتِ احمدِ مرسل، نور کا اک ایوان بھی ہے
ہم نے علم کا رستہ چھوڑا، ہم تحقیق سے غافل ہیں
علم کی مشعل روشن رکھنا، آقا کا فرمان بھی ہے
یہ اشعار اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ محمد ضیغم مغیرہ کا بنیادی مسئلہ سیرت رسول ﷺ کی ترویج و اشاعت ہے، آپ اس معاملے میں بہت واضح ہیں کہ مغربی مفکرین کے افکار اعلی و ارفع ہوں گے مگر میرے پیغمبر ﷺکے کردار و اقوال سے زیادہ نہیں، یہی وجہ ہے کہ "شفاعت"کی نعتوں میں جہاں دنیا کے سب سے عظیم رہنماکی سیرت و اقوال کی وضاحت کی گئی، وہاں ایسے کرداروں کو بھی آڑے ہاتھوں لیا گیا جو ہیگل، ڈیکارٹ اور لینن و مارکس کے نظریات کو عقلِ کل سمجھتے ہیں اور سیرتِ محمدی ﷺکے معاملے میں (نعوذ باللہ)تاویلیں گھڑتے ہیں۔ بقول مغیرہ صاحب!
ہیگل اور ڈیکارٹ پڑھو تم، لینن مارکس سے عشق کرو
لیکن تھوڑا وقت نکالو، مصطفوی افکار پڑھو
ہم جانتے ہیں کہ نعت کا معاملہ بہت حساس اور سنجیدہ ہے، یہ پل صراط پر چلنے جیسا ہے، تھوڑی سے بھی کوتاہی انسان کے ایمان کو متاثر کر سکتی ہے، ایک قلم کار اور مبلغ کو اس بات کا ضرور خیال رکھنا چاہیے کہ نبی کریم ﷺپر بات کرتے ہوئے کسی بھی طرح کی کمی یا زیادتی نہ ہو، محمد ضیغم مغیرہ اس معاملے میں بھی احتیاط سے کام لیتے ہیں اور پیغمبرِ اسلامﷺ کی تعریف کرتے ہوئے کسی بھی طرح کی زیادتی کا شکار نہیں ہوتے۔ آپ نے اپنی نعتوں کے ذریعے عالم اسلام کو مصطفوی افکار سے جڑنے کی تلقین کی، آپ نے مغربی افکار و نظریات سے متاثر ہونے والوں اور پیٹ پرست مقررین کی باتوں پر اندھا اعتماد کرنے والوں کو بھی افکارِ مصطفوی کا مطالعہ کرنے کی تلقین کی کیوں کہ یہی شاہراہِ حیات ہے۔
محمد ضیغم مغیرہ نے اپنے رویے اور تحریروں کے ذریعے اسلامی ادب کی تحریک کو نئی زندگی بخشی ہے، نعتوں اور تحریروں، اہل قلم کانفرنسوں اور تقریروں کے ذریعے پاکستانی اہل قلم کو اس بات کا احساس دلانے کی کوشش کی ہے کہ ہجر و صال پر لکھو، محبوب کے لب و رخسار کو بھی موضوع بنائو مگر خدا کے محبوبﷺ کے کردار، ان کے اقوال کا موضوع بھی آپ کی تحریروں کا حصہ ہونا چاہیے۔
شفاعت کی زیادہ تر نعتیں ایک خاص کیفیت میں لکھی گئی ہیں، یہ کیفیت اللہ والوں کو ہی نصیب ہوتی ہے یا ان کو جو اپنا تن من دھن اس کی راہ میں لگا دیتے ہیں، محمد ضیغم مغیرہ نے اپنی نعتوں، شاعری اور تحریروں میں جہاں عشق رسولﷺکا درس دیا، وہاں اپنے کردار سے بھی ثابت کیا کہ وہ سیرتِ احمدِ مرسل ﷺکے سچے پیروکار ہیں، آپ کے اندر عشقِ رسول ﷺبھی ہے اور انسانیت سے محبت بھی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اسلام نے جس چیز پر سب سے زیادہ زور دیا ہے وہ حقوق العباد ہیں۔ صوفیا، جن کی زندگیاں خدا اور رسول ﷺکی پیروی میں گزریں، ان کی بھی تبلیغ کا مرکز و محور انسان سے محبت تھا، محمد ضیغم مغیرہ کی تحریروں کا دوسرا بنیادی سبق بھی خالق کی مخلوق سے محبت ہے۔
اس نے ہر دور کے انسان کو عزت بخشی
اب اسی پھول کی مہکار سے ہوں دور بہت
آخر میں محمد ضیغم مغیرہ کے چند نعتیہ اشعار ملاحظہ فرمائیں:
ہاتھ جوڑے ہیں در گزر کے لیے
پاس کچھ بھی نہیں سفر کے لیے
سر برہنہ ہوں ایک مدت سے
کوئی دستار میرے سر کے لیے
چند قطروں سے کچھ نہیں بنتا
ایک طوفان چشمِ تر کے لیے
شر نے چاروں طرف سے گھیرا ہے
مجھ کو اک ڈھال دے توشر کے لیے
***
جو مدینہ میں ہوئی مجھ پہ عطا ہو جائے
یہ مرا عشق نبی سب سے جدا ہو جائے
میرے مرسل مرے سرکار مرے آقا ہیں
آپ کی راہ میں جاں اپنی فدا ہو جائے
سر کٹے خون بہے ختم نبوت پہ مرا
عشق مرسل میں مرا فرض ادا ہو جائے
پھر مدینے کی ریاست کا زمانہ لوٹے
میرے اس عہد کے لوگوں کا بھلا ہو جائے
ہے دعا آج مغیرہ کی مرے آخری وقت
لب پہ ہو صلی علی جان فدا ہو جائے
***
مرے اشکوں کی جو روانی ہے
عشق مرسل کی اک کہانی ہے
یہ جو حب نبی کا جذبہ ہے
نہ زمینی نہ آسمانی ہے
جز مدینہ کسی کی راہوں میں
عمر کیوں میں نے اب گنوانی ہے
ماں نے لوری درود کی دی تھی
عشق کی بات تو پرانی ہے