بیسویں صدی کے ربع اول میں تصوف اور ویدانیت کے موضوع سے دلچسپی رکھنے والی صحافتی کوششوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تصوف کے موضوع پر کوئی ہفت روزہ یا پندرہ روزہ تو شائع نہیں ہوتے رہے تاہم ماہوار رسائل اشاعت پذیر ہوئے۔ جن میں"سادھو"، "درویش"، "مساتنہ جوگی"، "الف"، "طریقت"، " نظام المشائخ"، "معارف"، "انوار الصوفیہ"، "طلوعِ آفتاب"، "پریم بیلاس"، " اسوہ حسنہ"، "نظام"، "پرہم"، "ست اپدیش"، "گلدستہ طریقت"، "القمر" اور" صوفی" کے نام سامنے آتے ہیں۔
یہ ہندو مسلم عقائد کا پرچار کرنے والے رسائل تھے جو اپنے اپنے حلقہ اثر میں رہتے ہوئے قارئین کو بہترین راہنمائی فراہم کرتے تھے۔ ان رسائل میں مجلہ "صوفی "کی خاصیت یہ ہے کہ اس نے تصوف اور اہل تصوف کو اپنا شعار بنایا۔ ماہنامہ"صوفی"کا اجراجنوری 1909 عیسوی میں عمل میں آیا، یہ رسالہ مدیر ملک محمدالدین اعوان نے اپنے پیر سید غلام حیدر شاہ جلالپوری کی یاد میں جاری کیا تھا، یہ مجلہ "صوفی"پنڈی بہاء الدین (پرانی پنڈی) ضلع گجرات سے جاری ہوا جو منڈی بہاء الدین سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
ملک محمد الدین اعوان "صوفی"کے اجراء سے تقریبا اڑھائی سال قبل یعنی 1906ء کے دوران کسی وقت پنڈی بہائوالدین میں آ کر آباد ہوئے۔ انہوں نے اگرچہ "صوفی"ایک چھوٹے سے قصبے سے جاری کیا لیکن معیار اور موضوع کی بدولت اس نے پورے برصغیر میں بھرپور پذیرائی حاصل کی۔ پوری دنیا میں جہاں کہیں مسلمان آزادی کے لیے کو شاں ہوئے یا دنیا کے کسی کونے میں مسلمان مصیبت میں مبتلا نظر آئے تو"صوفی" نے اپنے صفحات کے ذریعے ان کو اخلاقی مدد فراہم کی اور ان کی حوصلہ افزائی کی۔
"صوفی"نے جہاں اسلام کے حق میں غیر مسلموں کی تحریروں کو تلاش کرکے شائع کیا وہیں برصغیر میں آباد مسلم قوت کا اس نے جائزہ لیا اور اس کی کمزوریوں کو رفع کرنے کی مہم کا آغاز کیا تاکہ وہ مضبوط سماجی کردار اد ا کرنے کے لیے تیار ہو جائیں چناچہ انہیں مئے خواری سے روکا اور صنعت و تجارت کی طرف مائل ہونے کا مشورہ دیا۔ "صوفی"نے برصغیر میں انگریزوں کے کردار پر بھی گہری نگاہ رکھی، اس نے برصغیر میں انگریزوں کی مسلم مخالف پالیسیوں کا نہ صرف پردہ چاک کیا بلکہ ہر سطح پر اس کو للکارا۔
"صوفی"کو انگریز کے اخلاقی تفاوت کا حال بھی معلوم تھا اوروہ اس بات کا کھل کر اظہار کرتا تھاکہ اگر خدا نخواستہ انگریز یہاں ایک صدی اور حکومت کر گئے تو ہندوستان دوزخ کا نقشہ پیش کرنا شروع کر دے گا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ انگریز مخلصانہ طور پر حکومت نہیں کر رہے۔ مجلہ "صوفی"نے اپنے مضامین میں بہت نپے تلے تجربات پیش کیے جن کی حقانیت بعد میں ثابت ہوئی مثلا دسمبر 1921 میں" صوفی "نے پیش گوئی کر دی تھی کہ جنگ عظیم دوم ہوگی اور وہ پہلی سے زیادہ خطرناک ہوگی۔ حقیقتاََ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی بلکہ فریقین نے اپنی اپنی قوتوں کو مجتمع کرنے کے لیے مہلت حاصل کی اور اب پوری قوت اور پورے وسائل سے جنگ ہوگی۔ اسی طرح دسمبر 1921ء میں"صوفی"نے پیش گوئی کی کہ مستقبل میں دنیاوی ترقی کا مرکز برطانیہ سے امریکہ کو منتقل ہونے والا ہے اور ایسا ہو کر رہا۔
رسالہ"صوفی"کی طرف سے اچھے لکھاریوں کو مائل کرنے کے لیے مدیر"صوفی"بے دریغ روپیہ صرف کرتے اور اچھے لکھنے والوں کو اچھا معاوضہ فراہم کرتے تھے۔ سید محمد ارتضی واحدی حلقہ نظام المشائخ کی رپورٹ میں لکھتے ہیں: "جناب پروفیسر محمد الدین صاحب مالک رسائل نے دبیر الحلقہ جناب خواجہ حسن نظامی سے درخواست کی تھی کہ آپ صوفی رسالہ کے لیے مضمون لکھیے، ہر مضمون کا معاوضہ ایک پونڈ پیش کیا جائے گا۔ چناچہ دبیر الحلقہ صاحب نے پہلا مضمون "فرید بابا"ان کو لکھ کر دیا اور معاوضہ کے پندہ روپیہ ایڈیٹر صاحب سے لے کرحلقہ نظام المشائخ کو دے دیئے"۔
پھر 1917ء میں ایسا وقت تھا کہ "صوفی" پنجاب کی تمام زبانوں کے اخبارات و رسائل میں تیسرے نمبر پر اور مسلم صحافت کے اخبارات و رسائل میں پہلے نمبر پر تھا گویا مسلم صحافت کے افق پر اس کا کوئی ثانی نہیں تھا، اسی بنا پر وقتاََ فوقتاََ خواجہ حسن نظامی اور علامہ اقبال نے اپنے خطوط میں اس رسالے کو "قلم الفقرائ" کا خطاب بھی دیا۔ اسی امتیاز کو پیش نظر رکھتے ہوئے نظام حیدر آباد دکن نے مدیر"صوفی"کی خدمات اور کتب تصوف و اسلام کی اشاعت کے صلہ میں یکم شوال 1336ھ سے ماہوار سو روپے عطیہ بطور وظیفہ مقرر کیا۔ جس کا ذکر ستمبر 1919ء سے "صوفی"کے سرورق پر کیاجانے لگا۔
"صوفی"جنوری 1919ء سے دسمبر 1940ء تک شائع ہوتا رہا، پانچ دفعہ اس کو وارننگ لیٹر بھی ملا اور دو دفعہ اس کی اشاعت بند بھی ہوئی جب کہ ایک دفعہ انگریز حکومت نے اس پر انتشار پھیلانے والا مواد شائع کرنے کا الزام لگا کر اس کی ڈیکلریشن بھی ختم کردی، تین دفعہ اس کو بلیک لسٹ بھی کیا گیا۔ یہ علمی و ادبی مجلہ مختلف عروج و زوال سے گزرتا ہوا 1940ء میں مکمل طور پر بند ہوگیا۔ مگر اس کی تحریروں سے برصغیر اور بالخصوص منڈی بہائوالدین میں مسلم تشخص کو ابھارنے اور انہیں نئی دنیا سے روشناس کروانے میں اہم کردار ادا کیا۔
آخر میں حالاتِ حاضرہ پر تازہ غزل سے تین اشعار۔
جو محب قوم ہو اور اک کہانی کا ر بھی
اس سے تم یہ کہہ رہے ہو جھوٹ لکھو، چپ رہو؟
مار دیتے ہو میرے معصوم لوگوں کو یہاں
پھر یہ کہتے ہو ہمیں تم کچھ نہ بولو، چپ رہو
حکم ہے مجھ کو فقیہہ شہر کا آغر ندیم ظلم
سہہ کر بھی نہ اپنے ہونٹ کھولو، چپ رہو