چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کو پانچ سال کے لیے نااہل کر دیا گیا، تین سال سز اور ایک لاکھ جرمانے کی سزا بھی سنائی گئی۔ یہ سزا توشہ خانہ فوجداری کیس میں اس وقت سنائی گئی جب اسلام آباد ہائی کورٹ توشہ خانہ کیس قابلِ سماعت قرار دینے کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر معاملہ دوبارہ ٹرائل کورٹ میں بھیجنے کا کہہ رہی تھی۔ کیا سیشن جج کو ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرنا چاہیے تھا؟
یہ سوال اور اس سے وابستہ کئی سوال اپنی جگہ اہم مگر سوال تو یہ ہے کہ ہمارے ادارے صرف انہی فیصلوں پر عمل کیوں کرواتے ہیں جن سے ان کے ذاتی مفاد وابستہ ہوتے ہیں؟ سپریم کورٹ کا نوے دن میں الیکشن کا فیصلہ آج تک کسی ادارے یا سیاسی پارٹی نے تسلیم کیوں نہیں کیا۔ کیا یہ فیصلہ کسی جج نے نہیں لکھا تھا؟ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اداروں کی بجائے شخصیات کو طاقتور دیکھنا چاہتے ہیں اور جب شخصیات اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتی ہیں توہم چیخیں مارتے ہیں۔
توشہ خانہ کیس میں یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ کیا ان تمام شخصیات سے بھی حساب لیا جائے گا جنھوں نے توشہ خانہ پہ ہاتھ صاف کیے، جن لوگوں نے گاڑیاں، گھڑیاں، زیوارت اور صابن تک نہیں چھوڑے، ان سے حساب ہوگا؟ وزرائے اعظم نے توشہ خانہ سے تحائف لیے، سمجھ آتی ہے مگر وزرائے اعظم کی فیملیوں نے کس قانون کے تحت توشہ خانہ کو اپنی جاگیر سمجھ کے لوٹا۔ ان سے معزز عدلیہ حساب مانگے گی؟
پانامہ میں بھی یہی ہوا تھا، ساڑھے چار سو لوگوں کی فہرست میں سے صرف ایک نواز شریف کو سزا ہوئی، باقی سب کی ہوش ربا کہانیاں چھپا دی گئیں۔ آج توشہ خانہ کیس میں بھی یہی ہونے جا رہا ہے، اکیلے عمران خان سے حساب ہوگا، باقی کسی سے کوئی سوال نہیں ہوگا۔ ہمیں احتساب کاعمل شفاف بنانا چاہیے مگر پسند اور ناپسند کی بنیاد پر نہیں۔ ہر اس شخص کا احتساب ہونا چاہیے جس نے کسی بھی طرح سے اس ملک کو دھوکہ دیا، اداروں کی مضبوطی اسی میں ہے کہ اسے طاقت ور شخصیات کے تسلط سے آزاد کروایا جائے۔
ہمارا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے چھہتر برسوں میں صرف شخصیات کو مضبوط کیا، اداروں کی تباہی پر کبھی کسی نے سوچا نہ کبھی جے آئی ٹی بنی، یہی وجہ ہے کہ آج ہماری شخصیات اس قدر مضبوط ہیں کہ ان پر ہاتھ ڈالنے سے پہلے ادارے بھی سوچ میں پڑ جاتے ہیں۔ چھہتر برسوں سے اس ملک میں یہی ہورہا ہے، کبھی رجیم چینج تو کبھی تحریک عدمِ اعتماد، پیشِ نظر ہمیشہ چند لوگوں کی خوشی رہی، بدقسمتی سے چھہپتر برسوں میں نہ ہماری کہانی بدلی اور نہ کہانی کار، صرف کردار بدلتے رہے اور کرداروں نے بھی مفاہمت کی تو بخشے گئے، آنکھیں دکھائیں تو مارے گئے، ایسا کیوں؟
اب ایک مرتبہ پھر الیکشن کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں جاری ہیں، ایک مرتبہ پھر اداروں کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے جنرل انتخابات کو ایک سال آگے لے جانے کی تیاریاں جاری ہیں، کبھی مردم شماری تو کبھی معاشی بدحالی کا رونا رو کر یہ جواز پیش کیا جائے گا کہ حالات سازگار نہیں۔ لیول پلیئنگ فیلڈ تو مل گئی اب انتخابات میں دیر کس بات کی؟ ایک ہفتے میں پچاس سے زائد بل بھی منظور کروا لیے، مختلف قوانین میں اپنی مرضی کی ترامیم بھی کروا لیں۔
تحریک انصاف کے تمام مرکزی قائدین گرفتار بھی کر لیے، تحریک انصاف سے ہی دو نئی جماعتیں بھی بنوا لیں، کیا اب بھی انتخابات میں دیر ہونی چاہیے؟ اب تو نواز شریف کا علاج بھی مکمل ہو چکا ہوگا، عمران خان کی گرفتاری کے بعد اب وہ مکمل صحت یاب ہو چکے ہوں گے، اب انھیں وطن واپس آ کر انتخابات میں حصہ لینا چاہیے۔
آزادی کے 76 برس بعد بھی نہ ہم بدلے اور نہ ہمارے مسائل، نہ ہماری کہانی بدلی اور نہ ہی کہانی لکھنے والے۔ آزادی کے چھہتر برس بعد بھی ہم نااہلی کی وہی کہانی لکھ رہے ہیں جس کا آغاز ان طاقتوں نے کیا تھا جن کا مقصد پاکستان کو کمزور تر بنانا تھا۔ آج بھی ہماری سیاسی کہانیاں لکھنے والے وہی لوگ ہیں جنھوں نے ہمیشہ اپنے مفادات، اپنی انا اور ضد کو اس ملک سے آگے رکھا۔ یہ ملک پچیس کروڑ زندہ لاشوں کا ہے، لاشیں اس لیے کہ اگر یہ لوگ زندہ ہوتے تو حالات بہت مختلف ہوتے، ان پچیس کروڑ لوگوں نے آج تک اپنے حق کی بات کی اور نہ ہی طاقتور سے سوال کیا، ہر تین سال بعد ہمارا ایک وزیر اعظم نااہل ہوتا ہے۔
ہر تین سال بعد اس ملک میں معاشی بدحالی کی ایسی اندوہ ناک کہانی سنائی جاتی ہے جسے سن کر مردہ بھی کفن پھاڑ کر باہر آ جائے۔ تین سال تین سال تین سال، یہی ہو رہا ہے۔ چھہتر برسوں میں صرف ڈکٹیٹروں نے مدتِ حکومت مکمل کی، جمہوری پارٹیاں تین تین سال بعد گھر بھیجی جاتی رہیں، کیوں؟ اس لیے کہ پارلیمنٹ جیسا اہم ترین ادارہ بھی شخصیات کے آگے کمزور دکھائی دیتا ہے، خوف کی فضا نے ملک کے تمام اداروں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ یہ فضا اس وقت تک برقرار رہے گی جب تک سیاسی پارٹیاں بیٹھ کر اپنے فیصلے خود نہیں کریں گی، سیاسی جماعتوں کو اپنے مسائل ٹیبل ٹاک سے حل کرنے ہوں گے، اندرونی اور بیرونی طاقتوں کی جگہ اپنے مسائل ایک دوسرے سے شیئر کرنے ہوں گے۔
یہ بات ذہن نشین کرنی ہوں گے کہ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے بغیر نامکمل ہیں، کوئی دوسرا آدمی(خواہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو)سیاست دانوں کے دکھ کو نہیں سمجھ سکتا، یہ ملک اور اس کے پچیس کروڑ لوگ، سیاست دانوں کے رحم و کرم پر ہیں اور صد حیف کہ سیاست دان خود کسی اور کے رحم و کرم پر، اس صورت حال کو تبدیل کرنا ہوگا تاکہ ملکی انارکی کو ختم کیا جا سکے۔
اگر سیاست دان اب بھی انا کے خول سے باہر نہیں ہوتے تو یاد رکھیں!اگلے پانچ سال بعد ایک اور وزیر اعظم نااہل ہو جائے گا اور یہ کہانی ایسے ہی چلتی رہے گی، نااہلی کی کہانی کو روکنے کا واحد حل آپس میں مذاکرات ہیں جس سے ہم سب بھاگ رہے ہیں۔