میں جو گردوں کا ایک مستقل اور مستند مریض ہوں، گزشتہ دنوں ایک بار پھر اچانک بیمار پڑ گیا جس کی وجہ سے مجھے چھٹی کرنی پڑ گئی۔ ان دنوں کالم کے لیے ہر روز ایک سے زیادہ ایسے کالمانہ واقعات پیش آ رہے ہیں کہ میں کوئی بھی بیماری برداشت نہیں کر سکتا۔ بہرکیف انسان خود مختار نہیں ہے اور میں بھی نہیں۔ آج کے جدید زمانے میں مرض کی تشخیص بڑے سائنسی طریقوں سے کی جاتی ہے، انسانی جسم کو کھنگال لیا جاتا ہے۔
اس بار جب میں نے کسی حد تک صحت یاب ہونے کے بعد ڈاکٹر سے پوچھا کہ مجھے یہ سب کیوں ہوا ہے تو ڈاکٹر صاحب کا جواب تھا کہ اﷲ کی مرضی۔ ڈاکٹر کی اس تشخیص کا یہ نتیجہ مجھے خود بھی معلوم تھا بشرطیکہ میں اپنے آپ کو بھاری بھرکم فیس دے سکتا، اﷲ کی مرضی والا جواب مجھے پہلے ہی خود بخود معلوم ہو جاتا۔ ایلو پیتھی کا جدید طریقہ علاج مشینوں کا مرہون منت ہے اور ڈاکٹر صاحبان مریض کے ٹیسٹ کی رپورٹ کے بعد علاج شروع کرتے ہیں یعنی اب ہمارا علاج مشینیں کرتی ہیں۔
میرے مرحوم دوست ڈاکٹر پروفیسر سجاد حسین کہا کرتے تھے کہ اب حالت یہ ہے کہ ڈاکٹر کا دوست ہونا ضروری ہے یعنی یہ کہ ڈاکٹر صرف کسی مریض کا علاج نہیں ایک دوست مریض کا علاج ہی کرے۔ کسی ڈاکٹر کا کسی مرض کا خصوصی معالج ہونا بہت اچھی بات ہے کیونکہ اس طرح وہ کسی خاص مرض کے علاج کا زیادہ ماہر ہو جاتا ہے لیکن میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ گلی محلے کے بعض داکٹر بھی کمال کر دیتے ہیں۔ گلبرگ میں میرے گھر کے قریب ایک کلینک تھا، گاؤں سے آنے والے کئی مہمانوں کو میں نے ان کے پاس بھیجا جو صحت مند ہو کر واپس گئے۔
صحت اﷲ کے اختیار میں ہے، حضورﷺ فرمایا کرتے تھے کہ جب میں بیمار ہوتا ہوں تو اﷲ مجھے شفا دیتا ہے اور ظاہر ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں بیماری اﷲ کی مرضی سے آتی ہے چنانچہ میرے ڈاکٹر میرے ساتھ متفق ہیں کہ میری بیماری کی وجہ اﷲ کی مرضی تھی۔
بہر حال اب میں کسی حد تک شفا یاب ہو کر گھر واپس پہنچ چکا ہوں، میرے معالجین نے مجھے اسپتال سے ضروری طبی امداد کے بعد، یہ کہتے ہوئے رخصت کر دیا کہ کورونا وبا کی وجہ سے باقی کا علاج گھر پر کرا لیں، میں نے ان کی بات پلے باندھ لی اور اسپتال سے فوری گھر واپسی کو ترجیح دی۔
جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ میں گردے مثانے کی بیماری کا مستقل مریض ہوں تو مجھے وہ دن یاد آ جاتا ہے جب میو اسپتال کے یورالوجی وارڈ کے آپریشن تھیٹر میں مرحوم پروفیسرڈاکٹر فتح خان اختر میرے آپریشن کے لیے تیار تھے۔
مجھے بے ہوش کرنے کے لیے کمر میں بے ہوشی کا ٹیکہ لگایا گیا، یہ ٹیکہ لگانے والی ایک خاتون ڈاکٹر تھیں جو تازہ تازہ انگلینڈ سے تعلیم حاصل کر کے آئی تھیں۔ ٹیکے کا ری ایکشن ہو گیا، ڈاکٹروں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے، پورا دن اور رات مجھے بچانے کے لیے کوششیں جاری رہیں۔
ایک ریٹائرڈ ڈاکٹر کو رات گئے تکلیف دی گئی، انھوں نے جو مشورہ بھی دیا، وہ کارآ مد ثابت ہوا اور میں پھر سے زندہ اور بحال ہونا شروع ہو گیا۔ بعد میں چھوٹے ڈاکٹروں نے بتایا کہ میں رات کو فوت ہو گیا تھا لیکن میرا دل موت سے لڑتا رہا اور مر کر زندہ ہو گیا۔ یہ حادثہ ہو گیا لیکن میرے بڑے ڈاکٹروں نے مجھے آج تک نہیں بتایا کہ کیا ہوا تھا اور میں سوچتا ہوں کہ میں کس لیے بچ گیا تھا۔ میں نے زندگی میں آج تک کون سا تیر مار لیا ہے اور میرے بدستور زندہ رہنے سے اس دنیا کو کیا فرق پڑ گیا ہے۔ کاغذ کالے کرنے کے لیے اور بھی بہت تھے اور مجھے سے کہیں اچھے اب بھی ہیں۔
جیسے کہ عرض کیا ہے، مجھے آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ قدرت کو میری کیا ضرورت تھی کہ اس نے مجھے زندہ کر دیا۔ اس نادر واقعہ کے بعد ایک تبدیلی مجھے اپنے اندر یہ محسوس ہوئی کہ میرے لیے یہ دنیا بے معنی ہو گئی۔ مجھے اقبال کا یہ شعر یاد آیا اور اب تک یہ شعر میرا انتہائی پسندیدہ شعر ہے کہ۔
یہ مال و دولتِ دنیا یہ رشتہ و پیوند
بتان وہم و گماں لا الہ الا للہ
میری لیے یہ بالکل بے معنی ہو گیا ہے۔ میری جیب بھر ہوئی ہے یا خالی ہے، دنیا کے اسباب راحت مجھے میسر ہیں یا نہیں کوئی مجھ سے راضی ہے یا ناراض۔ موسم گرم ہے یا سرد اور کھانے پینے کو مجھے کیا میسر ہے اور کیا نہیں ہے، بس ایک بات کا جی چاہتا ہے کہ میں جو لکھوں وہ جوں کا توں چھپ جائے اور مجھے یہ راحت نصیب ہے۔
یہ کب تک باقی رہتی ہے، یہ اﷲ کو معلوم ہے۔ اس واقعہ نے میرے اندر بے خوفی کی ایک کیفیت بھی کسی حد تک پیدا کر دی ہے اور حکمران اعلیٰ کے سامنے میرے دل میں کوئی مناسب بات آ جائے اور موقع ملے تو میں اس کے اظہار سے خوف نہیں کھاتا، زبانی بھی اور تحریری بھی لیکن وہ تمام کمزوریاں میرے اندر پوری طرح موجود ہیں جو انسانوں کے ساتھ معاملات کرنے میں ہوا کرتی ہیں۔ میں لوگوں کو خوش کرنے کی کوشش بھی کرتا ہوں اور حکمرانوں کی تعریف بھی کر جاتا ہوں لیکن جب ضرورت پڑتی ہے تو کسی کو بھی ناراض کر سکتا ہوں۔ اس دوسری زندگی میں بھی ایک عام انسان ہوں لیکن پسند و ناپسند بدل گئی ہے۔
میں نے لکھنے کو تو یہ سب مختصراً لکھ دیا ہے لیکن معلوم نہیں مجھے لکھنا چاہیے تھا یا نہیں اور جن الفاظ میں لکھا ہے وہ بھی موزوں ہیں یا نہیں، بہرحال اب جیسے تیسے لکھ دیا ہے، اسے برداشت کر لیجیے، مجھ پر حرف گیری نہ کیجیے کہ انسان کمزوریوں کا پتلا ہے، خواہ وہ واقعتاً ایک بار مر کر زندہ بھی کیوں نہ ہوا ہو۔