اس وقت ملک میں سیاسی حالات کی خرابی اپنی آخری حدوں تک پہنچ رہی ہے۔ حکومت بضد نظر آتی ہے کہ وہ اپوزیشن سے بات چیت نہیں کرے گی۔ حالات یہ ہیں کہ حکومتی اقدامات نے اپوزیشن کو دیوار سے لگا دیا ہے۔ غداری کے مقدمے بنائے جا رہے ہیں اور پھر ان مقدموں کی مذمت بھی کی جا رہی ہے اور ان سے لاتعلقی کا اعلان بھی کیا جا رہا ہے۔
وزراء اس مسئلے پر وزیر اعظم کی ناپسندیدگی کا مژدہ بھی سنا رہے ہیں لیکن اس سب کے باوجود اپوزیشن اپنے مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کے لیے ڈٹ گئی ہے اور خاص طور پر نواز لیگ کے جن رہنماؤں پر بغاوت کا مقدمہ بنایا گیا ہے، وہ اپنی گرفتاری پیش کرنے کے لیے پولیس کی تلاش میں ہیں۔
سیاسی حالات میں بگاڑ کی ذمے داری اپوزیشن پر نہیں ڈالی جا سکتی کہ وہ تو گزشتہ دو برس سے دامے درمے سخنے حکومت کا ساتھ دیتی آرہی تھی۔ مگرحکومت کوئی ایسا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہی جس میں وہ اپوزیشن کو نیچا دکھا سکے حالانکہ حکومت کا کام اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے کا ہوتا ہے اور حکومت اپنی طاقت کے بل بوتے پر نہیں بلکہ جمہوری اقدار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلتی ہے۔
اہم ملکی اور سلامتی امور پر متفقہ فیصلے اپوزیشن کے ساتھ مشاورت سے کیے جاتے ہیں۔ حکومت اگر اسمبلی میں عددی اکثریت میں بھی ہو تو اس کے باوجود وہ اپوزیشن کو کسی نہ کسی طرح راضی رکھنے کی کوشش کرتی ہے تا کہ حکومت کا کاروبار آسانی کے ساتھ اور کسی رکاوٹ کے بغیر چلتا رہے۔
موجودہ حکومت کا کاروبار بھی اپوزیشن کے سہارے چل رہا ہے جب بھی کسی اہم موقع پر قانون سازی کی ضرورت پڑتی ہے تو اپوزیشن حکومت کی حمایت میں کھڑی نظر آتی ہے لیکن جب حکومت کو اپوزیشن کے خلاف کچھ کر نے کا موقع ملتا ہے تو وہ بغیر سوچے سمجھے کر گزرتی ہے جس کا بالآخر یہ نتیجہ نکلا ہے کہ اپوزیشن کی کڑھی میں بھی ابال آگیا ہے اور مختلف سیاسی جماعتیں حکومت مخالف اتحاد پر متفق ہو گئی ہیں۔ تحریک چلانے کے لیے منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمن جو اس اپوزیشن اتحاد کے روح رواں بھی ہیں اب اس اتحادکی سربراہی بھی ان کو سونپ دی گئی ہے۔
وہ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کی دوسرے درجے کی قیادت کے ساتھ ملاقاتیں کر کے احتجاجی تحریک کی راہ ہموار کرنے کی کوشش میں ہیں۔ مولانا کے اپنے پیرو کاروں کی تعداد کسی بھی احتجاجی تحریک کے لیے بہت ہے جس کا مظاہرہ وہ گزشتہ برس اسلام آباد میں حکومت مخالف دھرنے کی صورت میں قوم کو دکھا چکے ہیں لیکن ان کی جماعت سیاسی طور اتنی فعال اور موثر نہیں کہ ان کے احتجاج پر ملکی تقدیر کے فیصلے کیے جا سکیں البتہ اگر مسلم لیگ نواز پنجاب میں اور پیپلز پارٹی سندھ میں حکومت کے خلاف احتجاج میں تحریک جمہوریت کا دل و جان سے ساتھ دیتی ہیں تو اپوزیشن کی عزت بچ سکتی ہے۔
لیکن فی الحال تو میاں نواز شریف کی صاحبزادی نے اپنے والد کی غیر موجودگی میں پارٹی کی قیادت سنبھال لی ہے اور نواز لیگ گوجرانوالہ میں اپنا الگ جلسہ کرنے جا رہی ہے جس میں اپوزیشن رہنماؤں کو بھی دعوت دینے کی اطلاعات ہیں۔
احتجاجی تحریکیں پاکستانیوں کے لیے نئی نہیں ہیں، اس سے قبل بھی کئی تحریکیں شروع ہو کر اپنی موت آپ مر گئیں البتہ جب مقتدر حلقوں کو ضرورت محسوس ہوئی تو انھی تحریکوں کو بہانہ بنا کر منتخب حکومتیں رخصت بھی کی جاتی رہیں اس کے متعلق نواز شریف سے زیادہ کون جانتا ہے اور یہ بات بھی ان کے علم میں ہے کہ ابھی حالات کیا ہیں، اسی لیے وہ ابھی تک لندن میں ہی بیٹھے ہیں۔
ایک بات جس کا میں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں کہ حکومت مخالف تحریک کو کسی جاندار لیڈر کی ضرورت ہے اور بدقسمتی سے ملک میں موجود اپوزیشن کے پاس کوئی ایسا لیڈر موجود نہیں ہے جس کی آواز پر عوام لبیک کہنے کو تیار ہوں۔
پارٹی ورکرز تو اپنے لیڈروں کی کال پر ضرور باہر نکلیں گے لیکن جب تک ان کارکنوں کے ساتھ عوام شامل نہیں ہوں گے ایسی کسی تحریک میں جان نہیں پڑ سکتی۔ دوسری جانب پاکستانی عوام ان احتجاجوں سے اس قدر تنگ آ چکے ہیں کہ ان کا کسی ایسی تحریک کا نام سنتے ہی دماغ گھوم جاتا ہے۔ ان کے سامنے احتجاجی لیڈروں کے کارنامے ہیں جو انھوں نے اپنے اپنے دور حکومت میں انجام دیے تھے۔ اس غیر یقینی کی کیفیت کی وجہ سے عوام چڑ چڑے ہوچکے ہیں اور وہ ایسی تحریکوں کے لیے اپنے گلے پھاڑنے کے لیے تیار نظر نہیں آتے۔ عوام تو سکھ کی تلاش میں ہیں اور ان اچھے دنوں کی آس اور امید میں ہیں کوئی تو ملک کی سلامتی اور ترقی کا سوچے گا۔
میرے ایک دوست نے نیویار ک سے خبر دی ہے کہ پی آئی اے کی ملکیت روز ویلٹ ہوٹل کو بند کیا جا رہا ہے اور اس کا ایک کمرہ آسیب زدہ بھی ہے۔ یہ ایک تاریخی ہوٹل ہے جس کو اچھے وقتوں میں پی آئی اے کے سربراہ ائر مارشل ملک نورخان نے خریدا تھا۔ پاکستان کا جھنڈا نیویارک کے دل میں چوبیس گھنٹے لہراتا ہے۔
اس ہوٹل میں پاکستان کے سربراہ مملکت بھی رہائش پذیر رہے ہیں، مجھے بھی ایک دو بار یہاں قیام کرنے کا اعزاز حاصل ہوا لیکن اب خبریں یہ بتا رہی ہیں کہ اسی تاریخی ہوٹل کوآسیب زدہ قرار دیا جا رہا ہے۔ ویسے تو ہمارا پورا ملک ہی آسیب زدہ ہے اور ہمیں اس آسیب نے اس بری طرح جکڑ رکھا ہے کہ چھٹکارے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ لیکن اگر ملک اور قوم سے مخلص لوگوں نے اچھے کام کیے ہیں تو ان کی حفاظت کرنی چاہیے۔ بقول منیر نیازی ……
اگا سبزہ در و دیوار پر آہستہ آہستہ
ہوا خالی صداؤں سے نگر آہستہ آہستہ
گھرا بادل خموشی سے خزاں آثار باغوں پر
ملے ٹھنڈی ہواؤں میں شجر آہستہ آہستہ
بہت ہی سست تھا منظر لہو کے رنگ لانے کا
نشاں آخر ہوا یہ سرخ تر آہستہ آہستہ
چمک زر کی اسے آخر مکان خاک میں لائی
بنایا سانپ نے جسموں میں گھر آہستہ آہستہ
مرے باہر فصیلیں تھیں غبار خاک و باراں کی
ملی مجھ کو ترے غم کی خبر آہستہ آہستہ
منیرؔ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ