Adal Jehangeeri
Abdullah Tariq Sohail92 News753
ایک اخبار کی بڑی سرخی ہے کہ نوازشریف کے خلاف عملی تعاون کے باوجود آصف زرداری کا بچائو مشکل ہوگیا۔ پیپلزپارٹی کے ایک رہنما قمر زمان کائرہ صاحب کا بیان ہے کہ اپوزیشن کو زرداری کی مجبوریوں سے آگاہ کردیا۔ مجبوریوں کے دو دوکنگن زرداری صاحب کے ہاتھوں میں ہیں۔ ایک فلمی گانا کسی زمانے میں بہت مشہور ہوا تھا ؎میرے ہاتھوں میں نو نو چوڑیاں ہیں تھوڑا ٹھہرو سجن مجبوریاں ہیں نو نو چوڑیوں کا مجبوریوں سے تعلق محض ردیف قافیے کی حد تک تھا لیکن زرداری صاحب کے ہاتھوں میں نو نو چوڑیاں تو نہیں ہیں لیکن مجبوریوں کے دو کنگن ضرورہیں۔ ایک کنگن پر ایف آئی اے لکھا ہے، دوسرے پر نیب کا نام کندہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ مجبوریاں صدارتی انتخابات تک باقی رہیں گی، پھر ختم ہو جائیں گی۔ پیپلزپارٹی کے لوگ یہی سمجھتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ان کی خوش فہمی ہو۔ زرداری صاحب کے "عملی تعاون" کی ضرورت بعد میں بھی تو پڑ سکتی ہے بلکہ پڑتی رہے گی۔ عملی تعاون کا آغاز شہبازشریف کو اپوزیشن کے امیدوار کے طور پر ووٹ نہ دینے سے ہوا تھا۔ کل کلاں کو دھاندلی وغیرہ کے ایشوزپر اپوزیشن نے تحریک چلانے کا فیصلہ کرلیا تو اس تعاون کی اہمیت بڑھ جائے گی۔ مجبوریوں کے کچھ کنگن شہبازشریف کے ہاتھوں میں بھی ہیں، فی الحال زیادہ "زیرنظر" میں ہیں لیکن زیرنظر آنے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے۔ اپوزیشن کی نائو بھنور میں آنے کا اندیشہ نہیں۔ دریا میں اترے گی تبھی بھنور کا خطرہ ہوگا۔ فی الحال تو یہ کنارے سے اترنے کی پوزیشن ہی میں نہیں ہے۔ بھنور وغیرہ تو بہت آگے کی بات ہے۔ ٭٭٭٭٭اپوزیشن کی اسی صورت حال کے تناظر میں بعض تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال لطف دے جاتا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے، عمران حکومت بہت نازک توازن پر کھڑی ہے۔ ایک یا دو اتحادیوں نے ہاتھ کھینچ لیا تو گر جائے گی۔ یہ تجزیہ کار یا تو بائی ڈیفالٹ بھولے ہیں یا بھولے بنتے ہیں۔ کیسا نازک توازن؟ جس تائیدایزدی نے خان کو اتنی سیٹیں دلوائی ہیں، پھر ریشم کی ڈور سے باندھ کر اتحادیوں کو ان کے سپرد کیا ہے، وہ ایک ایک رشتے کو خود دیکھ رہی ہے اور بالفرض محال، بالفرض بہت ہی محال، کسی اتحادی کے سر پر علیحدگی کا بھوت سوار ہوگیا تو بھی پیپلزپارٹی موجود ہے اور اس کے ہاتھوں کے کنگن بھی۔ ڈر نہ خوف، فکر نہ فاقہ۔ ٭٭٭٭٭ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کی عہدے سے سبکدوشی پر نا فہم لوگ طرح طرح کی باتیں بنا رہے ہیں۔ انہیں خاور مانیکا کی شکایت پر ہٹایا گیا، کہا جارہا ہے کہ ناانصافی ہوئی ہے۔ ارے بھئی، ناانصافی نہیں، عدل جہانگیری ہوا ہے، نوشیرواں عادل کی روایات تازہ ہوئی ہیں۔ اسلامی اور جہانگیری عدل یہ ہے کہ عام آدمی پر ظلم ہو اور ریاست ہل کر رہ جائے، یہی ہوا کہ نہیں۔ خاور مانیکا عام شہری ہیں، اپنی حفاظت کے لئے اپنے ساتھیوں سمیت اسلحہ لے کر جا رہے تھے۔ ڈی پی او نے ناجائز روکا، اسلحہ چیک کرنے کی دھمکی دے کر عام آدمی کی عزت پر سربازار ہاتھ ڈالا۔ عام آدمی نے بنی گالہ کی دیوار سے لٹکی زنجیر عدل کو ہلا دیا، پھر کیا تھا، تخت بنی گالہ سے لے کر تخت بزدار تک ساری دھرتی ہل گئی۔ عام آدمی کو انصاف مل گیا۔ سچ کہیے، ملکی تاریخ میں عام آدمی کو اتنی سرعت سے پہلے کبھی انصاف ملا؟ ناواقف لوگ یہ اعتراض بھی کررہے ہیں کہ ڈی پی او کو وزیراعلیٰ ہائوس کیوں بلایا گیا۔ حالانکہ اس بلاوے کا کارروائی وغیرہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وزیراعلیٰ بزدار نے تو ڈی پی او کو محض یہ بتانے کے لیے آنے کی زحمت دی تھی کہ پختونخوا کی طرح اب پنجاب کی پولیس بھی "غیرسیاسی" کردی گئی ہے۔ انصاف کی اس بے مثال فراہمی پر آئی جی پنجاب کلیم امام کو خراج تحسین پیش کرنا بھی لازم ہے۔ انہوں نے جو اعلامیہ جاری کیا، وہ آنے والوں کے لیے چارٹر آف جسٹس کا کام کرتا رہے گا۔ آپ نگران وزیراعلیٰ حسن عسکری کا حسن انتخاب ہیں، عسکری صاحب کے لیے بھی تحسین کے اڑھائی اکھشر لکھ ڈالنے میں حرج نہیں۔ ٭٭٭٭٭جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کے کچھ پے در پے عجیب بیانات چند روز میں آئے ہیں۔ ایک بیان میں انہوں نے فرمایا، جیتنے والے حیران ہیں کہ انہیں اتنے ووٹ کیسے پڑ گئے۔ دوسرے بیان میں فرمایا کہ سارے فیصلے کئی ماہ پہلے ہو چکے تھے۔ اسی طرح کی مزید باتیں بھی فرمائی ہیں۔ واقعاتی لحاظ سے ان کی اطلاعات زیادہ ٹھیک نہیں۔ مثلاً جیتنے والے کیوں حیران ہوں گے؟ انہیں تین ماہ پہلے بتا دیا گیا تھا کہ انہیں اتنے ووٹ "ڈلوائے" جائیں گے۔ اگرچہ ووٹ ڈلوانے والی بات تکنیکی طورپر حرف بہ حرف درست نہیں۔ ووٹ ڈلوانے کے بجائے اصل میں گنتی کی تصحیح کی گئی تھی۔ بہرحال، جن اصحاب کو تین ماہ پہلے ہی پتہ تھا کہ انہیں اتنی سیٹیں دی جائیں گی اوراتنے ووٹ، ان کے حیران ہونے کا کوئی سوال کیسے پیدا ہوسکتا ہے۔ ہاں، یہ پریشانی حسرت ہو سکتی ہے کہ آٹھ دس سیٹیں اور کیوں نہ دے دیں۔ الیکشن وہی جیتیں گے یہ اطلاع البتہ انہیں چار سال پہلے ہی دے دی گئی تھی، صرف سیٹوں کی گنتی کی خبر تین ماہ پہلے دی گئی۔ سراج الحق باسٹھ تریسٹھ کے بہت حامی ہیں۔ یہ الیکشن بھی باسٹھ تریسٹھ کا جلوہ ہیں۔ نہیں سمجھے؟ ارے نہیں بھئی، آپ غلط سمجھے۔ یہ آئین کی شق باسٹھ تریسٹھ کی بات نہیں، یہ گنتی والی باسٹھ تریسٹھ کی بات ہے۔ یہ وہ اضافی سیٹیں ہیں جو "تائید ایزدی" نے پی ٹی آئی کو دیں۔ انہیں منہا کرلیں، پی ٹی آئی کی اصل سیٹیں نکل آئیں گی، تو اسی طرح سے یہ باسٹھ تریسٹھ کا جلوہ ہے۔ جلوے کا حلوہ بہت میٹھا ہے، یہ الگ بات ہے کہ کھانے والوں کا حلق ابھی سے کڑوا ہونا شروع ہوگیا ہے۔ سارے فیصلے کئی ماہ پہلے کر لئے گئے تھے، اس فقرے میں بھی "ماہ" غلط ہے، "سال" ہونا چاہیے تھا اور سراج الحق کی یہ بعداز وقت حیرانی زبردستی کی ہے۔ فیصلے دھرنوں کے وقت ہی ہو گئے تھے اور سراج الحق کو ساری خبر تھی، مزید فیصلے "لاک ڈائون" پر ہوئے تھے اور سراج الحق کو ان کی بھی خبر تھی۔ مزید فیصلے پانامے کے اقامے کے وقت ہو گئے تھے اور سراج الحق کو ان کی بھی خبر تھی۔ کون سا فیصلہ ہے جس کے ہونے کی خبر اور ٹائمنگ کی اطلاع محترم کو نہیں تھی؟ ٭٭٭٭٭قبلہ شیخ جی کی خوش اخلاقی کے چرچے سوشل میڈیا میں خوب ہیں، اگرچہ ٹی وی اور اخبارات میں کم۔ اخبارات میں ان کی خوش خلقی کی خبریں چھپتی تو ہیں لیکن سرخی پٹی میں نہیں، بقیے میں اور بقیے میں خبر جانے کا مطلب ہوتا ہے، جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا۔ سرخ حویلی کے باہر ایک بڑھیا سے شیخ جی نے خوش اخلاقی برتی۔ (وہ بڑھیا کتنی بوڑھی ہو گی جو شیخ جی سے بھی بڑی تھی) ایک میڈیا رپورٹر نے اپنے موبائل پر خوش اخلاقی محفوظ کرلی، شیخ جی نے دیکھ لیا اور نہایت خوش اخلاقی سے موبائل فون توڑ ڈالا۔ دراصل شیخ جی نہیں چاہتے تھے کہ لوگ خواہ مخواہ ان کی خوش اخلاقی کی تعریفیں کریں۔ خود ستائی کا مرض انہیں نہیں ہے اس لیے۔ پھر شیخ جی لاہور ریلوے سٹیشن آئے اور عملے نے ازراہ خوش اخلاقی، تمام مسافروں سے عمارت خالی کرالی، نہایت خوش اخلاقی سے۔ اعلیٰ افسروں کی میٹنگ ہوئی اور شیخ جی نے خوش اخلاقی کے ریکارڈ توڑ ڈالے۔ اس حسن اخلاق سے متاثر ہو کر ایک اعلیٰ افسر نے چھٹی کی درخواست دے دی۔ درخواست میں شیخ جی کو ILL Mannered کا خطاب دیا۔ یہ انگریزی لفظ ہے، جس کا اردو ترجمہ از حد بااخلاق، نہایت شائستہ مزاج ہے۔ اخباری بقیے میں ہے کہ شیخ جی نے افسر کوشٹ اپ کیا۔ شٹ اپ کا اردو ترجمہ مکرر ارشاد ہے۔ جواب میں احتراماً اس افسر نے بھی کہا، پھر شٹ اپ، یعنی پہلے آپ مکرر ارشاد۔ اعلیٰ افسر سخن فہم تھا۔ سخن فہمی کی دادا سے عہدے سے ہٹائے جانے کی صورت میں ملی۔ یعنی انعام کے طور پر روز روز کی مشقت سے چھٹی۔ کون کہتا ہے کہ اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا۔