Monday, 25 November 2024
  1. Home/
  2. Abdullah Tariq Sohail/
  3. Afghan Game Do More Ki Nai Shahrah

Afghan Game Do More Ki Nai Shahrah

ایک ٹی وی کے مزاحیہ پروگرام میں یہ فقرہ چلا کرتا تھا کہ بچے غیر سیاسی ہوتے ہیں۔ لیکن اصل میں بچے بڑوں سے زیادہ سیاسی ہوتے ہیں۔ البتہ ان کی سیاست والی سمجھ بوجھ دو ٹوک ہوتی ہے، ہیرا پھیری والی نہیں۔ جب ٹی وی پر یہ خبر ملی کہ امریکہ نے پاکستان کی 30کروڑ ڈالر کی امداد روک لی ہے تو کسی عزیز کا بچہ پاس بیٹھا تھا۔ ابھی سکول میں زیر تعلیم ہے۔ کہنے لگا کہ امریکہ نے یہ رقم کیوں روکی؟ بتایا کہ امریکہ کو اعتراض ہے کہ ہم جو "ہماری جنگ" لڑ رہے ہیں وہ ٹھیک طریقے سے نہیں لڑ رہے کہیں نہ کہیں ہیرا پھیری کر رہے ہیں۔ بچے نے فوراً سوال کیا کہ یہ جنگ تو ہماری ہے، ہم اپنی جنگ میں کچھ بھی کریں امریکہ کو کیا اعتراض اور پھر اگر جنگ ہماری ہے تو امریکہ اتنے زیادہ پیسے کیوں دے رہا ہے؟ اس دو ٹوک سوال کے جواب میں کیا ہیرا پھیری ہو سکتی تھی؟ بس گول مول بتا دیا کہ بیٹا، امریکہ جہاں بھی ہماری جنگ لڑتا ہے تو اسی طرح کرتا ہے الٹے سیدھے سوالنامے الٹی سیدھی ہدایات۔ بچہ جواب سے مطمئن نہیں ہوا۔ ٭٭٭٭٭یہ معاملہ ہے کیا؟ کسی کو بات سمجھ میں آتی ہے؟ اردو اخبارات میں تو اتنے گہرے تجزیے چھپتے نہیں ہیں۔ انگریزی لکھنے والوں کے بارے میں سنا ہے کہ ان کے سفارتی حلقوں سے تعلقات ہوتے ہیں، ان کے پاس زیادہ خبر ہوتی ہے بلکہ کبھی تو اندر کی خبر بھی۔ لیکن ان کے تجزیے بھی پڑھے، ایک کی رائے دوسرے سے الٹ، تیسرے کی بالکل الگ۔ لیکن سب کو پڑھنے سے ایک بات تو بہرحال سمجھ آ جاتی ہے اور وہ ہے کہ افغانستان کے مسئلے پر امریکہ، پاکستان اور طالبان تینوں ایک ہی پیج پر ہیں اور اس پیج کا نام ہے۔" بزکشی"٭٭٭٭٭امریکہ پاکستان تعلقات کی خرابی دراصل سکرپٹ کا حصہ ہے۔ چلیے اتنی حتمی بات نہیں کرنی چاہیے یوں کہنا چاہیے کہ جو کچھ ہو رہا ہے سکرپٹ کا حصہ لگتا ہے۔ مثلاً کل کلاں شاہ محمود قریشی فرمائیں کہ ہم امریکہ سے جنگ تو لڑ نہیں سکتے وہ ہمارا گھیرا تنگ کر رہا ہے۔ بڑی مشکل ہو جائے گی۔ اس کی کچھ باتیں تو ماننا ہی ہوں گی اور ہاں، یہ غلط فہمی دل سے نکال دیں کہ ہم اس کی کوئی غلط بات مان لیں گے۔ ہم صرف ٹھیک بات مانیں گے غلط مسترد کر دیں گے۔ امریکہ نے جب اسامہ بن لادن کے نام پر افغان جنگ شروع کی تو یہ حقیقی جنگ تھی۔ طالبان امریکہ کے مقابلے میں ڈٹ گئے۔ بہت خون بہا طالبان نے جم کر مزاحمت کی۔ پھر اسامہ بن لادن ختم ہو گیا اور اس کی القاعدہ بھی۔ اس کا مزار البتہ ایمن الظواہری کی شکل میں موجود ہے لیکن آسیب زدہ ہے۔ ملا عمر کی وفات کے بعد طالبان ہائی جیک ہو گئے اب وہ اور امریکہ ایک ہی کھیل کھیل رہے ہیں۔ امریکہ کی بمباری سے طالبان نہیں مرتے ان کے نام پر عام شہری مرتے ہیں۔ طالبان بھی امریکیوں کو کم ہی نشانہ بناتے ہیں۔ ملا عمر کے بعد ملا منصور آئے۔ وہ بھی فٹنہیں تھے چنانچہ مار دیے گئے، بعد کی صورتحال یکسر بدل گئی۔ اگر طالبان اشرف غنی سے مذاکرات کر کے قومی دھارے کا حصہ بن جائیں تو امریکہ انخلا پر مجبور ہو جائے گا لیکن یہ صورت حال ہے جو ایک ہی پیج پر موجود تینوں کھلاڑیوں میں سے کسی کو منظور نہیں۔ ہو سکتا ہے طالبان مخلص ہوں لیکن عملاً فائدہ کس کا ہو رہا ہے؟ صرف امریکہ کا۔ پشتونوں کی نسل کشی ہو رہی ہے۔ اچھی بات ہے کہ تاجک اور ازبک اس نسل کشی سے محفوظ ہیں۔ ٭٭٭٭٭امریکہ چاہتا ہے کہ یہ "جہاد" چلتا رہے۔ ایک پراسرار عمل کے ذریعے افغانستان کے بعض طالبان کو اس روایت کا قائل کیا گیا جس میں لشکر خراسان کا ذکر ہے۔ یہ روایت بیہقی، مستدرک حاکم، مسند احمد کے سوا اور بھی کئی کتابوں میں موجود ہے لیکن علمائے حدیث کا کہنا ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے۔ بعض نے اسے موضوع کہا ہے اور کچھ کا کہنا ہے کہ یہ ایک صحابی کا قول ہے۔ اور بس۔ اس روایت کو پھیلا کر یہ گنجائش پیدا کی گئی کہ طالبان کو پرجوش مذہبی خام مال ملتا رہے۔ پاکستان میں یہ روایت عوامی سطح پر عام ان صاحب نے پھیلائی جو اپنی سرخ ٹوپی اور گالم گلوچ کے لیے مشہور ہیں۔ بعدازاں جہاد کے علمبردار بن گئے۔ آج کل کم کم ہی نظر آتے ہیں۔ جنگلوں میں گھس کر بے مقصد جانوروں کو بھاری ہتھیاروں سے مارنے کا شوق رکھتے ہیں۔ شاید ان دنوں اسی شغل میں مصروف ہوں گے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ امریکہ کا چھوٹا موٹا اثاثہ ہیں۔ روایت میں کالے جھنڈوں کا ذکر ہے۔ طالبان کے جھنڈے کبھی کالے نہیں رہے۔ پہلے ان کا پرچم سفید تھا جس کے درمیان میں کلمہ طیبہ لکھا ہوتا تھا۔ بعدازاں تین رنگوں کا ہو گیا۔ طالبان کی حامی بعض جماعتوں کا پرچم سفید و سیاہ یعنی آدھی پٹیاں کالی آ دھی سفید۔ پھر روایت کے مطابق اس کالے جھنڈوں والے لشکر کو خراسان سے پاکستان جانا ہے، نہ کہ خراسان (موجودہ افغانستان اور ملحقہ پاکستانی و ایرانی علاقے) میں لڑتے رہنا ہے۔ یکسر کالا پرچم داعش کا ہے۔ کیا اس کے کرتوت لشکر خراسان والے ہیں؟ وہ تو امریکہ نے دنیا بھر کے مخلص جہادیوں کو ورغلا کر اپنی مرضی کے میدان جنگ میں لانے اور ان کا صفایا کرنے کے لیے بنائی تھی۔ ایک لاکھ افراد دنیا بھر سے عراق و شام جا کر مارے جا چکے ہیں۔ اب اس سے کچھ سٹریٹجک مقاصد حاصل کئے جا رہے ہیں۔ افغانستان میں داعش کے پیچھے امریکہ ہے۔ یہ بات بہت سے لوگ بتا چکے ہیں۔ لشکر خراساں والی روایت کی بابت جماعت اسلامی اور جے یوآئی کا کیا موقف ہے؟ وہ تو ہرگز نہیں جو میاں سرخ ٹوپ اور سی آئی اے کے بظاہر مخالف در حقیقت ارادت مند دیگر حضرات کا ہے۔ ٭٭٭٭٭وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے جو بیان دیا ہے وہ آنے والے حالات کا واضح اشارہ ہے۔ کہا ہے کہ سابق دور میں امریکہ سے تعلقات عملاً ختم ہو گئے تھے اب ہم نے امریکہ سے نیا رشتہ بنایا ہے تعلقات کو آگے بڑھانا ہے۔ یعنی اس بات کی تصدیق کر دی کہ امریکہ کی دھمکیاں امداد کی بندش وغیرہ اس سکرپٹ کا حصہ ہے، جسے دکھا کر عوام کو امریکہ کی ٹھیک باتیں ماننے کے لیے قائل کیا جائے گا اور نئے رشتے کی راہ ہموار کی جائے گی۔ امید ہے یہ نیا رشتہ اس رشتے سے زیادہ ہمہ جہتی اور زیادہ مضبوط ہو گا جو پرویز مشرف نے قائم کیا تھا اور بیچ میں دو ناہنجار پارلیمانی حکومتوں کی وجہ سے بالخصوص نواز دور میں تو بہت زیادہ خلل آ گیا تھا۔ اب خلل اندازی کرنے والے اڈیالے میں ہیں اور قومی مفاد کا چاند خطرات کی بدلیوں سے باہر نکل آیا ہے۔ اب ڈومور کی شاہراہ پر یک طرفہ ٹریفک بے خطر چلے گی۔ افغانستان کی گریٹ گیم کے نئے ایکٹ کا پردہ اٹھنے کو ہے اور اندرون ملک بھی بہت سی مثبت تبدیلیوں کی راہ کھلنے والی ہے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran